عرفانِ امامت و ولایت

محترم قاضی انعام صاحب کی تحریرمیں اضافہ کے بعد

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

حقائق تک رسائی کے تین راستے ہیں ،ایک جدلیاتی سماجی سائنس کا جس کی ترقی یافتہ شکل آلات کی سائنس کے ذریعے حقائق تک رسائی ہے جیسے آئین سٹائن نے آلات کی مدد سے ایٹم کو تقسیم کر کے بتایا آگر اسی ایٹم کو مزید تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے تو کائنات کے مادی حقائق کی حساس حقیقت تک پہنچا جاسکتا ہے دوسرا راستہ تاریخی سماجی جدلیاتی سائنس کا ہے جس میں معاشی ارتقاء ذہنی ارتقاء اور سماج کی تشکیل کا علم حاصل ہوجاتا ہے صوفیاء جو خدا کو ساتھ لے کر چلتے ہیں یا خدا شناشی کی گہرائی تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ بھی غیر آرادی طور پر جد لیاتی سائنس کے اصولوں پر ہی کار بند ہوتے ہیں مگر ان کی منزل مشکل ہوتی ہیں وہ مادے کی تقسیم در تقسیم کی آخری کڑی اور حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ،لیکن اس معیار کو سمجھنے کے لیے انسان کے روز مرہ کے معاملات کا درست ہونا بڑا ضروری ہے پھر مادے کی تقسیموں کی گہرائی جو انرجی کی انتہائی لطیف اور اعلیٰ حقیقت ہے دماغ کا کینوس وسیع ہوکر جب اس لطیف اور حساس حقیقت سے جڑتا ہے تو اس وقت سورج کی شعاؤں سے لاکھوں گنا تیز لطیف مادی انرجی کا اخراج کائنات کے حقائق سے آشناء کرتا ہے وہ ادنیٰ حقائق آگے جس حقیقت سے انسان کے دماغ کے اعلیٰ اور براڈ کینوس کوجوڑتے ہیں وہ مادے کی تقسیموں کی انتہائی اعلیٰ اور سوپر فام ہے خدا جو مادے کی حقیقت سے الگ اعلیٰ حقیقت ہے اس کے ادنیٰ حقائق سے انسان چند لمحے جڑ کر تشنگی اور علم حاصل کرلیتا ہے وہ حقیقت ماسوائے استغفار کے کچھ بھی نہیں،اللہُ اکبر کے معانی جہاں پہنچ کر انسان استغفار کی حقیقت جان کر وجود کے اندر لوٹ آتا ہے پھر اللہ ُ اکبر کہنے کی جسارت اس لیے کرتا ہے اس معیار پر انسان پورا اتر نہیں سکتا پھر آخری سانس تک کائنات کے مادی حقائق کی جانکاری کوذکر و تحلیل و استغفار سے جوڑ کر حاصل کرتا رہتا ہے جو اس کا مقصد حیات ہے ،یعنی کے تحقیق تعمیر اور تسخیر کا علم جس کو آلات کی مدد سے ہی جانا جاسکتا ،جدید سائنسی ایجادات انسان کو خدا کے حقائق کی طرف راغب کرنے کا ذریعہ بن رہی ہے۔خدا کو نا ماننے والا انسان بھی سائنسی حقائق کے ذریعے خود بخود خدا شناسی کی طرف پلٹ رہا ہے۔۔ وجود کی تشنگی اور ملامت جس کو سماجی رویے پیدا کرتے ہیں پھر بھی انسان یکسوئی کے ساتھ حقائق کی دنیا کا ادراک لگانے میں لگا رہتا ہے ۔جب وجود پر دباؤ شدت اختیار کرتا ہے تو وجود کے سیل حساس انرجی کا اخراج کر کے وجود کے سگنل سسٹم کے ذریعے اس لطیف انرجی سے دماغ کے حساس میکانزم کے سیلز سے جڑ کر دماغ کے کینوس کو سورج کی شعاؤں سے لاکھوں گنا تیز رفتار لطیف حساس کائنات کے کمانڈ اینڈ کنٹرول کے نظام سے جوڑ دیتے ہیں ،جہاں پہنچ کر انسان کو جنوں فرشتوں کے حساس لطیف مادی میکانزم کی بھی سمجھ آجاتی ہے اور ابلیس جس کے وجود کی حساس لطیف کیمسٹری کے ایٹم ناقابل تقسیم ہیں ،لیکن انسان کے وجود کے اندر وہ صلاحیت موجود ہے جس کو اعلیٰ معاملات اور علم والا انسان خون کی شریانوں کے اندر سلانے کی صلاحیت رکھتا ہے


امامت کا نظریہ بھی جدلیاتی سائنس میں موجود مرکزی نقطہ سے، تاریخی جدلیات میں معاشرے میں حاکم کی اہمیت سے اور انفس میں قلب کی کیفیت سے آشکار ہوتا ہے۔ خدا تک تو لوگ پہنچ جاتے ہیں مگر امامت سے انکاری کی وجہ خدا کی مادّی زرق برق نعمتوں پر فریفتہ ہونے کے باعث ہوتی ہے یا علم کی کمی کی وجہ سے۔

یہ وہ کمانڈ اور اینڈ کنٹرول کا ادارہ ہے جس سے نہ ہی کائنات کے آفاق، نہ ہی انسانی انفس اور نہ ہی انسانی معاشرے لاپرواہ رہ سکتے ہیں، مگر یہ کہ غیر فطری ارادوں کے نتیجے میں آفاق، انفس اور معاشرے میں ہرج و مرج اور انتشار کا سبب بنیں۔

امام کی اطاعت علم پر عمل کرنے والے کی طرح ہوتی ہے جس کو علم ہو کہ سہارے کا محتاج ہے وہ امامت کے ادارے کو معطل کرنے کے بجائے امام کی اطاعت کرتا ہے اور اپنے ہر عمل کو امام کی طرف پلٹاتا ہے یہی امام اس کو صغیرہ کوتاہیوں کے اثرات سے پاک کرتا ہے اور معاشرے کو ایک دھارے میں رکھتا ہے، کنٹرول رکھتا ہے۔ یہی مرکزی کردار ہر عقلی و فلسفی و نفسانی دلیل بن کر انسان کو دنیاوی اور اخروی سعادتوں سے ہمکنار کرتا ہے۔


 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 94 Articles with 70749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.