تصویر بھی یہی ہے۔۔۔۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اسکولی سطح پر کھیل کود کے مقابلے منعقد کئے گئے تھے۔ ان مقابلوں میں حصہ لینے کیلئے ایک اسکول سے چند بچے روانہ ہوئے۔ یہ بچے دوڑ کے مقابلوں میں مہارت رکھتے تھے، پھر اورایک اسکول کے بچے دکھائی دئے، ان بچوں میں کبڈی کھیلنے کی صلاحیت بہت خوب تھی، پھر ایک ٹیم دکھائی دی یہ ٹیم کھوکھو بہت اچھا کھیلتی تھی اورایک اسکول سے ٹیم کی شرکے ہوئی تو کسی نے پوچھا کہ آپ کے سکول کے بچوں میں کونسی صلاحیت ہے، اس پر اسکول کے ٹیم مینجر نے بتایا کہ یہ بچے توپورے کھیلوں میں ماہر ہیں۔ پھر کھیل کھیلے گئے ، شام کو جب انعامات دینے کا موقع آیا تو، کبڈی میں مہارت رکھنے والے بچے کبڈی میں انعام حاصل کئے، پھر کھو کھو کی ٹیم کے بچوں نے کھوکھو کے مقابلے میں انعام حاصل کیا ، اسی طرح سے دوڑ یعنی رننگ کی ٹیم کے بچوں نے دوڑ کے مقابلے میں انعام حاصل کیا، اب جس اسکول کے بچے تمام کھیلوں میں مہارت رکھنے کا دعویٰ کررہے تھے وہ بچے کسی بھی طرح کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ کیونکہ ان بچوں نے ایک خاص کھیل پر توجہ نہیں دی اورنہ ہی اس پر محنت کی تھی، جس کی وجہ سے ملے جلے کھیلوں کی ٹیم کامیاب نہ ہوسکی البتہ جو مخصوص کھیلوں میں مہارت رکھتے تھے وہ کامیاب ہوگئے۔ بالکل یہی حالت آج مسلم تنظیموں و اداروں کی ہے جو ہر ایک کام میں اپنی نمائندگی کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اورہر معاملے میں منہ اٹھائے چلے آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ کسی بھی کام میں پوری طرح سے کامیاب نہیں ہوتے۔ عام طو ر پر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے درمیان جو تنظیمیں اورادارے ہیں وہ ایک کام کو انجام دینے کے بجائے انیک کاموں کو انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں جس کا نتیجہ صفر رہتا ہے۔ اغراض ومقاصد کوئی بھی ہوں، جتنے بھی ہوںلیکن کام کا مقصدایک ہونا چاہئے، تبھی جاکر کامیابی ممکن ہے۔اگر ایک تنظیم چاہتی ہے کہ وہ تعلیمی میدان میں کام کرے تو اس کےلئےاسی طرح کے کام وکاج سے جڑے رہنے کی ضرورت ہے، داخلے، کتابیں، فیس، اسکالرشپ، انعامات دینے کی سرگرمیوں کو وہ بڑھاوا دیں، اور اگر یہ کوئی تنظیم یہ سوچتی ہے کہ وہ لوگوں کی معاشی پسماندگی کو دورکریں تو انہیں چاہئے کہ وہ لوگوں کے درمیان جائیں، انکے حالات کا جائزہ لیں اورانہیں مدد کرنے کیلئےآگے آئیں۔ لیکن ہمارے درمیان ایسا نہیں ہوتا، ہماری تنظیم کا نام ہی کچھ ہوتا ہے اورکرتے کچھ ہیں، ایک کام کرنے کا مقصد لیکر اٹھتے ہیں لیکن دوسرا کام کربیٹھتے ہیں۔ غریبوں کی مدد کرنے کا فیصلہ لیا جاتا ہے لیکن الیکشن کیلئے اعلان کرتےہیں، تنظیم علماء کی بنائی جاتی ہے ، شرکہ جہلا ہوتے ہیں، بات اتحاد کی کرتے ہیں اورخود ہی انتشار میں مبتلاء ہوجاتےہیں۔ انتشار کی حد اس قدر گہری ہوتی ہے، یہ خود اپنے قبیلے میں لوگ انہیں نہیں مانتے، ا ن حالات میں سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔در حقیقت آج مسلمانوں کیلئے تنظیمی نظام کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے پاس آج تنظیمیں ہیں ضرور لیکن ناکارہ ہیں۔ جسطرح آر ایس ایس کے پاس تنظیمی نظام ہے اسی طرح کا تنظیمی نظام مسلمانوں کے پاس بھی ہونا چاہئے، سنگھ پریوار میں دیکھیں کہ وہ ہر ایک کام کو منظم طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ انکے پاس کام کرنے والوں کو الگ الگ تنظیمی ڈھانچے فراہم کئے گئے ہیں۔ جو سیاست میں ہے وہ خدمت میں نہیں آتا، جو پروہت ہے وہ سیاست میں نہیں آتا ، جو غنڈہ ہے وہ پروہت نہیں بنتا ، جوتاجر ہے وہ تجارتی میدان میں قیادت کرتا ہے۔ جو سرکاری ملازم یا افسرہے وہ وہاں رہ کر انکی قوم کی قیادت ومدد کرتا ہے۔ لیکن ہمارے پاس ایسا سسٹم ہی نہیں ہے۔ ہم تو ہر کام چوچو۔۔۔ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ہماری ےتنظیمیں ناکام ہوجاتی ہیں۔ آج قوم مسلم کو بڑی بڑی تنظیموں کی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ چھوٹی چھوٹی تنظیموں سے چھوٹے پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم، تربیت اور قیادت یہ تینوں چیزیں اسی وقت ممکن ہیں جبکہ مسلمان ان کاموں کو انجام دینے کیلئے باقاعدہ طور پر منصوبہ بندی تیار کریں اور ہر ایک کام کیلئے مخصوص کمیٹی یاتنظیم کی تشکیل دیں۔ جب تک ان چھوٹی تنظیموں سے بڑے کام انجام نہیں دئے جاتے اس وقت تک ملت اسلامیہ کی صحیح نمائندگی ممکن نہیں ہے۔ آج امت کی حالت کیا ہے اسی ضمن میں ہم نے کچھ سال قبل ایک تحریر لکھی تھی جو آج کے حالات کیلئے بھی موضوع ہے۔

حالات تب بھی ویسے تھے، آج بھی ایسے ہی ہیں ۔۔پڑھیں مندرجہ ذیل تحریر ۔۔۔۔اگر یوگی CM نہ بنتے اور کوئی سنہا یا موریا مکھیہ منتری بن جاتا تو کون سی تمہارے گھروں میں دودھ کی ندیاں بہہ نکلتیں - میاں جی - جاکر فرقہ فرقہ کھیلو ' مسلک مسلک کھیلو - اور پنکچر جوڑو - ہوٹلوں میں پلیٹیں دھونے کی نوکری کرو - کہیں انڈوں کا ٹھیلہ لگائو- کسی صاحب جی کی کار چلائو - ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہو - لیکن مسجدوں میں اپنے ہی بھائیوں سے لڑو - امام اور موذن پر رعب جھاڑو - قرض لے کر مہنگی شادیاں کرو - اور مدتوں چکاتے رہو - تعلیم سے ایسے دور بھاگو جیسے شیر یا سانپ سے بھاگتے ہو - مہینے میں دیڑھ دو ہزار کا گٹکھا کھانا تمھارے لئے بے حد آسان ہے - لیکن چار پانچ سو روپیہ بچے کی تعلیم پر خرچ کرنا کسی پہاڑ سے کم نہیں - اپنا ووٹ دس جگہ بانٹو - تمہاری تصویر بھی یہی ہے اور تمہاری تقدیر بھی یہی ہے ۔


--

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 198070 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.