یہ پاکستان ہے یہاں ایسا ہی ہوتا ہے.
ایک مرتبہ کا زکر ہے کہ کھچ سائنسدانوں نے پانچ بندر ایک کمرے میں بند کر
دئے اور اس کمرے میں ایک سئیڑھی لگا دی اور چند کیلے اس سیڑی کے ساتھ اوپر
بانھد دئے اب جب بھی کوئی بندر اوپر کیلئے لینے کے لئے اوپر جاتا تو بندر
پر ڈھنڈے پانی کی بارش ہونا شروع ہوجاتی اس طرح پانچوں بندروں نے بار بار
کوشش کی لکین ہر مرتبہ ان کے اوپر ڈھنڈا پانی پھینکا جاتا. اب ان بندروں
کو؛ یقین ہو گیا کہ اوپر جاتے ہوئے ڈھنڈا پانی آتا ہے اب سائنسدانوں نے یہ
کیا کہ اب بندروں میں سے ایک کو نکال کر ایک نئے بندر کو ڈال دیا اب نئے
بندر نے کیلے لینے کے لیے اوپر جانے کی کوشش کی لکین اب پہلے سے ماجور ان
چاروں بندروں نے اس نئے بندر کو نیچے اوتارا اور پیٹنا شروع کر دیا. یہ نیا
بندر بار بار اوپر جانے کی کوشش کرتا اور اس کے ساتھ ہمشہ ایسا ہی ہوتا
حتکہ اس نئے بندر کو یقین ھو گیا کہ اوہر جانے سے مار پیٹی ہے. اب اس طرح
سے پرانے بندروں کی جگہ ایک ایک کر کے نئے بندروں کو رکھ دیا گیا اور ان
نئے بندروں کا ساتھ بھی ایسا ہی ہوا جو سب سے پہلے نئے بندر کے ساتھ ہوا
تھا اور اب اسی طرح کس بھی بندر نے اوپر جانے کی کوشش نہ کی.
ہم لوگوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا جیسا کہ ہمارے ملک میں بہت سی ایسے
فضول رسم و رواج ہیں جن کو یم اپنائے ہوئے ہیں ہم یہ جاننا اور معلوم نہی
کرنا چاہتے کہ ہمارا ساتھ یا ہمارے ملک میں کرپشن کا یہ نظام کیوں ہے
اس کی بہت سی وجوہات ہوں گی لیکن اس کی ایک وجہ یمارا نظام تعلیم بھی ہے
" انگریزوں کے ہندوستان میں آنے سے قبل وہاں پر زیادہ تر دینی تعلیم رائج
تھی اور فارسی، عربی، سنسکرت زبانوں کا مطالعہ کیا جاتا تھا. مسلمان مکتبوں
اور مدرسوں میں قرآن اور عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کر لیتے تھے اور وہ
بھی صرف حکمران طبقوں یا مذہبی علماء کے طبقوں کے افراد. یندو پاٹھ شالاوں
میں اپنی مذہبی تعلیم حاصل کرتے تھے. عام طور پر یہ تعلیمی اجتماع نہیں تھی
بلکہ ایک یا محض چند طالب علم اکٹھے تعلیم حآصل کرتے تھے. بڑے بڑے پبلک
سکول ' جہاں تین چار سو بچے اکٹھے پڑھیں ماجود نہیں تھے. 1813ء میں ایسٹ
انڈیا کمپنی نے ہندوستان کی تعلیم کے لیے ایک لاکھ روپیہ مختص کیا اور
ہندوستان کے لوگوں کو تعلیم دینے کا فیصلہ کیا. اس سے پہلے 1797ء میں چارلز
گرانٹ نے ایک مقالہ لکھا جس میں اس نے یہ خیال کیا کہ ہندوستان میں کے لوگ
بے حد ان پڑھ، جاہل، جھوٹے، مکار اور غیر مہذب ہیں. انہیں اعلیٰ انگریزی
تعلیم سے مہذب کیا جا سکتا ہے. گرانٹ کا یہ خیال تھا کہ ہندوستان کے لوگوں
کو تعلیم دے کر ان کو برطانیہ کی اشیاء خریدنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے.
یعنی برطانیہ کی تجارت کو برطانوی تصورات اور خیالات آور ثقافت پھیلانے سے
آگے بڑھایا جا سکتا یے. گرانٹ کا مقصد اقتصادی تھا، یعنی برطانوی خیالات کے
زریعے برطانیہ کے تجارتی مفادات کو فروغ دیا جاے. وہ کہتا تھا کہ ہندوستان
کے لوگ خلاقی طور پر گرے ہوئے ہیں اس لیے انہیں اخلاقی اور جدید تعلیم کے
زریعے دیانت دار بنانا ضروری یے.
چارلز گرانٹ پر تنقید کرتے ہوئے گوری وسواناتھ لکھتی ہیں کہ دراصل ایسٹ
انڈیا کمپنی کے ملازمین اور افسران جھوٹ بولتے تھے، چوری کرتے اور اخلاقی
طور پر گرے ہوئے تھے لیکن کیوں کہ ہندوستان نے اپنا اناج اور پیداوار نچانے
کے لیے عدالتوں میں غلط بیان دے ہیں، اس مزاحمتی انداز کو اخلاقی کی پستی
کہاں گیا. یہ ہندوستانیوں کی بغاوت کا انداز تھا. وہ ایک غیر ملکی طاقت کے
ہاتھوں اہنا استحصال نہی ہونے دینا چاہتے تھے لہذا انھوں نے آمدنی اور
عدالتی ریکارڈ صحیح نہیں دیئے. انگریز جو کہ ہندوستان میں لوٹ کھسوٹ کر رہے
تھے، ظاہر یے اس بات سے پریشان تھا. لہذا نہ صرف یہ ضرورت محسوس کی گی کہ
ہندوستانیوں کو انگریزی تعلیم سے اپنے خیالات اور برطانوی ثقافت کا غلام
بنایا بلکہ ہندوستانی زبانیں سیکھ کر عدالتی اور آمدنی کے ریکارڈ خود دیکھے
جائے. بقولِ گوری وسواناتھن کے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین کے بد اخلاقی
کے رویے کی وجہ سے انگلستان میں اس قدر احتجاج ہوا کہ پارلیمنٹ پر زور ڈالا
گیا کہ ملازمین کا خلاق صحیح کیا جائے. (ریفرنس، قومیت، تعلیم آور شناخت
تحریر روبینہ سہگل)
میرے خیال میں اوپر دیئے گئے ریفرنس سے ہمیں یہ معلوم پڑتا ہے کہ ہم لوگوں
کو عادت ہو گی ہے جھوٹ بولنے چوری کرنے اور ریکارڈ میں تبدیلیاں کرنے کی
پہلے پہل یہ سب کھچ ہم لوگ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے کرتے تھے مگر اب سب کھچ
بے ایمان سیاست دانوں اور کرپٹ حکمرانوں اور بیوروکریسی کے لیے کرتے ہیں.
مذہبی تعلیم کی بدولت ہم داڑھی رکھ، سر پر ٹوپی پہن کر، حاجی کہلا کر
اخلاقی طور پر نیک کہلانے کی کوشش کرتے ہیں اور رٹے نطام تعلیم کی بدولت ہم
لوگ صرف ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں. تحقیقاتی اور تجرباتی نظام تعلیم نہ ہونے
کی بدولت ہم صرف اس بات کا نعرہ لگا رہے ہیں کہ ہماری سوسائٹی کرپٹ آور بے
ایمان ہے. یہ معلوم نہیں کر پا رہے کہ ہم کیوں بندروں جیسی زندگی گزار رہے
ہیں
|