”مستقبل کے معمار“: پاکستان کی نوجوان نسل کو کیسا ہونا چاہیے؟
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
|
تحریر : ذوالفقار علی بخاری
ہمارے ہاں ”مستقبل کے معمار“کی اصطلاح نئی نسل کے حوالے سے بولی جاتی ہے، کیونکہ انہوں نے آنے والے وقت میں نہ صرف اپنی ذات بلکہ ملک کے لئے بھی بہترین خدمات سرانجام دینی ہوتی ہیں۔جب بھی بات مستقبل کی ہوتی ہے تو یہ بات ضرور دیکھی جاتی ہے کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق نوجوان کیا کچھ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جب تک مستقبل کے تقاضوں کے مطابق نئی نسل کو اپنی صلاحیتوں کو منوانے کا جذبہ نہیں ہوگا تب وہ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے، یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ نئی نسل میں اپنی ذات پر اعتبار کرنے اور کچھ کر کے دکھانا ضروری ہے تاکہ وہ کسی بھی شعبہ میں آکر ملک کی تقدیر کو بدلنے کی کوشش کرسکیں۔اپنی ذات پر جب اعتبار ہوگا تو دلیرانہ فیصلے کرنے کی بھی طاقت رکھتے ہونگے۔یہ تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ اپنی ذات پر جولوگ اعتبار کرتے ہیں وہ قوت فیصلہ کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں اوروہی بروقت فیصلے کرکے مشکل سے نکل سکتے ہیں۔اسی طرح سے کوئی نوجوان اگر خود کو مشکل سے نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہوگا تو وہی کسی بھی عہدے پر فائز ہو کر اپنے شعبے میں درپیش مسائل کو حل بھی کرا سکے گا۔
نوجوان نسل کو دور بین بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ وقت سے پہلے حالات کا جائزہ لے کر آنے والے حالات کے مطابق خود کو تیار کر سکیں جب تک ایسا نہیں ہوگا تو جب مشکل پیش آئے گی تو وہ گھبرا جائیں گے اور جب وہ اس طرح سے الجھن کا شکار ہو جائیں گے تو پھر وہ کسی لمحے کمزور پڑ جائیں گے اور پھر وہ کسی بھی نازک لمحے میں منفی طرز فکر کا شکا ر ہو کر گمراہی کی دلدل میں بھی پھنس سکتے ہیں۔ اس طرح سے جوانوں میں حالات سے لڑنے کی بھی طاقت ہونی چاہیے اور یہ تب حاصل ہوگی جب وہ مثبت طرز فکر رکھیں گے۔ یہ تو آپ کے علم میں ہوگا کہ جب ہم منفی سوچ رکھتے ہیں تو پھر ہم بے شمار مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں اور جب ہم منفی سوچتے ہیں تو پھر ہمیں مشکلات میں محض بند گلی ہی نظر آتی ہے اور ہم کوئی بھی راستہ تلاش نہیں کر سکتے ہیں۔ اس لئے مثبت سوچ کا حامل ہونا بھی مستقبل کے نوجوانوں کے لئے بے حد ضرور ی ہے کہ جب تک وہ مثبت سوچ نہیں رکھیں گے وہ اپنے آپ پر بھی یقین کامل نہیں رکھ سکیں گے اور جب وہ اپنے آپ پر یقین نہیں رکھیں گے تو پھر وہ کیسے خود کو آگے لے کر جا سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں نوجوانوں کو ہنرمندی کی بجائے نوکری کی طرف جانے کاکہا جاتا ہے جو کہ ایک منفی طرز عمل کہا جا سکتا ہے کہ آج کے دور میں معاشی طور پر استحکام حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جوان کاروبار کی طرف آئیں اور اپنی صلاحیتوں کو منوائیں۔اپنے کاروبار کی ترقی کے لئے وہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق اگر خود کو ڈھال لیں گے تو پھر اُن کی کامیابی بہت جلد ممکن ہو سکتی ہے۔ اس لئے ان کو اپنے اندر سچ بولنے اور جھوٹ سے نفرت کرنے کی عادت کو پیدا کرنا ہوگی۔جھوٹ سے نفرت ہوگی تو پھر نوجوان سچ کی جنگ لڑنے میں کوئی بھی شرم محسوس نہیں کریں گے۔ ہمارے ہاں نوجوانوں کی شروع سے تربیت ہی ایسی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ مکروفریب کی جانب مائل ہوں اور بد تہذیبی کی طر ف جائیں۔اس کی بنیادی وجہ معاشرے میں پائی جانے والی فرسودہ روایات بھی ہیں تو نوجوانو ں کو روایت شکن بھی ہونا چاہیے اور خود کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق معاشرے کا حصہ بنائیں۔
پاکستان کی نئی نسل کو بڑوں کا ادب کرنے والا ہونا چاہیے۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہمارے دین کی تعلیمات بھی یہی ہیں کہ ہم بڑوں کا ادب کریں، اس حوالے سے نئی نسل کو اپنے اندر برداشت کا مادہ زیادہ پیدا کرنا ہوگا اور کڑوی باتوں کے جواب میں پیار اور محبت سے اپنی بات سے دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔اگرچہ یہ بہت مشکل عمل ہے مگر ہمارے ہاں عدم برداشت کی وجہ سے قتل وغارت ہو جاتی ہے اور پھر معاشرے میں بدامنی بھی پھیلتی ہے تو اس لئے اس رجحان کی کمی کے لئے ضروری ہے کہ نئی نسل اپنے آپ کو ماضی کی روایت کے برعکس ڈھال کر ایک پرامن معاشرے کی بنیاد رکھے تاکہ امن و امان اور بھائی چارے کی فضا میں یہاں لوگ اپنی زندگیوں کو بسر کر سکیں۔
نئی نسل کو ملک میں غربت کے خاتمے کے لئے کوشش کرنی چاہے اگر چہ یہ انفرادی طور پر کیے جانے والا عمل نہیں ہے لیکن نئی نسل مل کر اس کے خلاف کام کرے تو ملک کی بیشتر آبادی کو معاشی طور پر بہتر حالت میں لا کر ملک کی تقدیر کو بدلا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو اپنے آپ کو تعلیم سے آراستہ کرنا تو بے حد ضروری ہے جب تک ہم تعلیم یافتہ نہیں ہونگے تو تب تک ہم شعور حاصل نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی بہتر طور پر شعور بیداری کی کوئی مہم چلا سکتے ہیں تو اس لئے علم حاصل کرنے کی کوشش بھی کرنا چاہیے۔
دوسروں کی مدد کا جذبہ بھی نئی نسل میں ہونا چاہیے، ہمارے پاس عبدالستار ایدھی اورامجد ثاقب کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی تھیں، نئی نسل کو اس حوالے سے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے دین کی بھی تعلیمات ہیں کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا ذکر ہے تواس حوالے سے بھی نئی نسل کو سوچنا چاہیے اور ایسے نئے رجحانات کی جانب قدم اُٹھانا چاہیے، جس سے وہ بہترین طور پر اپنے ملک کی عوام کی حالت کو بدلنے کی خاطر کچھ اچھا کر سکیں اور یہ ثابت کر سکیں کہ یہ قوم دنیا کی بہترین اقوام میں سے ایک ہے۔۔ختم شد۔
|