تحریر: مرادمقصود
تخلیق ِ آدم سے ہی خالق ِ کائنات نے انسان کو علم اور اظہارِ خیال کی
خوبیوں سے سرفراز کیا۔تب سے انسان بول اورلکھ کراپنے خیالات کا اظہار کرتا
چلا آرہا ہے۔کمالِ بیان اور قوتِ تحریرکوبلند پایہ انسانوں کی نمایاں
خوبیوںمیں شمار کیا جاتا ہے۔صحافت بھی انہی دو صلاحیتوں کے اظہار کا نام
ہے۔صحافت سچائی، حق گوئی اور داد رسی کی حامل ہو تو کارِ پیغمبری ہے ۔اچھا
صحافی مورخ بھی ہوتا ہے اور مصور بھی کیونکہ وہ معاشرے کے رجحانات اور
رویوں کوعوام کے سامنے لاتا ہے جو بعدازاں قوموں کی تاریخ کا حصہ بنتے
ہیں۔اس لحاظ سے صحافت معاشرے کا آئینہ ہے جس میں اسکی تصویر صاف طور پر
دیکھی جا سکتی ہے۔
ذرائع ابلاغ نشریاتی ہوں یااشاعتی ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔موجودہ
دور کو اگر ذرائع ابلاغ کا دور کہا جائے توغلط نہ ہو گا۔ یہ ذرائع ابلاغ ہی
کا کرشمہ ہے کہ جو کسی بات کا آغاز کرتا ہے تو پھر بس ہرخاص و عام کی زبان
پر وہی ہوتا ہے ۔اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا اس کے علاوہ کوئی اور موضوعِ
گفتگو ہے ہی نہیں۔قیام پاکستان کے بعد سے 2000ءتک پاکستان میں ذرائع ابلاغ
کا کرداراگرچہ محدود رہاتاہم قومی کردار کی تعمیر، تہذیبی و اخلاقی اقدار
کی پاسداری اور اصلاح احوال پربھی حتی المقدورتوجہ دی گئی۔لیکن 2002ءسے
ذرائع ابلاغ کا جن بوتل سے نکلنے کے بعد اب تک پاکستان میں 90پرائیویٹ ٹی
وی چینلزکام کررہے ہیں جن میں 26صرف خبروں کی فراہمی اور حالاتِ حاضرہ سے
متعلق ہیں جبکہ 130پرائیویٹ ایف ایم ریڈیو سٹیشن بھی اپنی نشریات کا آغاز
کر چکے ہیں۔اس کثرت کی بنا پر پاکستانی ذرائع ابلاغ اب پہلے سے کہیں زیادہ
آزاد اور بااثر ہے۔ آج پاکستانی ٹی وی چینلزپر ناظرین کوحیران اور پریشان
کرنے کے لیے حکومت اور سکیورٹی اداروں کے خلاف طرح طرح کے پروگرام دیکھنے
کو مل رہے ہیں۔ خبروں کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے سے پیدا ہونے
والا ”ابلاغی انقلاب“ اب ملک کے سماجی، سیاسی، معاشرتی اورمعاشی مفادات
کونہ صرف نقصان پہنچارہا ہے بلکہ عوام کی سوچ اور فکر کے دھارے پر بھی گہرا
اثر مرتب کررہا ہے ج۔یہی وجہ کہ یہ نام نہاد انقلاب اپنے ہی ملک کی نظریاتی
اور اخلاقی سرحدوں کوکھوکھلا کرنے میں ممدومعاون ثابت ہورہا ہے۔
ذرائع ابلاغ معاشرے میں رائج روایات کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک ایسے ضابطہ
اخلاق پرعمل پیرا ہوتے ہیں جو مذہب، ثقافت اورتاریخ سے حاصل کیا جاتا
ہے۔اور اس ضابطہ اقدار کے بعض حصے تو واضح ہیں جس میں ملک کو ہمیشہ عزت دی
جاتی ہے جبکہ کہ رشوت،دھوکہ دہی اور دروغ گوئی کو برا تصور کیا جاتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کی نشریات کی نگرانی اور میڈیا سے متعلق قانون کے نفاذکے لیے
قائم کردہ ادارہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)کی طرف
سے2002ئ،2007ءاور 2009ءمیں میڈیا کے لیے اخلاقی ضوابط جاری کئے گئے ۔موجودہ
ترمیم شدہ ضابطہءاخلاق کے مطابق ذرائع ابلاغ کو تشدد آمیز واقعات کی براہِ
راست کوریج کرنے ،انتہا پسندوں کے بیانات شائع یا نشرکرنے سے منع اورریاستی
اداروں کو بدنام کرنے والا مواد شائع کرنے سے متنبہ کیا گیا ہے۔ا نہیں ایسی
آراءکا اظہار کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے جو نظریہ پاکستان یا استحکام ِ
پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے ۔لیکن بدقسمتی سے صحافتی طبقہ ہر ضابطے کو
آزادی ِ صحافت پر پابندی اور سنسر شپ کی ثقافت کو فروغ دینے کے مترادف سمجھ
کر اس پر عمل پیرا ہونے سے گریز کرتا رہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اخبارات
اور ٹی وی چینلز عوام میں حق سچ کی بجائے سنسنی خیزی پھیلانا، اپنے ذاتی
مفادات حاصل کرنا اور غیر ذمہ دارانہ صحافت سے غیر ملکی ایجنڈے کی ترویج
کرتے نظر آتے ہیں۔
بے شک پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے عوام کو شعور و آگہی بخشی ،مگربہت سارے
معاملات میں غیر ذمہ داری کا مظاہر بھی کیا جاتا ہے۔جیسا کہ رواں ماہ یکم
جون کوایک پرائیوٹ ٹی وی چینل نے براہِ راست شو میں جنید نامی نوجوان کی
خصوصی گفتگوکو نشرکیا گیاجس میں اس نے پی این ایس مہران بیس پر حملہ منصوبہ
بندی کی جھوٹی کہانی سنا کردنیا میںپاک فوج اور پاکستانیوں کے تشخص کوخراب
کرنے کی کوشش کی ۔اسی طرح دہشتگردی کے شکار افراد کی تصویر کشی، Exclusive
Footageلکھ کر ملبے تلے دبے افراد کو براہِ راست نشر کرنا،اسپتال کے اندر
گھس کر دوران علاج زخمیوں سے پوچھنا کہ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں اورخبروں
کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے سچ جھوٹ کی پرکھ کیے بغیر
نشرواشاعت غیرذمہ داری نہیں تو اورکیا ہے؟ ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے
کہ ہم بحیثیت قوم اس وقت نازک ترین موڑ پر کھڑے ہیں اوردہشتگردوںنے ملک کو
جس تباہی سے دوچار کیا ہوا ہے ذرائع ابلاغ کو اس وقت ذمہ داری کا مظاہرہ
کرتے ہوئے ملکی مفادات کو اولین ترجیح دینی چاہیے تاکہ دشمن عناصر کی حوصلہ
شکنی ہو ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جیسے جیسے پاکستانی ذرائع ابلاغ کی صنعت ترقی کی منازل
طے کرتے وسیع تر سامعین تک پہنچ رہی ہے ،اسے انتہائی ٹھوس ،مستقل نوعیت کے
معیارات اور ضابطہ ءاخلاق کی بھی ضرورت ہے۔یہی وجہ ہے کہ حکومتِ پاکستان
ایسا ضابطہ ءاخلاق تیار کرنے کے لیے کوشاں ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات
ڈاکٹرفردوس عاشق اعوان نے گذشتہ ماہ سینٹ کے وقفہ سوالات میں بتایاتھا کہ
ملکی ذرائع ابلاغ پیمرا کے موجودہ ضابطہءاخلاق کی پیروی نہیں کر رہااس لیے
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا) کوآزاد اور مضبوط ادارہ
بنانا ہو گا جو ذرائع ابلاغ پر احسن طریقے سے اپنے قوانین لاگوکراسکے ۔لہذا
دونوں پارلیمنٹری کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے ممبران،ذرائع ابلاغ کے
نمائندے،سول سوسائٹی اور تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لے کر ان کی حاصل
ہونے والی گذارشات سے ایک نئی پالیسی مرتب کی جائے گی۔ نئی جامع پالیسی
ذرائع ابلاغ میں قومی مفادات کو یقینی بنائےگی جو پوری دنیا میں پاکستان کے
تشخص کو بہتر بنانے میں فعال کردار ادا کرے گی۔ پاکستان میں مطبوعاتی اور
برقیاتی ذرائع ابلاغ کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت فیڈرل یونین آف جرنلسٹزبھی
ضرورت محسوس کرتی ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میںجلد از جلد ایک واضح
پالیسی مرتب کی جائے۔
جب تک کوئی متفقہ ضابطہءاخلاق مرتب نہیں ہوتا ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد
پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران ابلاغ عامہ
کی کتابوں میں موجودبنیادی مقاصدکو ذہن نشین کرنے کے علاوہ پاکستان کے
تشخص،استحکام ، مفادات کومقدم اور پیشِ نظر رکھیں۔اپنے پروگرام،ٹاک شو،
رپورٹس مرتب کرتے ، بات کرتے وقت ریاست یا سکیورٹی اداروں کوکمزور کرنے اور
احساس نوعیت کے معاملات پر ہمیشہ حکومتی ضابطہ ءاخلاق کی پیروی
کریں۔دہشتگردوں کے انٹرویو، ان سے بات چیت، مجرمانہ اور اغواءجیسی وارداتوں
کی کوریج سے گریز کریںکیونکہ ان سے عوام بے چینی اور عدم تحفظ کا شکار ہوتے
ہیں۔اپنی ثقافت و تہذیب کو اُجاگر اورپاکستان کی نظریاتی اساس کو مضبوط
کرنے کے لیے اپنی قوتیں صرف کریں۔ اسلام اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے کا
جواب دیں، نہ کہ خود ان کے رنگ میں رنگ جائیں۔ |