منفی سوچ ہی کیوں؟

" یار لگتا ہے کہ اپنی قسمت میںہی نہیں تھی" یہ وہ جملہ ہے جس نے مجھے لکھنے اور سوچنے پر مجبور کیا۔ کچھ عرصے پہلے مجھے اپنے بچپن کے دوست ہمایوں ( اصل نام کی جگہ فرضی نام استعمال کر رہا ہوں )سے برسوں بعد رابطہ ہوا۔ دوران گفتگو معلوم ہوا کہ ابھی تک وہاپےں جیون ساتھی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ دریافت ہونے پر بتایا گیاکہ شادی نہ ہونے کی وجہ محض ان کے بچپن کا موٹاپا ہے۔ قریب کوئی سولہ سے سترہ سال قبل ہمایوں کے والد نے نے اپنے دوست سے ان کی بیٹی اورہمایوں کی رشتے کی بات کی۔ نتیجے میں والد کے دوست نے ہمایوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ بیٹا میں چھ ماہ کے لئے بیرون ملک جا رہا ہوں میرے آنے تک آپ اپنا وزن کم کر لینا تو بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ہمایوں نے ان کی بات کو منفی سوچے ہوئے اپنے دل میں کہا" کیا میں آپ کے گھر سے کھانا کھاتا ہوں" اور بات یہاں پر ہی ختم ہو گئی۔

ہمایوں نے جب یہ واقعہ مجھے بتایا تو میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور منفی رویوں کے دور رس نتائج سوچنے لگا ۔کیا ہی اچھا تھا کہ ہمایوں اپنے والد کے دوست کی بات کو مثبت سمت سوچ کر کر اپنی خامیوں کو دور کرتا ہے جس سے نہ صرف اس کی بلکہ اس کے والدین کی مشکلات بھی کم ہوتیں۔

مجھے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں درجنوں اداروں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ جہاں پر دنیا کی تقریبا ہر قوم کے لوگوں کےرویوں اور سوچ کو قریب سے جانچا۔ میرے تجربے اور مشاہدے میں منفی سوچ کے حامل لوگوں کو درج ذیلنکات پر سنجیدگی سے سوچنا اور عمل کرنا چاہیے۔

کمفرٹ زون: منفی سوچ کو بدلنے کے لئے سب سے پہلے آپ کو اپنے کمفرٹ زون سے نکلنا پڑتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر ہمایوں اپنے وزن کم اور صحت مند کھانے کے ساتھ باقاعدگی سے ورزشکو معمول بناتا مگر اس نے اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلنے کی زحمت نہ کی ۔ آپ دنیا کے سب سے آسان سے لےکرمشکل کام اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک آپ اپنی روایتی عادتوں کو نہ بدلیں۔ کسی بھی کام کی تکمیل کے لئے تمام مشکلات کوعبور کرنا ہی کمفرٹ زون سے باہر نکلنے کا نام ہے۔آپ کی زندگی کاجتنا بڑا چیلنج ہو گا اتنیہی بڑی قربانی درکار ہوگی۔


لوگ کیا کہیں گے: ہم اپنی زندگی کے اکثر صحیح اور بروقت فیصلے معاشرتی دباؤ کی وجہ سے نہیں کر پاتے ۔ ہم لوگوں کی باتوں کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ زندگی کے اہم فیصلے یا تو غلط کرتے ہیں یا پھر وقت گزرنے کے بعد۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انہی لوگوں کو ہماری رتی بھر پروا نہیں ہوتی ۔ اسیطرح سائنسی اور مذہبی شواہد کےباوجود ہم اپنےمعاشرے کی بہت سی روایات کو توڑنے میں ناکام ہیں ۔یہ صرف مثبت سوچ کی خود اعتمادی ہی ہے جو ہمیں اور معاشرتی رویوں کو تبدیل کرنے کی ہمت اور حوصلہ بڑھاتی ہے۔

چیلنج قبول کرنا سیکھئے: مثبت سوچ کا تیسرا راہنما اصول آپ کو اپنی زندگی میں چیلنج قبول کرنا سکھاتا ہے ۔ مندرجہ بالا واقعی میں کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمایوں اپنے والد کے دوست کی بات کو مثبت سوچتے ہوئے چیلنج سمجھ کر اس کو اپنی زندگی میں اپنا تا-ہم میں بہت سے قابل اور منظم لوگ ساری زندگی اس لیے نوکری نہیں چھوڑتے کہ کاروبار چلے یا نہ چلے۔

اہلیت اور کسی کاروبار کے فن جانےم کے باوجود اس کاروبار کا نہ کرنا مثبت سوچ کے فقدان کی عکاسی ہے۔ اسی طرح اپنی روزمرہ زندگی کے ساتھ مزید تعلیم حاصل کرنا یا پھر نیا ہنر سیکھنا بھی مثبت سوچ کی علامت ہے-کسی شخص یا کسی ادارے کے اچھے اور تعمیری کام سے متاثر ہو کر اپنی زندگی کو تبدیل کرنے کا عزم ہی مثبت سوچ کا ثبوت ہے۔

صحبت: آخر میں مثبت سوچ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کیصحبت میں جوان جذبے اور عملی توانا لوگ شامل ہوں ۔ آپ چاہے کتنے ہیمطمئن اور آمدنی کے لحاظ سے خوشحال کیوں نہ ہوں مگر ایک منفی خبر دن رات سننے کے بعدآپ بوجھل اور غیر مطمئن محسوس کریں گے ۔ لہذا اس امر کا خاص خیال رکھا جائے کہ آپ غیر سنجیدہ اور منفی سوچ کے لوگوں سے عاری ہوں۔ ہر ممکن کوشش کریں کہآپ سیلف میڈ اور تعمیری لوگوں کے قریب رہیں۔ انگریزی کا محاورہہے کہ آپ مجھے اپنے دوست دکھاو اور میں آپ کو آپ کا مستقبلShow me your friends and I will show your future.دکھاؤں گا

 

Zahid Nawaz Ghauri
About the Author: Zahid Nawaz Ghauri Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.