راقم الحروف
محمد برھان الحق جلالی
اللہ رب العزت نے انسان کو کروڑھا نعمتوں سے نوازا ہےاگرہم اللہ کی نعمتیں
گنناچاہیں تو انہیں شمار نہیں کر سکیں گےحضور نبی کریم ﷺ نے زندگی و موت کے
تمام معاملات میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ انسانی ضَروریات میں سےکھانے
پینے کے ساتھ ایک اہم ضَرورت نِکاح بھی ہے۔ اسلام نے نکاح کوعبادت اور
ایمان کی حفاظت کا ایک بہترین ذریعہ بھی قرار دیا ہے۔ اسلامی زندگی میں
شادی کا تصور بہت آسان ہے، نبیِّ کریمﷺ، صحابَۂ کرام اور اولیا و علماء نے
اس فریضے کو سادگی سے انجام دے کر ہمارے لئے بہترین نمونہ پیش فرمایا۔نکاح
کردو نبیِّ پاک ﷺ تو ہمیں اس بات کا دَرْس دیتےہیں کہ جب کوئی ایسا شخص
تمہیں نکاح کا پیغام دے جس کا دین اور اَخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے (اپنی
لڑکی کا) نکاح کردو۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ وفسادبرپاہوگا
اور بہت بڑا فساد برپا ہوگا۔ (ترمذی،ج2،ص344،حدیث:1086)
مفتی احمد یارخان علیہ رحمہ اس کے تحت فرماتے ہیں: جب تمہاری لڑکی کے لئے
دیندار عادات و اَطْوار کا درست لڑکا مل جائے تو محض مال کی ہَوَس میں اور
لکھ پتی کروڑپتی کے انتظار میں جوان لڑکی کے نکاح میں دیر نہ کرو، اگر
مالدار کے انتظار میں لڑکیوں کے نکاح نہ کئے گئے تو ادھر تو لڑکیاں بہت
کنواری بیٹھی رہیں گی اور ادھر لڑکے بہت سے بے شادی رہیں گے جس سے زنا
پھیلے گا اور زنا کی وجہ سے لڑکی والوں کو عار و ننگ ہوگی،نتیجہ یہ ہوگا کہ
خاندان آپس میں لڑیں گے قتل و غارت ہوں گے جس کا آج کل ظُہور ہونے لگا
ہے۔ ( مراٰۃ المناجیح،ج5،ص8)
ہمارا المیہ ہے کہ ہم نے اس کو مشکل سے مشکل تر بنا دیا ہے نکاح جیسی سنّت
کو حرام رسم و رَواج، ناجائز پابندیوں اور فضول خرچیوں سے مشکل سے بھی مشکل
تر بنا دیا ہے، اس سے لوگوں کا جینا دوبھرہوگیا ہے۔ شادی کو ہم نے ان
رسومات کے ذریعے مشکل بنا دیا ہے آج رشتہ کرنے کا معیار یہ بن چکا ہے کہ
لڑکا کتنا ہی آوارہ قسم کا کیوں نہ ہو، اس میں دینداری نام کی بھی نہ ہو،
بد اخلاق بد کردار ہو، تعلم یافتہ نہ بھی ہو، نہ کوئی ہنر ہاتھ میں ہو، پھر
بھی لڑکی والوں کا رشتہ تلاش کرنے کا معیار یہ بن چکا ہے کہ اسکی دولت،
زمین، کھیتی، پیسہ، بنگلہ، گاڑی، اسٹیٹس دیکھا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کے پاس
تو دنیا کی اہمیت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے تو کیا وحدہُ لا شریک اس
دیندار میڈل کلاس لڑکے کو مال و دولت سے نہیں نواز سکتا اصل چیز تو آخرت ہے
اسی طرح جب رشتہ طے پاتا ہے مختلف رسومات شروع ہو جکاتے ہیںمنگنی کے نام پر
نمودو نمائش اور پُرتَکَلُّف دعوتوں پرلاکھوں کے اَخْراجات کر دئیے جاتے
ہیں۔ فریقین میں سے کوئی ایک اگر اس خودساختہ معیار پر پورا نہیں اُترتا تو
اُسے برادری اور رشتہ داروں کے طعن و تشنیع برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ منگنی
توڑ دینے کی دھمکیاں بھی سننا پڑتی ہیں۔مگر جو معیار اسلام نے مقرر کیا اسے
ہم پس پشت ڈال دیتے ہیں دن تاریخ مقرر کرنا اب تو منگنی کے بعد دن تاریخ
مقرر کرنے پراجتماع کو ضروری بنا لیا ہے۔ ان دعوتوں میں بھی فریقین کھانے
کی ڈِشز اور سجاوٹ میں ایک دوسرے سےآگے بڑھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں
نکاح کو مشکل بنانے میں ایک کام شادی کارڈ کابھی ہے جس کو بہترسے بہترین
بنانے کے لئے ہم ہزاروں کیا لاکھوں لگا دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ کام زبانی
دعوت یا موبائل کے ذریعے بھی ہوسکتا ہے مہنگے مَلبوسات فی زمانہ مُتَوَسِّط
طبقے میں ہونے والی شادیوں میں بھی دولہا کے لئے ہزاروں کی شیروانی اور
دلہن کا ہزاروں کا لباس اور بیوٹی پارلر کا ہزاروں خرچہ دونوں خاندانوں کو
بنا رہا ہے مہنگے سے مہنگا ہوٹل بک کرانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔
نکاح کیلیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ شوہر لڑکی کا کھانے پہنے رہن سہن کا خرچ
اٹھانے کے قابل ہو، ایسی کئی احادیث نبوی ﷺ نکاح کےحوالے سے ملتی ہے جس میں
نکاح میں جلدی کرنے کیلیے کہاگیا ہے،
اسلام نے نکاح کو آسان بنایا ہے مگر ہم نے اس کو مشکل بنا دیا ہے۔خدارا
نکاح کو آسان بنائیے۔
|