‎ثناء ، مریم اور ہر گمنام پیکرِ ایثار و وفا کو سلام

دیس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں بسے ہوئے پاکستانیوں کے دل میں بسنے والی ثناء اور اس کا شریک حیات داؤد اب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ۔ نہ ہی ان کی کہانی اور حالات زندگی کو دوہرائے جانے کی ضرورت ہے ۔ واقعی میں ان کا تو صرف نام ہی کافی ہے اور دو ماہ پہلے رقم ہونے والی ، ایثار و وفا کی اس داستان کو عوام الناس تک پہنچانے کا سہرا بندھتا ہے بی بی سی اردو کے سر ۔ ان سے بات چیت کی تدوین شدہ محض آٹھ منٹ کی وڈیو اٹھارہ مارچ کو آن ایئر گئی اور پورے سوشل میڈیا پر چھا گئی ۔ چھوٹی سی معصوم اور بھولی بھالی سی مگر بہت بہادر پُر عزم اور شکرگزار سی مسیحی بچی ثناء راتوں رات دیسی سوشل میڈیا کی سب سے مقبول اور ہردلعزیز ہستی بن گئی اور اس کا محبوب خاوند داؤد تمام عوام و خواص کی توجہ اور تفکر کا مرکز بن گیا ۔ اور ان دونوں کا لوک رومانوی داستانوں کے کرداروں سے موازنہ کسی طرح بھی درست نہیں ہے ایک تو ان میں سے کسی کی بھی آپس میں شادی نہیں ہو سکی تھی دوسرا یہ کہ کچھ نسوانی کرداروں کا طرز عمل کسی طرح بھی مناسب نہیں تھا عاشقوں کی خاطر اپنے باپ بھائیوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا شوہر تک کو دھوکہ دینا کوئی خوبی کی بات تو نہیں ۔ اور کہیں اسی دھوکے بازی میں کچھ کو اپنی جان کی بازی بھی ہارنی پڑی ۔ مگر داؤد جیسے حادثے اور ثناء جیسے ایثار والے امتحان سے کسی کا پالا نہیں پڑا ۔ خدا انہیں ہمت و استقامت پر قائم رکھے اور ان کی آئندہ زندگی میں سکھ سکون اور آسانیاں عطا فرمائے ۔

وڈیو کو دیکھتے ہوئے آنکھیں نم ہوئے بغیر نہ رہ سکیں اور ذہن میں خیال آیا کہ اگر خدانخواستہ یہی حادثہ ثناء کے ساتھ پیش آ جاتا تو داؤد مرد ہونے کے باوجود اتنا جرأتمندانہ قدم نہیں اٹھا سکتا تھا جتنا ثناء نے ایک کمزور سی لڑکی ہونے کے باوجود اٹھایا ۔ اس نے اپنا گھر چھوڑ دیا اس کے صحیح یا غلط ہونے کی بحث پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ۔ مگر اتنا تو طے ہے کہ مرد کا دل بہرحال اتنا بڑا نہیں ہوتا اور اگر وہ اس سے بہت کم درجے کی بھی آزمائش کے موقع پر کچھ ہمت دکھانا بھی چاہے تو سب سے پہلے خود اس کے اپنے گھر والے کسی سیسہ پلائی دیوار کی طرح سینہ تان کے اس کے راستے میں آن کھڑے ہوں گے ۔ اور اگر وہ عملاً کچھ کر جائے تو اس کی اتنی حوصلہ شکنی اور بےاعتنائی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ وہ ہر طرف سے تنہا ہو کر ہمت ہار بیٹھتا ہے اور اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔

یو ٹیوب وزٹ کرتے ہوئے ایک تازہ وڈیو نظر سے گذری جو کہ ایک اینکر کی مریم اور عدیل نامی جوڑے سے ملاقات پر مبنی تھی ۔ ان کی اور ثناء داؤد کی کہانی میں تقریباً مماثلت نظر آئی ۔ عدیل نامی نوجوان کا تیرہ برس پہلے فیصل آباد سفر کے دوران چلتی ٹرین کے دروازے سے پیر پھسل گیا تھا اور نیچے گر جانے کے نتیجے میں وہ اپنی دونوں ٹانگوں اور ایک بازو سے محروم ہو گیا ۔ ڈیڑھ برس قبل وہ اپنے بھانجے کی ترغیب پر ٹک ٹاکر بن گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے فالوورز کی تعداد لاکھوں تک جا پہنچی ۔ اور ایک لڑکی مریم نے اس کا تمام حال اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود اس سے شادی کی خواہش ظاہر کر دی اور روایتی قسم کی تمام رکاوٹوں پنچائتوں اور نکتہ چینیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اب سے چھ ماہ پہلے عدیل سے شادی کر لی اور ہنوز اس کے ساتھ بہت خوش اور مطمئین ہے ۔ اور اس کا صاف مطلب ہے کہ ایثار و قربانی کی مثال پہلے مریم نے قائم کی تھی ۔ اور ہمیں اس بارے میں یو ٹیوب پر چھ ماہ قبل اپ لوڈ کیا گیا ایک منٹ پر مشتمل صرف ایک آڈیو نیوز کلپ ملا جس پر فقط چار سو ویوز لگے ہوئے تھے ۔ پھر گوگل پر سرچ کیا تو صرف دو ہی پوسٹیں نظر آئیں یعنی اس واقعے کا کوئی ایسا خاص چرچا نہیں ہؤا تھا اور اسے ایک معمول کی بات سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیا گیا تھا ۔ حالانکہ مریم بھی حوصلہ افزائی اور سراہے جانے کی اتنی ہی مستحق تھی جتنی کہ آج ثناء ۔ بلکہ ایسی اور اس سے ملتی جلتی اور بھی کئی مثالیں معاشرے میں موجود ہوں گی اور ان میں ضرور کہیں کچھ حصہ مردوں کا بھی ہو گا مگر ان کی قائم کردہ روایت کو منظر عام پر آنے کے مواقع میسر نہیں آئے وہ گمنام رہے ۔ ایسے تمام اعلیٰ ظرف با ہمت ، سماج میں رائج پیمانوں اور مخصوص معیارات و تصورات کو ٹھکرا کر کوئی اچھی روایت کی بنیاد رکھنے والے یہ منفرد لوگ بھرپور ستائش کے لائق ہیں تاکہ معاشرے کے نظروں سے اوجھل مثبت پہلو بھی اجاگر ہو سکیں اور تقلید کی فضا کو فروغ حاصل ہو ۔

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1854357 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.