منشیات فروشی نوجوان نسل کا قتل

کئی دنوں سے ایک سوال راقم کے دماغ میں گھوم رہا ہے جس کا جواب جب سامنے آتا ہے تو دل مانتا ہی نہیں ۔سوال یہ ہے کہ ہم پیارے پاکستان کے باسی ہے جہاں آئین اور قانون کی بالادستی قائم ہے ۔جنگل کا قانون نہیں ہے بلکہ انصاف مہیا کرنے والے تمام ادارے (پولیس ، عدالت،بیورکریسی ،اینٹی کرپشن ،ایف آئی آئے ،نیب،دیگر) موجود ہے جو عوام کے دئیے گئے ٹیکس میں سے بھاری بھرکم تنخواہیں اور عیش عشرت سے لطف اندوز ہے۔پھر ان سب کی موجودگی میں کسی انسان میں جرم کرنے کی جرات کہاں سے آتی ہے؟َقارئین میں سے اگر کسی کے پاس سوال کا جواب ہوں تو مجھے ضرور بتائیں ۔راقم لاہور کی تحصیل ماڈل ٹاون کے علاقے کا ہنہ کا رہائشی ہے اور جنرل کونسلر کے فرائض بھی سر انجام دے رہا ہے۔کاہنہ مین بازار کے گرین بیلٹ میں ہر روز کسی نوجوان کو مردہ حالت میں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔یہ گرین بیلٹ کاہنہ تھا نہ کے بالکل سامنے موجود ہے جہاں ہر روز سیکڑوں نوجوان اپنی ذندگی کو نشے کی لت میں مبتلا کر کے خاتمہ کر رہے ہے مگر کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ آخر یہ نوجوان یہ نشہ آور آشیا کہاں سے لیتے ہے ؟کیاتحقیقاتی اداروں کا فرض نہیں بنتا کے وہ نوجوان نسل کو موت کی منہ میں دھکیلنے والے عناصر کا محاسبہ کریں ؟میرا دل یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہے کہ قانون کے ہوتے ہو ئے کوئی جرم کی جرات کرئے ۔ضرور کچھ کالی بھیڈیں قانون کی چادر اوڑ ھ کر نوجوانوں کی زندگی تباہ کرنے والے عناصر کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔دور حاضر کے بڑے بڑے مسائل میں سے ایک منشیات کی لعنت ہے۔ نشہ ہمارے معاشرے کا ایک ناسور ہے۔نشہ ایک ایسی بیماری جس کی بدولت نہ جانے کتنی جانیں موت کے گھاٹ اتر گئے ہیں نہ جانے کتنے خاندان ابھی بھی اس عذاب میں مبتلا ہو رہے ہیں منشیات کا استعمال مطلب موت ہے نشہ انسان کو دیمک کی طرح آہستہ آہستہ کھا جاتا ہے۔لیکن جب تک انسان کو خبر ہوتی ہے وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ نوجوان نسل میں منشیات کا فروغ ہر شعبہ زندگی کیلئے ایک تشویشناک امر ہے۔ اس کی وجہ سے کئی ہنستے بستے گھر اجڑ چکے ہیں۔ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی بھی خاصی تعداداس لت کا شکار ہو رہی ہیں۔تعلیمی ادارے بھی اس سے محفوظ نہیں بلکہ وہاں اس کا رجحان مزید بڑھ رہا ہے۔طلباء ہمارے ملک کا قیمتی سرمایہ ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں منشیات سے نوجوان نسل براہ راست متاثر ہورہی ہے۔معاشرے میں اس کے خلاف شعور اجاگر کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔خود بھی ہر قسم نشے سے دور رہیں اور اپنے دوستوں کو کسی بھی قسم کی نشہ میں مبتلا دیکھے تو اْس کواسکے نقصانات سے آگاہ کرکے نشہ چْھڑوانے میں مدد کریں۔اپنے اپنے علاقوں میں اس کے متعلق ایک کمپین چلائیں تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ واقف ہو سکیں۔ اس نئے اور ماڈرن زمانے میں ہونے اور جدید ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود منشیات ہمارے نوجوان نسل کو تباہ وبربادکرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہا ہے اس وقت نوجوان نسل مختلف منشیات ہیروئن،شراب، چرس، گانجا،افیون ،شیشہ،حشیش،والیم،کوکین، الکوحل، تمباکو(سیگریٹ نوشی) وغیرہ میں مبتلا ہیں۔ نشہ کی ابتدا کے لیے سگریٹ نوشی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے ہر خاص وعام شخص سگریٹ( تمباکو) کا استعمال زوروشور سے کرتا ہے-جیسے سگریٹ(تمباکو)نشہ کی فہرست میں آتا ہی نہیں ہے ایک طرف تو ہمارے حکمران بڑے اچھے اور خوبصورت انداز میں مختلف اشتہارات دیتے نظر آتے ہیں کہ سگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے وغیرہ وغیرہ اور دوسری طرف انہیں کے ہاتھوں میں سگریٹ کے پیکٹس نظر آتے ہیں ۔ منشیات کی روک تھام کے لئے سب سے زیادہ پولیس اہلکاروں کی محنت سامنے آتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کو ہمارا معاشرہ کس نظریہ سے دیکھتا ہے مگر اس حقیقت سے انکار کرنا ہمارا بیوقوفانہ رویہ ہوگا اگر ہم اردگردنظر دوڑائیں تو آج بھی نہ جانے کتنے منشیات کے لین دین کا سلسلہ پولیس اہلکاروں کی بدولت ناممکن ہو پایا ہے-جہاں اس عمل کے روک تھام کے لئے پولیس کا مثبت رویہ سامنے آتا ہے وہی کہیں نہ کہیں اس عمل کا معاشرے میں شورشرابہ کرنا بھی پولیس کی طرف منفی اشارات بھی کرتے ہیں- کیونکہ بغیر کسی سرپرستی کے اتنا بڑاکام (منشیات کا لین دین) ہونا ناممکن ہے-دشمن اور مجرموں کو بھی حکومت اور پولیس اہلکاروں کا ساتھ نصیب نہ ہو تو یہ سب ان کے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔معاشرے کو اس لعنت سے پاک کرنے کے لیے ہمیں ذہنی اور قلبی طور پر اپنے اسلاف کے کردار و عمل کو اپنانے کی اشد ضرورت ہے-ہمیں منافقت کو ترک کرکے سچا راستہ اپنانا ہوگا اور اس کے خلاف صدقِ دل سے کام کرنا ہوگا- اس کے خلاف نہ صرف قلمی بلکہ ہر سطح پرعملی جہاد کرنا ہوگا- اورجب تک ہمارے علماء کرام، اساتذہ کرام اور باہوش طبقہ خلوصِ نیت سیاس کے خلاف جہاد سے کام نہیں لیں گے منشیات کا طوفان بھی ختم نہ ہو سکے گا اور جہاں تک ہو سکے حکومت اور مختلف ایجنسیوں کو بھی اس عمل کے روک تھام کے لئے اپنا کردار بخوبی ادا کرنا ہوگا۔

Sajjad Ali Shakir
About the Author: Sajjad Ali Shakir Read More Articles by Sajjad Ali Shakir: 133 Articles with 143686 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.