اللہ تعالیٰ نے ا خلاق آغاز فطرت
میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو دیااورحضرت آدم علیہ السلام سے
انبیاءاور رسولو ں نے تر کہ میں پایا ہے یہاں تک کہ حضرت سیدِعالم ﷺتک
پہنچااور آپ سے آپ کی امت کو ملا ہے۔ اسی طرح تمام برے اخلاق تقسیم کے وقت
شیطان کو دیے گئے اوراس سے متکبروں اورنا فر مانی کرنے والوں تک پہنچے اور
یہی شیطان کی امت کہلائے ۔تو جو کوئی شریعت کی پیروی میں زیادہ مضبوط ہو گا
اُس کی خصلت بھی اچھی ہو گی ۔ کیونکہ اچھی خصلت والا بارگاہ خدا وندی میں
زیادہ عزیز ہو تا ہے ۔جب اچھا اخلاق حضرت آدم علیہ السلام کا ترکہ ہے اور
خدا وندِ جہان کی طرف سے تحفہ دیا گیا ہے تو مومن کے لئے اچھی خصلت سے بڑھ
کر اور کوئی آرائش و زیبائش نہیں ہے ۔نیک اخلاق کی حقیقت احکامِ خدا وندی
کی بجا آوری اور رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنا ہے ۔کیونکہ آپ کا رہن سہن اور
آپ کے جملہ حرکات و افعال اللہ تعالیٰ کو بہت پسند تھے ۔تو جو شخص آپ ﷺ کی
پیروی کرتا ہے اس کو لازم ہے کہ اس طرح زندگی بسر کرے جیسی حضور اکرم ﷺ نے
کی ہے تو ضروری ہے کہ اپنے اور غیر کے دور و نزدیک والوں کے ساتھ اچھا برتاﺅ
رکھے ۔ لوگوں کے ساتھ بد مزاجی سے پیش نہ آئے ، تاکہ مروت مٹ نہ جائے اور
بد خصلتی نہ کرئے تاکہ خوش دلی میں فرق نہ آنے پائے ۔ ہر وقت ہنس مکھ اور
کم بولنے والارہے جس سے ملے پہلے خود سلام کرے ۔کیونکہ حضرت محمد مصطفےٰﷺ
کی ملاقات اصحاب کے ساتھ اگر ایک دن میں سو مرتبہ بھی ہوتی ،تو آپ ﷺ ہر بار
سبھی لوگوں کو سلام کرتے تھے۔ جو کچھ اس کو میسر ہے اسی میں سخاوت کرے ۔کیونکہ
حضور اکرم ﷺ کی عمر میں کبھی اس کا موقعہ نہ آیا کہ رات تک آپ ﷺ کے پاس ایک
درہم یا ایک دینار باقی بچا ہو۔ اگر اتفاق سے کچھ رہ جاتا تو جب تک کسی کو
دے نہ دیتے آپ ﷺ حجرے میں تشریف نہ لے جاتے۔ کسی کی غیبت ،گالی اور جھوٹ
زبان سے نہ نکالے اور اپنے کاموں میں زیادہ تکلف اور بڑھاﺅ چڑھاﺅ کرنے سے
پرہیز کرے ۔کیونکہ اچھے اخلاق کی صفت بے تکلفی اور سادگی ہے ۔اپنے احوال
واعمال اور گفتگو میں سچائی کے دامن کو نہ چھوڑے اور شریعت کی اتباع میں
کھانا ،سونا ،پہننا اور بولنا کم کر دے اور ہر حال میں ہمت بلند رکھے اور
کسی لالچ کے ساتھ اپنے کو آلودہ نہ کرے اور شک و شبہ اور برباد کردینے والے
خیالات سے کنارہ کشی اختیار کرے اور اس کی کوشش کرتا رہے کہ ہر حال میں
حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے اخلاق کی پیروی ہو ۔جہاں تک ہو سکے برے اخلاق سے
پرہیز کرے ۔بلکہ اُسے اپنے پاس بھی نہ آنے دے تاکہ اس کی نسبت شیطان سے نہ
ملنے پائے اور کسی وقت شیطان کی طرح بد کر دار اور بد زبان نہ ہو ۔حضور
اکرم ﷺ سے نقل ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا’ جو تجھ سے کٹ جانا چاہے اس سے مل اور
جو تجھ پر ظلم کرے اُس کو معاف کر دے اور جو تجھ کو کچھ نہ دے تو اس کو دے
“۔حضور اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان تھا کہ لوگوں کو اللہ کی راہ پر
لانے کےلئے حکمت کے ساتھ نرم الفاظ میں نصیحت فرمائیں ،جو بہت اچھے ہوں ۔جب
موسیٰ علیہ السلام کو ہارون علیہ السلام کے ساتھ فرعون کی تبلیغ کےلئے
بھیجا گیا تو اُن سے کہا گیا ۔فَقُولَا لَہ قَولًا لَیِّنًا۔(اس سے نرم
گفتگو میں باتیں کرنا)۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
میں نے دس برس تک حضرت سرورِ عالم ﷺ کی خدمت کی ۔ اتنے دنوں میں کسی کام پر
مجھ کو نہیں کہا کہ تونے کیوں کیا؟ یا برا کیا۔جب میں اچھا کام کرتا تو آپﷺ
دعا دیتے تھے اور جب کوئی کام خراب ہو جاتا تھا تو فرماتے تھے ۔وَکَانَ
اَمرُ اللّٰہِ قَدَرً مَّقدُورًا۔(اللہ کا حکم اس کی قدرت میں پوشیدہ تھا
)۔وہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ اپنے گھوڑے کا دانہ گھاس خود دیتے ۔اپنے ہاتھ سے
کپڑے سیتے اور پیوند لگاتے ،گھر کے کاموں میں خادموں کے ساتھ شریک ہو جاتے
،جوتوں کے بند ٹوٹ جاتے تو اپنے دستِ مبارک سے ٹانکتے ،خود جھاڑو دیتے اور
چراغ جلاتے تھے ۔اگر کسی کو آپ ﷺ کوئی کام کرنے کے لئے کہتے اور وہ اپنی
حماقت اور نادانی کی وجہ سے نہ کرتا اور دوسرے لوگ اس پر لعن طعن کرتے اور
تکلیف پہنچاتے تو آپ گوارانہ فرماتے اور اس کی اجازت نہیں دیتے ۔حضور اکرم
ﷺ کی تمام عمر گالی گلوچ، طعنہ و تشنیع کے الفاظ زبان پر نہیں آئے ۔ آپ کا
چہرہ مبارک ہمیشہ ہنستا ہوا ہوتا اور اگر کوئی مسلمان آپ ﷺ کے پاس پہنچ
جاتا تو آپ ہی سلام کےلئے سبقت فرماتے اور اصحاب کے ساتھ اس طرح گھل مل کر
بیٹھتے تھے کہ کوئی امتیاز نہ ہوتا تھا ۔یہاں تک کہ اجنبی کو پہچاننے میں
شبہ ہوتا تھا کہ حضور اکرم ﷺ کون ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عزت و
تکریم کی وجہ سے اُن کے نام نہ لیتے بلکہ ان کی کنیت وغیرہ سے پکارتے تھے ۔اگر
کسی کی کنیت نہ ہوتی تو اس کی ایک کنیت آپ خود رکھ دیتے اور اگر صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم میں سے یا کوئی دوسرا شخص آپ کو پکارتا تو آہ لبیک فرمایا
کرتے تھے ۔اگر بچوں کی منڈلی کی طرف سے گزرتے تو اُن کو سلام کرتے اور
مسلمانوں کا عیب ہمیشہ چھپایا کرتے تھے ۔جیسا کہ ایک چور کو آپ ﷺ نے فرمایا
۔اَسرَقتَ قُل لَا ۔(تو نے چوری کی ؟ کہہ دے نہیں)بال بچوں اور غلاموں کا
حق برابری کے ساتھ جس طرح شریعت میں ہے لحاظ رکھتے اور دین کی تبلیغ کرنے
میں کفار کی گالیاں ،لعن طعن اور مارتک برداشت کرتے ،کبھی کسی سائل کو
محروم واپس نہ کرتے ۔اگر کچھ موجود ہوتا تو دیتے ورنہ فرماتے اگر خدا نے
چاہا تو ہم دیں گے ۔اپنے کام کےلئے آپ کسی پر غصہ نہ کرتے اور دین حق کے
اعلان میں خوف سستی اور تغافل نہ فرماتے ۔ پریشانی اور بیماری کی حالت میں
اپنے دوستوں کی مدد کرتے ۔اگر کسی وقت ان کو نہ دیکھتے تو ان کے گھر تشریف
لے جاتے تھے۔ اگر آپ ﷺ کا غلام بیمار پڑجاتا تو اُس کی جگہ آپ خود اس کا
کام انجام دیتے تھے ۔ بازار سے سودا لادیتے تھے ۔آزاد اور غلاموں کی دعوت
قبول فرماتے اور تحفہ لے لیتے تھے ،اگر چہ ایک گھونٹ دودھ ہی کیوں نہ ہوتا۔
آپ کے یار دوست جو کھانا بھی ،اگر جائز ہوتا جیسے خرگوش وغیرہ پیش کرتے تو
شوق سے کھالیتے ۔کبھی کھانے میں عیب نہ نکالتے اور جو کپڑا جن کا پہننا
مباح ہے جب کبھی مل جاتا تھا پہن لیتے تھے ۔کبھی کمبل ،کبھی یمن کی چادر،
کبھی کھدر اور کبھی سفید کپڑا پہنا کرتے تھے ۔ اور جو سواری مل جاتی تھی اس
پر سوار ہوتے تھے ۔کبھی گھوڑا ،کبھی اونٹ ،کبھی گدھا ،کبھی پیدل، کبھی ننگے
پاﺅں، کبھی بغیر کسی چادر کے اور کبھی بغیر پگڑی اور ٹوپی کے راستہ چلتے
تھے ۔جیسا موقع ہوتااور اُس چٹائی پرجس پر کوئی بستر نہ ہوتا آرام فرماتے
تھے ۔کوئی شخص آزاد یا غلام یا لونڈی باندیوں میں سے اپنی ضرورت کےلئے آپ
کو بلاتا تو کبھی ایسا نہ ہوا کہ حضور اکرم ﷺ نے اُن کے کاموں کو قبول نہ
کیا ہو ۔اگر کوئی شخص کسی ضرورت سے آپ کے پاس آتا اور آپ نماز میں مشغول
ہوتے تو آہستگی کے ساتھ جلد نماز پوری کر کے اُس کی طرف متوجہ ہو جاتے اور
اُس کی ضرورت پوری کر کے پھر نماز پڑھنے لگتے ۔جو کوئی آپ ﷺ کے پاس آتا تھا
اُس کی تعظیم فرماتے تھے اور اس کے بیٹھے کو اپنی چادرِ مبارک بچھا دیتے
تھے اور اپنا تکیہ اس کو دے دیتے تھے۔ اگر وہ آپ کے آداب و احترام کا لحاظ
کر کے انکا ر کرتا تو آپ اس کو قسمیں دیتے اور لے لینے پر مجبور کرتے ۔حضرت
امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے لئے آپ سواری بن جاتے اور وہ
دونوں لاڈلے آپ ﷺ کی پشتِ مبارک پر سوار ہو جاتے ۔جس جس طرح وہ کہتے ویسا
ہی کرتے تھے ۔ان سب باتوں کی روایت حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کی
ہے اور حدیثوں کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے ۔اس طرح کے اخلاق آپ ﷺ میں تھے جو
بیان کیے گئے اور اسی طرح کے بے شمار اخلاق آپ سے مروی ہیں ۔اگر آپ ﷺ کے وہ
معجزے بھی نہ ہوتے تو یہ اخلاقِ حمیدہ اور صفاتِ پسندیدہ ہی آپ کے برحق و
برگزیدہ اصول ہونے کے ثبوت میں کافی ہیں ۔چنانچہ کتنے دشمن اور انکار کرنے
والے ایسے گزرے ہیں کہ محض آپ ﷺ کو دیکھ کر ہی پکار اُٹھے تھے کہ ۔لَیسَ
ھٰذَا وَجہُ الکَذَّابِینَ۔ (یہ جھوٹ بولنے والوں کا چہرہ نہیں ہے ۔)
اور فوراًایمان لے آتے تھے اور اسلام قبول کر لیتے تھے ،بغیر کسی معجزہ اور
دلیل کے یہی وہ اخلاق ہیں جو علم والوں نے طریقت کے راستے میں اختیار کیے
ہیں ۔ہر حالت میں یہ لوگ شریعت کی پیروی کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور اپنے
اخلاق کو سنتِ نبوی ﷺ کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں ۔جب تک کوئی شخص شریعت میں
محقق نہ ہو گا طریقت سے اُس کو کوئی فائدہ نہ پہنچے گا اور اس اخلاق کی جڑ
معرفت کی پاکیزگی اور صفائی تک نہیں پہنچ سکتا ۔اس راستے کے چلنے والے کے
لئے ضروری ہے کہ اپنی بصیرت سے اس درجے پر پہنچنے کی کوشش کرے اور انہیں
اخلاق نبوی ﷺ سے آراستہ ہو جائے اور جو کچھ خدا کی بخشش کی وجہ سے حاصل ہو
جائے اُسے محفوظ کرے ۔کیونکہ بہت سے اخلاق اور حال محنت اور کوشش سے تعلق
رکھتے ہیں ۔ انسان کو بعض کام کے حاصل کرنے کےلئے مختار بنا دیا گیا ہے ۔
انسان کا نفس آئینہ کی طرح ہے ۔جب اس کی تربیت ہوتی ہے تو اپنے کمال کے
درجے پر پہنچ جاتا ہے اور انسانی صفت کے زنگ سے پاک و صاف ہو جاتا ہے
اوراللہ تعالیٰ کے جلال و جمال کا جلوہ اپنی ذات میں دیکھنے لگتا ہے ۔اُس
وقت اپنے کو پہچانے کہ واقعی وہ کیا ہے اور کس لئے پیدا کیا گیا ہے ۔ جیسا
کہ ایک بزرگ نے اس کی طرف ارشاد کیا ہے ۔
”کتاب خدا وندی کا خلاصہ توہی ہے ۔جمالِ شاہی کے دیکھنے کا آئینہ تو ہی ہے
۔جہاں میں جو کچھ ہے وہ تیری ذات سے باہر نہیں ہے ۔اپنے اندر تلاش کر
کیونکہ سب کچھ تو ہی ہے۔“ اور یہ شریعت طریقت اور حقیقت کے راستے پر چلنے
ہی سے حاصل ہو سکتا ہے ۔کوشش برابر کرنا چاہےے ۔کیونکہ یہ تو معلوم نہیں کہ
کس کنجی سے یہ تالا کھلے گا ۔یا کس خوش نصیب کی قسمت میں یہ دولت رکھی ہے
۔ہمیشہ ہمیشہ کی حکمرانی ہر بادشاہ کو نہیں دی جاتی اور عزت و بزرگی کا تاج
ہر ایک کے سر پر نہیں رکھا جاتا ۔جیسا لوگوں نے کہا ہے ۔”ہر سلیمان کو ملک
حبش نہیں دیتے ۔اُس کے غم کا عطیہ ہر ایک دل اور جان والے کو نہیں ملتا۔“
اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ ہزار عالم پیدا کیے مگر انسان کے سوا ان باتوں سے وہ
سب نا آشنا ہیں ۔ان میں سے کسی اورکو کوئی حصہ نہیں دیا گیا ہے ۔ایسی بزرگی
موجوداتِ عالم میں سے کسی دوسرے کو نہیں دی گئی ۔یہیں سے ہے جو کہا ہے
۔اونچے اور نیچے کی پناہ تو ہی ہے ۔ساری چیزیں مٹ جانے والی ہیں باقی رہنے
والی ایک تیری ہی ذات ہے ۔
الحمد للہ ہم مسلمان اور مومن ہیں۔لیکن موجودہ دور میں ہمارے اخلاق ناقابل
برداشت حد تک ترش اور تند ہو گئے ہیں۔چغلی ،غیبت ،جھوٹ، گالی گلوچ اور عیب
جوئی ہمارا شغل بن چکا ہے ۔ہمیں اخلاقِ عظیم کے حامل رسول کریم ﷺ کے امتی
ہونے کے ناطے سے ہر ممکن حد تک اپنے اخلاق میں سنتِ نبویﷺ کی جھلک کو لانا
ضروری ہے تاکہ معاشرہ اخلاق نبوی ﷺ کے خوشبوﺅں سے ایک بار پھر معطر ہو جائے
۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے اخلاق کی دولت سے مالا مال فرمائے۔آمین |