ڈاکٹر خولہ علوی
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر یہ سوال ذہنوں میں ابھر کر جواب کا طالب
ہوتا ہے کہ "مردوں کا عالمی دن" (Men's International Day) کیوں "خواتین کے
عالمی دن" کی طرح نہیں منایا جاتا؟
کیا مردوں کے کوئی حقوق نہیں ہیں یا وہ صرف فرائض کی ادائیگی کے پابند
بنائے گئے ہیں؟
ویسے تو 19 نومبر دنیا میں "عالمی یوم رجال" کے طور پر منایا جاتا ہے لیکن
کتنے لوگوں کو اس بارے میں علم ہوتا ہے؟
کتنے دھوم دھام سے یہ دن "سلیبریٹ" کیا جاتا ہے؟
مردوں کے کتنے مسائل سامنے آتے ہیں اور ان کا تدارک کیا جاتا ہے؟
دراصل اس دن کا مقصد مردوں کے حقوق کی بات کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد
مردوں کے صحت کے حقوق کی طرف توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے۔
"مردوں کا عالمی دن" پاکستان میں بھی منایا جاتا ہے اور یہ سلسلہ 2010ء سے
جاری وساری ہے۔ پاکستان میں "رائٹس اینڈ رائٹس" نے مظفر گڑھ سے اس دن کو
منانے کے معاملے کی ابتدا کی تھی۔
حقوق نسواں کے نعروں کے ساتھ ساتھ
آج پاکستان میں نوجوان لڑکے اور۔
مرد بھی اپنے ساتھ ہونے والے امتیازی رویوں پر باتیں اور اعتراضات کرنا
شروع ہو چکے ہیں۔ اور "حقوق رجال" (Men's rights) کے متقاضی ہیں۔
اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کو ایک دوسرے کے لیے ناگزیر اور
لازم و ملزوم بنایا ہے۔ مرد کو عورت پر ایک درجہ فوقیت عطا کرکے اسے زیادہ
ذمہ داری عطا کی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ:
(الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ
بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ)
(النساء 4 :34)
ترجمہ: "اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں کا نگران مقرر کیا ہے۔ اس وجہ سے
کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت عطا کی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ
مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔"
اصل میں عربی لفظ "قوام" ہے جس کے معنی و مفہوم میں بڑی وسعت ہے اور اردو
کا لفظ "نگران" یا "محافظ" اس لفظ کے ترجمے کا صحیح حق ادا نہیں کر سکتے۔
نبی اکرم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں ہمیں لفظ "قوام" کے معنی و مفہوم پر عمل
پیرا ہو کراور اسے مثال (role model) بنا کر دکھایا ہے۔
مردکو بحیثیت قوام اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اپنی زیرِ کفالت
عورتوں کو خوراک، لباس اور رہائش مہیا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ (تفسیر ابنِ
کثیر، ج1، ص492؛
تفسیر جامع الاحکام القرآن المعروف تفسیر قرطبی)
اللہ تعالیٰ نے تمام بیرونی معاملات مردوں کے سپرد کیے ہیں جن میں کما کر
لانا اور اس کمائی کو اپنے والدین، بیوی بچوں پر (اور اگر دیگر افراد ان کے
زیرِ کفالت ہوں تو ان پر بھی) خرچ کرنا ان کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ اس
کے علاوہ مردوں پر نکاح کے بعد بیوی کے حق مہر کی ادائیگی لازمی ہوتی ہے۔
ماؤں اور بہنوں کو وراثت کی ادائیگی بھی مردوں کے لیے فرض ہوتی ہے۔
وہ صنف نازک کا محافظ اور ذمہ دار بنایا گیا ہے. شادی شدہ زندگی میں بھی
اللہ تعالیٰ نے مرد و زن دونوں کو برابر قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ :
(ولهن مثل الذى عليهن بالمعروف.) (البقره 2: 228)
ترجمہ: "عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے سے ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے
حقوق ان پر ہیں۔"
قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے مردوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
*"وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ" (النساء 4 :19)
ترجمہ: "عورتوں کے ساتھ بھلائی کے ساتھ زندگی گزارو۔"
مرد گھر کا مالک اور محافظ ہے اور اس سے اس ذمہ داری کی ادائیگی کے متعلق
پوچھ گچھ بھی ہو گی۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
((کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیته) (صحیح بخاری: 5082؛ صحیح مسلم: 2527)
ترجمہ: "تم میں سے ہر کوئی نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں
پوچھا جائے گا۔"
نبی مہربان ﷺ نے اپنی پوری حیات طیبہ میں اپنی قریبی رشتہ دار خواتین سے
ہمیشہ بہترین سلوک کیا جن میں چاروں بیٹیاں اور تمام ازواجِ مطہرات کے
علاوہ پھپھیاں، چچیاں اور دیگر رشتہ دار خواتین وغیرہ بھی شامل ہیں۔
رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، رضاعی بہن شیماء رضی اللہ
تعالٰی عنہا اور دایہ امِ ایمن رضی اللہ عنہا وغیرہ سے بھی آپ ﷺ نے بہترین
تعلقات کی مثال قائم کی۔
آپ ﷺ نے اپنے اہل خانہ سے اپنے رویے اور اخلاق و کردار کے بارے میں ارشاد
فرمایا :
(خيركم خيركم لأهله و انا خيركم لاهلى۔) (جامع ترمذی :3895)
ترجمه : "تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں سے بہترین رویہ
رکھتا ہے اور میں تم میں سے اپنے گھر والوں کے ساتھ بہترین رویہ رکھتا
ہوں۔"
نبی کریم ﷺ نے مردوں کو عورتوں سے حسن سلوک کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ
"استوصوا بالنساء خيرا" (صحیح مسلم: 1468)
ترجمہ: " تم عورتوں سے بھلائی کے بارے میں میری وصیت کا خیال رکھو۔"
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ:
رُوَيْدَكَ سَوْقًا بِالْقَوَارِيرِ.(صحیح بخاری: 6149)
"(عورتیں شیشے کی طرح ہیں) تم آہستہ آہستہ چلو ان آبگینوں کو چلانے میں۔"
شوہر ہی بیوی کا اصل محافظ ہے:
ہمارے سماج میں عورت کو مظلوم و مجبور ثابت کرنے اور مرد کو ظالم و جابر
بتا کر پیش کرنے اور اس کا پراپیگنڈا کرنے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ الیکٹرانک
اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی مرد کی کردار کشی کا رجحان
بڑھتا جا رہا ہے۔
واٹس ایپ، فیس بک، انسٹا گرام اور ٹوئیٹر وغیرہ پر مرد کو فرعون اور نمرود
و شداد سے بھی زیادہ ظالم بتا کر پیش کیا جاتا ہے۔ کہیں مضامین، کہانیوں،
افسانوں میں، کہیں ڈراموں اور فلموں اور آڈیو، ویڈیو کلپس میں۔ کہیں لطیفوں
اور مزاح میں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پھکڑ بازی میں بھی مردوں کو حقیقت سے
برعکس بتایا اور دکھایا جارہا ہے۔
افسوس صد افسوس! کہ کہیں مرد کو خواتین کا "قوام" کے بجائے ان کا جابر و
قہار قسم کا آقا بنا کر دکھایا جاتا ہے۔ اور کہیں اسے اس کی حیثیت سے گرا
کر نہایت گھٹیا کردار کا حامل دکھایا جارہا ہے۔
اور بے حد پریشانی کی بات یہ ہے کہ جذباتی خواتین ایسے پروپیگنڈہ سے بہت
متاثر ہو کر اپنا دل و دماغ گروی رکھ کر ایسی باتوں پر ایمان لے آتی ہیں۔
جب عورت کے دماغ میں ایسی باتیں بیٹھ جائیں تو پھر گھر بنتے نہیں، تباہ و
برباد ہوتے ہیں۔ خاندان کے بگاڑ سے معاشرہ میں تباہی و بربادی جنم لیتی ہے۔
امت مسلمہ کی عزت مآب بیٹیاں اور خواتین مغرب کی ایجاد کردہ نت نئی بظاہر
دل فریب مگر زہر قاتل اصطلاحات کو اپنی آزادی اور عزت سمجھ رہی ہیں مثلاً
لبرلزازم، فیمینزم ، سیکولرازم ، صنفی مساوات، وومنز امپاورمنٹ وغیرہ اور
ان کے دام فریب میں آکر مزید پریشانیوں میں مبتلا ہورہی ہیں۔ اور مغربی
تہذیب وثقافت کی طرف مائل ہو رہی ہیں۔
مغربی سوچ اور پروپیگنڈا کے تحت سوشل میڈیا پر یہ تاثر مسلسل بڑھایا جارہا
ہے کہ شوہر بیوی کا سب سے بڑا دشمن ہے جو اس پر پابندیاں لگاتا اور روک ٹوک
کرتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مرد ہی بیوی کا اصل محافظ ہوتا ہے۔ مرد کے
کردار و عمل میں جہاں کمی و کوتاہی ہو، وہاں اس کی اصلاح ضرور کرنی چاہیے،
لیکن اس کی کردار کشی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ چیز ہمارے معاشرے کو تباہی و
بربادی کی طرف لے کر جا رہی ہے۔
؎ نے پردہ، نہ تعلیم ، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زَن کا نگہباں ہے فقط مرد
مردوں کو چاہیے کہ وہ اپنا مقام و مرتبہ پہچانتے ہوئے عورت کو گھر سے بلا
ضرورت باہر جانے کی اجازت دے کر یا ان کے آگے مجبور ہو کر یا انہیں زبردستی
معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے پر مجبور کرکے انہیں پریشان یا رسوا نہ
کریں اور نہ ہی جدیدیت یا لبرلزم کے نام پر عورت کو شمع محفل بنانے کی کوشش
کریں۔
؎ ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا
مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں
قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں
گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں
فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور
کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں
خواتین کا عالمی دن منانے والی ان نسوانی تحریکوں اور این-جی-اوز کی تو یہ
سوچ ہوتی ہے کہ مرد ظالم اور غاصب ہے، لہذا وہ عورتوں کو حق کیوں دے گا؟ اب
خود عورتوں کو آگے بڑھ کر، کما کر اپنے آپ کو مضبوط بنانا ہے اور اس کے لیے
وہ حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ عورتوں کو مضبوط کرنے کے لیے ہر دفتر
و محکمہ اور ہر ادارے میں ان کے لیے 50 فیصد کوٹہ مقرر کرلے اور سیاست میں
بھی ان کا فعال کردار ہونا چاہئے۔
تو جان لینا چاہیے کہ یہ صرف ان اداروں اور این - جی- اوز کی سوچ ہے اور
عملی صورتحال مختلف ہے۔ مسلمان مرد ہر حال میں غاصب نہیں ہوتا البتہ بعض
اوقات وہ مجبور ضرور ہوتا ہے.
کچھ مردوں کو ان کی ذمہ داریوں کی ادائیگی قبر تک پہنچا دیتی ہے۔ بلکہ ان
کے فرائض انہیں بوڑھا ہی نہیں ہونے دیتے۔ ان کی آرام کی عمر بھی کاموں کی
نذر ہوجاتی ہے۔ اور وہ ماں باپ اور بیوی بچوں کی ذمہ داریاں پورا کرتے کرتے
اس جہان تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں۔ اور پھر اسی اثناء میں دار فانی کی
طرف کوچ کر جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ
کیا وہ بیٹا جس کی جنت اس کی ماں کے قدموں تلے رکھی گئی ہے،کیا وہ غاصب ہے؟
کیا وہ بھائی جو اپنی بہن کی عزت و عصمت کا رکھوالا ہے، کیا وہ غاصب ہے؟
کیا وہ باپ جو بیٹی کی شادی کے سلسلے میں فکر مند ہے، کیا وہ غاصب ہے؟
کیا وہ شوہر جو اپنی تنخواہ لا کر بیوی کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے، کیا وہ
غاصب ہے؟
مرد اس وقت غاصب ہوتا ہے جب وہ خود سماجی نا ہمواریوں اور طبقاتی ظلم و ستم
کا شکار ہونے کی بنا پر اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے کما کر لانے سے
محروم رہ جاتا ہے۔ باقی رہ گئے جاگیردار، سرمایہ دار اور مل اونر جو
اسمبلیوں میں بیٹھے عورتوں کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں۔ ان کو اپنا رویہ
عورتوں کے بارے میں ضرور بدلنا چاہیے۔
مسلمان عورتوں کے لیے رول ماڈل تو صرف ان المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ
عنہا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضرت آسیہ زوجہ
فرعون، حضرت مریم بنتِ عمران (امِ عیسیٰ) جیسی نیک اور عزت مآب خواتین ہیں
جو جنت کی خواتین کی سردار ہوں گی۔
؎حجاب و شرم وحیا زندگی ہے عورت کی
جو یہ نہ ہو تو برابر ہے پھر وجود عدم
وہی ہے راہ تیرے عزم و شوق کی منزل
جہاں ہیں عائشہ و فاطمہ کے نقش قدم
(رضی اللہ عنہما)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|