جب آپ اچھا سوچتے ہیں تو آپ کی ملاقات زیادہ تر اچھی
چیزوں سے ہوتی ہے، آپ کی اچھی سوچ آپ کے لئے اچھائی کے دروازے کھول دیتی
ہے۔فطرت کا یہ اصول ہے کہ آپ جو کرتے ہو وہ آپ کا پیچھا کرتا ہے اور اس کئے
کی سزا یا جزا آپ کو ملنا ہوتی ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اچھا
کرنے والے لوگ دنیا میں بھی سرفراز رہتے ہیں اور رب کے انعام سے تو سرفراز
ہوناان کا مقدر ہوتا ہے۔ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ بعض لوگ جو بڑے عام نظر
آتے ہیں ، کس قدر بڑے آدمی ہوتے ہیں، درویش، کسی بھی انعام سے بے پرواہ،
انہیں لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ہوتی ہیں اور وہ ایسا فرض سمجھ کر
کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک آدمی جو قائد اعظم یونیورسٹی سے منسوب ٹھہرا پچھلے
ہفتے فوت ہو گیا۔ اس کے مرنے پر میں نے یونیورسٹی کے درودیوار کو سوگوار
پایا۔سوچتا ہوں کس قدر عظیم تھا وہ کہ جو پچاس سالہ یونیورسٹی کی تاریخ کے
ہر طالب علم کے دل کی دھڑکن تھا اور ہے۔
میں1971 سے 1973 تک قائد اعظم یونیورسٹی جو اس وقت اسلام آباد یونیورسٹی
تھ، کاطالب علم رہا۔ چند ماہ 1974 کے بھی وہاں گزارے۔ شاید یہ سارا عرصہ
میری زندگی کا بہترین دور تھا۔نومبر 1971 کو ہم لوگ 6th روڈ سٹیلائٹ ٹاؤن
راولپنڈی سے اسلام آبادنئے کیمپس شفٹ ہوئے۔ بڑا عجیب ماحول تھا۔ ہوسٹل کے
اندر تو خوب گہما گہمی مگر باہر نظر ڈالیں تو بس ویرانی ہی ویرانی چار سو
نظر آتی تھی۔سڑک سے ہٹ کر مختلف بلاکس کے درمیان کوئی راستہ نہ تھا۔ صرف
پتھر تھے کہ جن پر لڑھکتے ہم ہوسٹل سے ڈیپارٹمنٹ اور واپس ڈیپارٹمنٹ سے
ہوسٹل آتے تھے۔کھانے کی سہولت میس تک محدود تھی۔قریب تریں کھانے کی کوئی
دوسری جگہ بری امام کے کھوکھے تھے۔مگر فاصلہ اور راستہ ویران ہونے کے سبب
کوئی وہاں نہیں جاتا تھا۔ چائے کے ایک دو کھوکھے ان مزدوروں کی سہولت کے
لئے جو زیر تعمیر عمارتوں پر کام کر رہے تھے ،موجود تھے مگر طلبا کا رحجان
اس طرف نہیں تھا۔ پھر یونیورسٹی نے کیمپس میں موجود تمام چھوٹے چھوٹے
کھوکھے بھی ختم کر دئیے۔کچھ دنوں بعد کیمپس کی حدود سے باہر سڑک کے دوسری
طرف دو نئے کھوکھے وجود میں آ گئے، شاید یہ وہی لوگ تھے جن کے کھوکھے
یونیورسٹی نے ختم کر دئیے تھے۔ان نئے دونوں کھوکھے والوں نے تقریباً آٹھ دس
بندوں کے بیٹھنے کے لئے کرسیاں اور کچھ معمولی سامان سے اپنے کاروبار کی
ابتدا کی۔
ان دو نئے ہوٹلوں کے مالکان کا مزاج بھی مختلف تھا۔ہوسٹل سے کھوکھوں کی طرف
آئیں تو پہلے جس شخص کا ہوٹل تھا، وہ لڑکوں سے کٹ کر رہتا۔ اس کا لین دین
مزدوروں سے زیادہ تھا۔ کھانے کو کچھ ہو تو ٹھیک ورنہ دور ہی سے سب ختم کا
نعرہ لگا دیتا۔ مجھے ایک دن دوپہر ساڑھے تین بجے کھانے کی تلاش میں ان
کھوکھوں پر جانا پڑا۔ پہلے نے حسب روایت دور ہی سے جواب دے دیا۔ میں دوسرے
کے پاس گیا۔ بھلا شخص تھا ، دبلا پتلا ، مسکراتا نوجوان خالص پوٹھو ہاری
لہجہ ۔بڑے تپاک سے ملا۔ بسم اﷲ جی ، کیا کھائیں گے۔’’کیا پکا ہے‘‘، میں نے
سوال کیا۔ مسکرا کر بولا، گوشت ختم ہو گیا۔ ’’سبزی ہو گی‘‘، وہ بھی ابھی
ختم ہوئی ہے۔کوئی دال وال دے دو۔ وہ پھر مسکرا دیا۔ جناب ، آپ جیسے دوستوں
اور مہربانوں کی آمد کے باعث سب کچھ ختم ہو گیا ہے ، مگر آپ بیٹھیں، میں آپ
کو ٹماٹر پیاز بنا دیتا ہوں۔ ٹماٹر پیاز یہ کیا ڈش ہے۔ جناب آپ فکر نہ
کریں۔ بہترین دش ہے آپ کو مزا آئے گا۔ تھوڑی دیر میں ٹماٹر پیاز پر مشتمل
تیز نمک مرچ کے ساتھ بنا ہوا سالن میرے سامنے تھا۔ کہتے ہیں بھوک بہترین
چٹنی ہے۔ ساڑھے تین یا چار بجے جب بھوک اپنے جوبن پر ہوتی ، اس وقت ٹماٹر
پیاز پر مشتمل چٹنی نما سالن بھی بے انتہا مزیدار لگتا۔ یہ میری اس بھلے
شخص سے پہلی ملاقات تھی۔میں ہفتے میں دو یا تین دن لازمی لیٹ ہوتا اور میس
بند ہو جانے کے سبب اس بھلے آدمی کا مہمان ہوتا اور نوے فیصد ٹماٹر پیاز پر
ہی گزارہ ہوتا۔ اس شخص کا اوڑھنا بچھونا وہی ہوٹل تھا۔ آدھی رات کے بعد بھی
اسے اٹھا دیا جاتا تو ٹماٹر پیاز اور روٹی تو مل جاتی۔وہ بھلا آدمی کوئی
اور نہیں مجید تھا۔ وہ مجید جو آج پچاس سال بعد چند دن پہلے فوت ہوا تو
یونیورسٹی کی ایک اہم شخصیت کے طور پر جانا گیا۔
1972 میں ہوسٹل کے نوے فیصد طلبا غریب یا درمیانے درجے کے گھروں سے تعلق
رکھتے تھے، ان سب کا انتخاب میرٹ پر ہوا تھا اور میس کے اوقات سے ہٹ کر
انہیں کسی سستے ہوٹل کی تلاش ہوتی تھی کہ میس سے کھانا نہیں ملا تو سستا سا
کھانا کھایا اور گزارہ کر لیا۔کبھی پیسے لیٹ ہو جاتے اور میس سے پیسے وقت
پر جمع نہ کرانے کے باعث کھا نا ملنا بند ہو جاتا تو ایسے حالات میں مجید
ان کا آخری سہارا ہوتا۔ہمارے وقت میں مجید سے ادھار کھانا مل تو جاتا تھا
مگر لوگ بہت سوچ سمجھ کر اس کی منت کرتے کہ دس پندرہ دن کا ادھار درکار ہے
تو وہ ہنس کر اجازت دے دیتا۔ بعد میں مجید کا انداز بھی عجیب ہو گیا، لوگ
آتے کھانا کھاتے اور اپنے نام کے ساتھ رجسٹر ڈمیں رقم درج کرا کر چلے
جاتے۔اس نے کبھی کسی سے یہ نہیں پوچھا کہ ادائیگی کب ہو گئی۔پچھلے سال مجید
سے ملاقات ہوئی تو میں نے بنس کر کہا، مجید بھائی تم نے تو ہماری شروع کی
کئی نسلوں کو ٹماٹر پیاز پر ہی پالا ہے۔کہنے لگا کہ جناب کیا یاد دلایا۔ وہ
آپ جیسے لوگ تھے جو ٹماٹر پیاز بھی مزے سے کھا جاتے تھے، اب وہ دور کہاں،
دس ڈشیں بھی پکی ہوں تو ان بچوں کی پسند سمجھ نہیں آتی۔۔ آج نہ وہ سادہ دل
طلبا ہیں، نہ وہ پیاز کا ذائقہ ہے اور نہ ہی ٹماٹر میں وہ مزہ۔ میں ہنس دیا
کہ لڑکوں کی بات تو سمجھ آتی ہے مگر پیاز اور ٹماٹر کا ذائقہ کیسے بدل سکتا
ہے۔ لوگوں سے پیسے لینے کی بات ہوئی تو پتہ چلا کہ ہر سال سینکڑوں لڑکے چکر
لگاتے ہیں اور خود ہی یہ کہہ کر کہ آپ کی اتنی رقم دینی ہے لے لیں۔ رقم دے
کر چلے جاتے ہیں۔مجید نے نہ کبھی مانگا اور نہ ہی کسی کو شرمندہ کرنا چاہا۔
یہ کام وہی کر سکتا ہے جسے رب نے بڑا حوصلہ دیا ہو اورجو ایک بہت بڑا شخص
ہو۔
مجید کی وفات پر یونیورسٹی کے طلبا کا اس کا احسان مند ہونااور ااس کی
خدمات کا احساس کرنایقیناً ایک بہترین فعل ہے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ ان پچاس
سالوں میں بہت سے لوگ آئے، کینٹین بنائی مگر مجید کا نعم البدل نہیں ملا۔
اس کی کینٹین آج بھی اس کے بچے چلا رہے ہیں ، اب وہ سائز میں بھی ایک بڑی
کینٹین ہے اور پرانے طالب علموں کے لئے ایک پرانی یاد۔میرے جیسے جب بھی
وہاں جاتے ہیں تو مجید ہٹ پر بیٹھ کر ماضی کی بھولی بھٹکی یادوں سے الجھے
رہتے ہیں، بہت کچھ یاد آتا اور آپ کو ماضی کے شاندار لمحوں کو یاد دلاتا
ہے۔میری دعا ہے کہ رب العزت مرحوم کے درجات بلند کرے اور اس نے جامعہ کے
طالب علموں سے جو رشتہ نباہا ہے اس کا عظیم اجرپائے۔
|