پنجاب لائبریری اسکول پروجیکٹ
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
|
تحریرو تحقیق:ذوالفقار علی بخاری برقی پتہ: [email protected]
لفظ لائبریری لاطینی زبان ”لبرا“سے ماخوذ ہے جس کے معنی چھال اور کتا ب کے ہیں۔کتب خانہ کو انگریزی میں Library کہا جا تاہے لائبریری کا لفظ پڑھنے، تحقیق کرنے یا دونوں مقاصد کیلئے باقاعدہ کسی ایک جگہ کتب ومخطوطات کو اکھٹا کرنے کے معنوں میں استعمال کیا جاتاہے۔کتب خانہ کا بنیادی مقصد علم کی حفاظت اور ترسیل ہے۔ مسلمانوں نے کتب خانوں کو ”معلوماتی مرکز“ کا نام دیا تھا۔تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بنی نوع انسان کے تہذیب یافتہ دور میں قدم رکھتے ہی کتب خانوں کا آغاز ہو گیا تھا۔ انسان کا دنیا میں آنکھ کھولتے ہی لکھنے پڑھنے کی جانب رجحان تھا۔ اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے مٹی کی تختیوں، جانوروں کی جھلی اور لکڑی کی تختیوں کو استعمال کیا گیا بعدازں چین میں کاغذ کی ایجاد عمل میں آئی۔
فن تحریر کے ساتھ ہی کتب خانوں کے قائم ہونے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔ قدیم دور کے کتب خانوں میں آشور بنی پال، کتب خانہ اسکندریہ اور کتب خانہ پرگامم قابل ذکر ہیں۔ آشور بنی پال کے کتب خانے میں دولاکھ تیس ہزار مٹی کی تختیاں تھیں اور اس کتب خانے کو پہلا عوامی کتب خانہ بھی کہا جا تا ہے۔ جبکہ پرگامم کا مواد پیپرس رولز اور پارجمنٹ پر مشتمل تھا اور یہ ذخیرہ دولاکھ کے لگ بھگ تھا۔ دنیا کا پہلا منظم کتب خانہ اسکندریہ تھا اس میں منہ مانگی قیمت پر کتب خرید کر رکھی جا تی تھیں۔
اس میں رکھے گئے مواد کو مضامین کے اعتبار سے رکھا جاتا تھا۔ اس کا قیام 323ق۔م میں مصر میں عمل میں آیا اور اس میں ذخیرہ کتب سات لاکھ تھا۔ اس کی تعمیر و قیام میں بطیموس دوم نے اہم کردار سرانجام دیا تھا۔ پرانے وقتوں کے عظیم کتب خانوں کی دو اہم خصوصیات علم دوستی اور حکمرانوں کی ذاتی دلچسپی اور ان کی ہیت و تنظیم میں ہم آہنگی تھی۔ نجی کتب خانوں کا بانی ارسطو کو کہا جا تاہے۔ ارسطو نے کتب خانوں کی تنظیم و ترتیب سائنسی بنیادوں پر رکھنا شروع کی تھی۔ یونانی کتب خانوں میں ادب، تاریخ، سائنس، ریاضی، فلسفہ، مذہبیات، سیاسیات اور اخلاقیات جیسے موضوعات پر ذخیرہ کتب زیادہ تھا۔آپ کو یہ بات جان کر شایدحیرت ہو کہ مغل بادشاہ ہمایوں وہ بادشاہ تھا جو کتب خانہ کی سیڑھیوں سے پھسلا اور بعد میں انتقال کر گیا۔
تعلیم اورکتب خانے ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں کوئی تعلیمی درسگاہ ایک منظم کتب خانے کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہوسکتی۔ تعلیمی اداروں میں نصابی ضرورت محض نصابی کتابوں سے پوری نہیں ہو سکتیں لہذا تحقیقی ضروریات کیلئے اضافی کتابوں کا ہونا ضروری ہے۔ جنہیں منظم تعلیمی کتب خانوں کی صورت میں رکھا جا سکتاہے۔معاشرتی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ عوام مروجہ علوم اور زمانے کے تقاضوں سے آگاہ ہوں۔ عوام کی علمی سطح جتنی بلند ہوگی ملک اتنی ہی ترقی کرے گا۔علم کے حصول کا سب سے بڑاذریعہ ہمارے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں مگران میں صرف نصابی تعلیم دی جاتی ہے۔تعلیمی ادارے علم کی انتہاء نہیں بلکہ لوگ یہاں سے اپنے راستے سے آگاہ ہوتے ہیں۔ عملی زندگی کے راستے پر مسلسل گامزن رہنے کا ذریعہ کتب خانے ہیں۔ ان کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ صحیح معنوں میں علم کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ لہذا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جو راستہ تعلیمی ادارے سے نکلتا ہے وہ کتب خانہ میں آکر ختم ہو جاتاہے۔ کیوں کہ یہ کسی بھی شخص کی معلومات کا بہترین ذریعہ ہیں۔یہاں پر ہر قسم کا علم بغیر کسی پابندی اور رکاوٹ کے مل جاتا ہے۔
معروف ماہ نامہ انوکھی کہانیاں کراچی کے مدیر اعلیٰ اورالٰہی پبلی کیشنزکے روح رواں محبو ب الٰہی مخمور کی وساطت سے یہ بات علم میں آئی ہے کہ کچھ عرصہ قبل پنجاب میں پنجاب لائبریری اسکول پروجیکٹ کا منصوبہ چل رہا تھا جس کے ذریعے مختلف ادیبوں کی کتب کو اسکولوں کی لائبریریوں میں تقسیم کرایا جاتا تھا۔اس حوالے سے دل چسپ بات یہ ہے کہ ادیبوں کو رائلٹی بھی دی جاتی تھی جو کہ اُن کے لئے بہترین آمدن کا ذریعہ بھی تھی۔اس سلسلے میں جرمنی کی غیر سرکاری تنظیم تعاون کیا کرتی تھی جس کے بعد کثیر تعداد میں کتب کی اشاعت ممکن ہوتی ہے۔پنجاب کے طول وعرض کے اسکولوں میں مفت کتب بھیجی جاتی تھیں جس کا مقصد بچوں کو مطالعہ کی طرف مائل کرنا اور معاشرے کو علم و آ گہی کی جانب راغب کرنا تھا۔وقت گذرنے کے ساتھ اس میں بھی چند مسائل پیداہوئے اور یہ منصوبہ اپنی آخری سانس لے کر اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔اس منصوبے میں کئی قابل اورفرض شناس افسرکام کرتے تھے جن کی علم دوستی بے حد مشہو ر تھی، ان میں سے ایک محمد حسین رضوی صاحب تھے، موصوف غالبا اب اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔ پنجاب لائبریری اسکول پروجیکٹ کا منصوبہ بے حد شاندار تھا جس کو جاری رہنا چاہیے تھا، آج بچوں کی دل چسپی کے دیگر تفریحی ذرائع موجود ہیں مگر اب وہ پڑھنے سے دور ہو چکے ہیں۔
اس حوالے سے راقم السطور حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت سے مذکورہ منصوبہ ازسرنو شروع کرنے کی التماس کرتا ہے تاکہ اسکولوں میں نہ صرف لائبریریوں میں رونق ہو سکے بلکہ ادیبوں کے حالات بھی بہتر ہو سکیں۔اگر دیکھا جائے تواس منصوبے سے کئی افراد کو روزگار بھی حاصل ہو سکتا ہے جن میں ادیب ،ناشر ، بائنڈر ، کاغذ کی فراہمی کے ادارے، کتب کی ترسیل اور فروخت کرنے والے یہ سلسلہ ایک طرح ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کے لئے روزگار کا ذریعہ جس سے معاشی صورتحال بھی بہتر ہو سکتی ہے۔دنیا میں ایسی ہزاروں این جی او ہیں جو عام افراد کی فلاح و بہبود کے لئےکام کررہی ہیں اور علم و ادب خاص کر صحت و تعلیم کے لئے اربوں روپے کی امداد ترقی پذیر ممالک کو دیتی ہیں ان کی شرط صرف یہ ہوتی ہے کہ دی جانے والی رقم ایمان داری سے خرچ کی جائے۔ ہماری حکومت ان سے درخواست کرکے علم کے فروغ کی خاطر بہت کچھ حاصل کرسکتی ہے جس سے نہ صرف یہاں علمی ادبی تحقیق ہو گی بلکہ یہ ہماری آ ئندہ نسلوں کی علمی و تہذبیی ترقی میں نہ صرف معاون مددگار ثابت ہوگی، بلکہ تفریحی کتب سے بچوں کو بھی معیاری ادب بھی پڑھنے کو مل سکے گا۔ اس سے تمام معاشرہ خوش حال ہوگا اور پاکستان اپنی نشاہ ثانیہ کی جانب گامزن ہو گا انشاء اللہ۔ |