وومن کمیشن کی رپورٹ اور کرونا سے پیدا صورتحال
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
خیبر پختونخواہ وومن کمیشن کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق دارالامان میں لائی جانیوالی سب سے زیادہ خواتین گھریلو تشدد کی رہی جس کی شرح سال 2014 میں ریکارڈ ہوئی اور اس میں بتدریج اضافہ 2015میں ہوا جو ایک سال میں 173 ریکارڈ ہوا جو اس سے گذشتہ سال 120ریکارڈ کیا گیا تاہم بعد میں اس میں کمی آتی رہی دارالامان میں لائی جانیوالی جنسی ریپ کے واقعات دوسرے نمبر پر رہے طلاق کی شرح تیسری ' کم عمری میں شادی کی شرح چوتھی ' سورہ ' گھروں سے بھاگ کر آنیوالی خواتین کی تعداد سمیت بیوہ جن کا روزگار نہیں ہوتا ان میں شامل ہیں اسی طرح زنا کیسز سمیت بھیک مانگنے والے واقعات میں گرفتار ہونے والے خواتین کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے - |
|
صوبہ خیبر پختونخواہ کے صرف ایک ضلع سوات میں غیرت کے نام پر قتل خواتین کے قتل میں مسلسل اضافہ ہوا اور سال 2015 سے ریکارڈ کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق گھریلو تشدد کے واقعات میں بھی تیزی آئی ہیں اور یہ سب کچھ صرف ڈسٹرکٹ سوات کے مختلف علاقوں میں پیش آئے ہیں جن کی رپورٹس پویس کو ہوئی ہیں تاہم ان کی تعداد اصل میں بھی زیادہ ہے -جو کہ رپورٹ ہی نہیں ہوئی - خیبر پختونخواہ کمیشن فار دی سٹیٹس آف وومن کمیشن کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق غیرت کے نام پر قتل ہونیوالے واقعات سال 2015 میں 35 تھے جو کہ سال 2016 میں 44 ہوگئے جبکہ یہ تعداد سال 2017 میں 53 تک پہنچ گئے اسی طرح سال 2018 میں غیرت کے نام پر صرف سوات میں مرنے والے خواتین کی تعداد 63 ہوگئی تھی جبکہ سال 2019 کے صرف دس ماہ میں یہ تعداد 47 ریکارڈ کی گئی- یہ تعداد خیبر پختونخواہ میں وومن کمیشن برائے خواتین نے اپنے سالانہ رپورٹ 2019-20 میں جاری کی ہیں -
کمیشن کے رپورٹ کے مطابق ریپ کے واقعات سال 2015 میں 138 سال 2016 میں 164 سال 2017 میں 158 سال 2018 میں 216 جبکہ سال 2019 کے ابتدائی دس ماہ میں 193 ریکارڈ کئے گئے رپورٹ میں مزید بتایا گیاہے کہ صرف سوات میں گھریلو تشدد کے واقعات سال 2015 میں 247 سال 2016میں 336 سال 2017 میں 287 اور سال 2018 میں یہ تعداد 289 ریکارڈ کی گئی جبکہ سال 2019کے ابتدائی دس ماہ میں یہ تعداد 296 رجسٹرڈ ریکارڈ کی گئی - پولیس تھانوں میں رجسٹرڈ کئے جانیوالے صرف ضلع سوا ت کے کیسز میںغگ ایکٹ کی تعداد 31 سال 2015 میں رہی سال 2016 میں یہ تعداد30 رہی سال 2017 میں یہ تعداد 44 ریکارڈ کی گئی جبکہ سال 2018 میں 55 غگ کے کیسز رونما ہوئے جبکہ سال 2019 کے جنوری سے اکتوبر کے ڈیٹا کے مطابق غگ کے 50 کیسز رجسٹرڈ ہوئے -
یہ تعداد صرف ضلع سوات کے ہیں جبکہ صوبے کے دیگر اضلاع بشمول نئے ضم ہونیوالے اضلاع میں ہونیوالے ایسے واقعات کی کوئی تفصیل نہیں نہ ہی سال 2020 کا کوئی ڈیٹا شیئر کیا گیا ہے جس بڑی وجہ کروناسے پید ا ہونیوالی صورتحال ہے جس میں معیشت متاثر ہو کر رہ گئی ہیں اور کمانے والے افراد بشمول خواتین بھی گھروں تک محدود ہو کر رہ گئی جس کی وجہ سے ایسے واقعات کے بارے میں کوئی رپورٹ شیئر ہی نہیں ہوئی اور نہ ہی ایسا کوئی ڈیٹا جمع کیا گیا -جس کی بڑی وجہ کرونا ہے اور انتظامیہ سمیت بیشتر ادارے اب صرف کرونا اور ان کی خلاف ورزیوں پر توجہ دے رہے ہیں اور ایسے واقعات کی رپورٹنگ و پولیس ایف آئی آر بہت کم ہورہی ہیں-
خیبر پختونخواہ وومن کمیشن کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق دارالامان میں لائی جانیوالی سب سے زیادہ خواتین گھریلو تشدد کی رہی جس کی شرح سال 2014 میں ریکارڈ ہوئی اور اس میں بتدریج اضافہ 2015میں ہوا جو ایک سال میں 173 ریکارڈ ہوا جو اس سے گذشتہ سال 120ریکارڈ کیا گیا تاہم بعد میں اس میں کمی آتی رہی دارالامان میں لائی جانیوالی جنسی ریپ کے واقعات دوسرے نمبر پر رہے طلاق کی شرح تیسری ' کم عمری میں شادی کی شرح چوتھی ' سورہ ' گھروں سے بھاگ کر آنیوالی خواتین کی تعداد سمیت بیوہ جن کا روزگار نہیں ہوتا ان میں شامل ہیں اسی طرح زنا کیسز سمیت بھیک مانگنے والے واقعات میں گرفتار ہونے والے خواتین کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے -
خیبر پختونخواہ کمیشن فار دی سٹیٹس آف وومن کی رپورٹ کے مطابق سال 2019 میں یکم جنوری سے 31 اکتوبر تک رجسٹرڈ کئے جانیوالے خواتین کیساتھ پیش آنیوالے واقعات کی تعداد میں سب سے زیادہ قتل کے واقعات ریکارڈ کئے گئے جو کہ 217 تھے خواتین پر تشدد ' سٹو پھٹنے ' ریپ سمیت دیگر واقعات کی تعداد 587 ریکارڈ کی گئی اس سال سب سے زیادہ ریپ کے واقعات ہوئے جس کی تعداد 193 ریکارڈ کی گئی خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات بالکل نہیں ہوئے اسی طرح سال 2020کے یکم جنوری سے لیکر 31 مئی 2020 تک ریکارڈ کئے جانیوالے واقعات کی تعداد 243 ریکارڈ کی گئی جن میں قتل 96 اور ریپ کے 80 واقعات ٹاپ پر رہے اور یہ تمام واقعات ٹرائبل افیء ر ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخواہ ڈیپارٹمنٹ کیساتھ رجسٹرڈ ہوئے ہیں -
خواتین کے جیلوں میں رکھنے سے متعلق رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ صوبے کے با رہ مختلف جیلوں میں خواتین قیدیوں کی تعداد بڑھ رہی ہیں ان میں پشاور کا سنٹرل جیل رجسٹرڈ خواتین قیدیوں کیساتھ 57 کی تعداد میں ٹاپ پر ہیں ' مردان سنٹرل جیل میں 54 خواتین ' ہری پور سنٹرل جیل میں 12 خواتین ' ڈی آئی خان سنٹرل جیل میں یہ تعداد 5 بنوں سنٹرل میں خواتین قیدیوں کی تعداد 12 ایبٹ آباد جیل میں یہ تعداد 5 مانسہرہ کے سنٹرل جیل میں یہ تعداد 6 تیمرگرہ جیل میں یہ تعداد 20 ڈگر دیر جیل میں 8 اور چترال کے جیل میں ایک خاتون قیدی موجود ہیں صرف سات اور چارسدہ میں واقع واحد جیل ہیں جہاں پر خواتین قیدیوں کی تعداد نہیں ہے مردان ' ڈی آئی خان ' بنوں ' ایبٹ آباد اور مانسہرہ کے جیل میں ایسی خواتین قید ہیں جن پر تین سو دو کے کیسز ہیں - رپورٹ کے مطابق بیشتر جیلوں میں قید خواتین کے کیسز کے ٹرائل بھی شروع نہیں ہوئے اور یہ خواتین عرصہ دراز سے اپنی کیسز کے عدالتوں میں لائے جانے کے منتظر ہیں-
وومن کمیشن کی جانب سے جاری ڈیٹا سال 2019-20 تک جاری کیا گیا ہے اس میں دیگر اضلاع میں پیش آنیوالے واقعات کا کوئی ذکر ہی نہیں نہ ہی نئے ضم ہونیوالے اضلاع میں پیش آنیوالے واقعات کے بارے میں کوئی معلومات ہیں جس کی بڑی وجہ کمیشن کے دائرہ کار کے بارے میں کچھ واضح نہ ہونا ہے اسی طرح وومن کمیشن خیبر پختونخواہ کی حیثیت کے بارے میں بھی واضح نہیں اس طرح سال 2020-21 کے دوران صوبہ بھر میں پیش آنیوالے واقعات کے بار ے میں معلومات کی عدم فراہمی ہے-
زکواة و عشر ڈیپارٹمنٹ و سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے زیرسایہ کام کرنے والا ر وومن کمیشن ایک طرح سے صرف ریکمنڈیشن باڈی ہی بن کر رہ گیا ہے اس کے چیئرپرسن اور ممبران کے انتخاب کیلئے کوئی سرچ اینڈ سکروٹنی کمیٹی قائم نہیںنہ ہی اس بارے میں واضح ہدایات ہیں جس کی وجہ سے وومن کمیشن خیبر پختونخواہ اس طرح کام نہیں کرسکتی جس طرح دیگر صوبوں میں کام کررہی ہیں-
|