وفاق المدارس العربیہ پاکستان ہی نہیں دنیا کا سب سے
بڑامذہبی تعلیمی بورڈ ہے, 2354 امتحانی مراکز میں 16081مرد، خواتین اساتذہ
کی نگرانی میں 420442 سے زائد طلبا وطالبات مختلف کلاسز کے امتحانات دے
رہیں۔
ملک کے مدارس کی طرح بین الاقوامی دینی درسگاہ جامعہ بنوریہ عالمیہ میں بھی
وفاق المدارس العربیہ کے تحت مختلف مدارس کے طلبہ امتحانات میں شریک
ہیں۔(آج )امتحان ہال میں جانے کا موقع ملا تو دورہ حدیث کے طلبہ کا بخاری
شریف کا کافی مشکل پرچہ تھا کچھ طلبہ کے چہروں پر پریشانی اور بے چینی کے
اثار نمایہ نظرر آرہے تھے مگر کیا کرتے بیچارے یہاں تو خیانت،نقل اور رشوت
کا تصور ہی نہیں، کسی طالب علم کو پریشان دیکھ کر نگران کو خندہ پیشانی سے
فقط تبسم کی ہی اجازت ہوتی یا وہ صرف سوال سمجھا سکتاہے۔جہاں پر طالب علم
کو نقل کے نقصانات کا پتا ہے وہی پروہ اس بات کا بھی یقین بھی ہے، اگر وہ
پکڑے گئے تو ان کے لیے کسی معافی یا سفارش کی گنجائش نہیں ہے ، نگران کو
بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے، وہ جانتا ہے کوئی فرد یا کیمرا نہ بھی
دیکھے، وہ پاک ذات سے کہاں چھپ سکتاہے جو ہر ہر چیز دیکھتی ہے اور جانتی
ہے۔
امتحان کے وقت کا آغاز کراچی سے کشمیر اور گلگت سے بلوچستان تک ایک ہی وقت
میں ہوتاہے ،امتحان ہال میں داخلے کے وقت نگران دروازے پر کھڑے طلبہ کی
تلاشی لیتے ہیں، کتاب یا کوئی قابل اعتراض چیز نظر آئے، موبائل فون، کوئی
مشکوک چیز یا اضافی کاغذ طالب سے برآمد ہو تو اسے امانتا دروازے پر اس طالب
علم کا رول نمبر درج کرکے رکھ لیا جاتاہے، پرچہ حل کرکے جب وہ نکلتا ہے تو
اس کی چیز اسے حوالے کی جاتی ہے، اسی طرح امتحان ہال کے چاروں اطراف میں
متعلقہ یا غیر متعلقہ اجبنی یا رشتہ دار کسی کو جھانکنے کی اجازت نہیں ہوتی
اطراف میں باقاعدہ نگران کھڑے ہوتے ہیں۔
صبح جب سوالیہ پرچوں کے پیکٹ امتحان ہال میں پہنچتے ہیں تو نگران سینٹر
پابند ہے کہ وہ سب کے سامنے سیل توڑےاورطلبہ اساتذہ سے تصدیق حاصل کرے کہ
پرچوں کا پیک پہلے نہیں کھلاہے اس کے بعد پرچے تقسیم کیے جاتے ہیں اور اسی
یقین دھانی کے ساتھ اختتام میں حل شدہ پرچے پیکٹ میں بند کرکے مرکزی دفتر
روانہ کیے جاتے ہیں۔
جوابی کاپی میں کوئی بھی ایسا نشان نہیں ہوتا جس سے یہ پتا چل سکےکہ یہ کس
صوبے کے کس مدرسے کے کس طالب علم کا پرچہ ہے۔
اکثر امتحان گاہیں فرشی زمین اور بڑے ہالز ہوتے ہیں جن میں میٹرک سے لیکر
دورہ حدیث تک کے طلبہ فاصلے کے ساتھ ایک ساتھ امتحان دیتے ہیں، دائیں بائیں
نو(9) طلبہ کے بعد ہی کوئی ہم کلاس ساتھی نظر آتاہے،جس سے سرگوشی یا
اشاروں میں بھی معاونت لینا یا دینا ممکن نہیں ہوتا۔
یہ ہے وفاق المدارس کے امتحان ہال کا وہ منظر جو راقم اپنی آنکھوں سے دیکھ
چکا ہے، اس کے برعکس عصری ادارے جہاں مال و ٹیکنالوجی کی فروانی،ملکی
مشینری اور تعاون ہمیشہ سے رہتاہے، وہ چاہیں تو امتحان ہال میں کیمرے لگاکر
مانیٹرنگ کریں یا وہ پر طالب علم نگران مقرر کریں، مگرافسوس ہر آنے والی
حکومت دعویٰ کرتی ہے پڑھے لکھے پاکستان کا مگرتعلیمی نظام کی اس بڑی اور
اہم خرابی کی طرف توجہ نہیں دی جاتی ،ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ وفاق المدارس
العربیہ پاکستان کےاس امتحانی نظام سے فائدہ اٹھایا جاتا اور ایسا ہی مربوط
ومضبوط نظام قائم کیا جاتا جو نونہالوں کے ذہنوں سے نقل و رشوت کا تصور ختم
کرے ،تاکہ ان کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں اور ملک تعلیمی لحاظ سے
مضبوط ہو۔
آج عصری تعلیم کانام آتے ہی نونہالوں کے ذہن میں سب پہلے نقل ورشوت کے
ذریعے پاس ہونے کا تصور آتاہے اور پھر یہ بچے سوچتے ہیں جب نقل و رشوت سے
ہی پاس ہونا ہے تو پھر محنت کا کیا فائدہ؟۔
یہ بات ایک مسلم حقیقت ہے اگر معاشرے میں نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر
دیانت داری، نیک نیتی اور خلوص دل کے ساتھ محنت کی جائے تو نوجوان اپنے
معاشرے کی روشن و مثالی تقدیر کے ضامن ہوتے ہیں ۔جس معاشرے میں نوجوانوں کی
تعلیم و تربیت کو ثانوی حیثیت دی جائے تو ایسے معاشرے تباہ و برباد ہوتے
ہیں اور نظام امتحان میں بہتری کے بغیر نوجوانوں کی تعلیم وتربیت میں بہتری
کی توقع نہ کسی نے کی اور نہ ہی ایسا ممکن ہے ۔
قوم کے نونہالوں کے مستقبل کو بہتر بنانے کےلئے حکومتیں جہاں تعلیمی نصاب
میں بہت سی تبدیلیوں کے خواہاں ہیں وہی پر طریقہ امتحانات کو بھی بہتر
بنانے کی کوشوں پر توجہ دینی ہوگی اور اس کے لیے وفاق المدارس العربیہ
پاکستان کے ذمہ داروں کی بھی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
|