سلطان صلاح الدین ایوبی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر کسی قوم
کو بغیر جنگ کے شکست دینی ہے تو اس کے نوجوانوں میں فحاشی پھیلادو۔اسلامی
جمہوریہ پاکستان جس کو معروض وجود میں آئے ستر سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا
ہے لیکن ہمارے لئے افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم ابھی تک پستی اور غلامی کا
شکار نظر آتے ہیں اگر میں کہوں کہ ہم ذہنی غلامی کا شکار بن چکے ہیں تو
شاید کافی لوگ میری اس بات سے اتفاق کریں۔ ہمارے ملک کو اسلام کا قلعہ قائد
اعظم نے بنایا لیکن آج کل کے دور میں اسلام صرف کتابوں کی حد تک رہ گیا ہے
اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا کہ اب تو کسی کو اپنے مذہب کی فکرتک
نہیں۔اسلام میں عورتوں کے حوالے سے جو حقوق اللہ نے دیے ہیں وہ شاید ہی کسی
اور مذہب میں ہوں لیکن اس کے باوجود ہم ذہنی غلامی کا شکار بن کر مغرب کے
آقاؤں کو خوش کرنے میں لگے ہیں چاہے وہ عورت مارچ کی شکل میں ہوں چاہے وہ
اس ملک میں پھیلنے والی فحاشی کی صورت میں ہو۔پاکستان میں پچھلے تین سالوں
میں تقریباََ دس ہزار سے زائد ریپ کیسز رپورٹ ہوئے جو کہ تشویش ناک بات ہے
حکومت کو سخت سے سخت قانون لانے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے یہ روکا
جاسکے۔لیکن یہ صرف حکومت کو ہی نہیں دیکھنا بلکہ ہمیں خود بھی کچھ کرنا
ہے۔ریپ کیسز کا بڑھتاہوا پارہ اس جانب اشارہ کررہا ہے کہ ملک میں فحاشی اور
بدکاری عام سے عام تر ہوتی جارہی ہے۔پاکستان کا میڈیا خاص طور پر اس میں
پیش پیش ہے ٹی وی پر چلنے والی بے حیائی اور فحاش مواد اس بات کا منہ بولتا
ثبوت ہے کہ ہم اپنے مذہب سے کوسوں دور ہیں دور جدید میں اگر ہم نے قدم رکھ
دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگزنہیں کہ ہم اپنی شناخت ہی کھودیں ہم نے انڈین
اور مغربی کلچر کے آگے اپنے آپ کو بطور بھیڑ بکری پیش کر دیا ہے جو ہم آج
نوچ نوچ کے کھارہا ہے۔آج کل پاکستان کے ٹیلی ویژن پر چلنے والا کوئی بھی
ڈرامہ ایسا نہیں رہا جو کہ آپ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکیں ہر ڈرامے
میں جو فحاشی اور بے حیائی دکھائی جارہی ہے وہ ناقابل بیان ہے نہ صرف ڈرامے
بلکہ فلمیں اور اشتہارات میں بھی ناچ گانے کا کلچر عام ہوگیا ہے جس پر شدید
برہمی کا اظہار ہونا چاہیے لیکن نہیں آج کی نوجوان نسل اس پر فخر محسوس
کرتی ہے کہ ہمارا معاشرہ جدید دور کی طرف جارہا ہے۔لیکن افسوس یہ جدید دور
کی طرف نہیں بلکہ بے ادب معاشرہ بنتا جارہا ہے۔حال ہی میں وزیر اعظم
پاکستان عمران خان کے لائیو کال سیشن کے دوران جو بیان تھا اس کو لے کر
خاصی تنقید کی جارہی ہے وزیر اعظم نے میں وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان
کا کافی حد تک ناقد ہوں آپ ان سے سیاسی،معاشی اختلاف ضرور کریں لیکن انہوں
نے جو فرمایا اس پر غور و فکر کریں کہ وہ کتنی حد تک درست بات تھی پردے کا
حکم اللہ نے عورتوں کو قرآن میں دیا اور مردوں کو بھی نظر نیچے رکھنے کا
حکم دے رکھاہے یہ کسی مرد یا کسی بھی وزیر اعظم نے نہیں دیا۔بلکہ کائنات
بنانے والے کا حکم ہے لیکن افسوس ہی ہے کہ ہم نے اس کے حکم کو بھی نہیں
مانا ویسے تو ہم اللہ کے کسی حکم کو بھی نہیں مانتے اب تو اتنے بے حس
کوہوچکے ہیں وزیر اعظم پر تنقید کرنے والے وہی لوگ ہیں جو میڈیا اور
ڈرامہ،فلم انڈسٹری سے تعلق رکھتے ہیں پردے کو لے کر جس طرح سے یہ ہمارا
میڈیا اور لبرل لابی جس طرح اس کے خلاف ہوچکی ہے ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی
اسلامی ملک نہیں بلکہ کسی غیر اسلامی ملک میں رہ رہے ہوں۔ویسے تو ہمارے ملک
کا میڈیا عورتوں کے حقوق کی بڑی باتیں کرتا ہے اس کو سپورٹ کرتا ہے لیکن جب
فرانس یا کسی اور ملک میں حجاب پر پابندی لگتی ہے تو اس کے خلاف بولنے تک
گوارہ نہیں کیا جاتا۔ اسلام میں جو ریپ اور زیادتی کے حوالے سے قانون ہے اس
پر بھی اگر عمل کرنے کی بات ہو تو اس پر بھی ہمارے ملک کی لبرل اور سیکولر
لابی سیخ پا ہوجاتی ہے ہیومن رائٹس کمیشن والوں کو انسانی حقوق یاد آجاتے
ہیں۔ لیکن دیگر ممالک میں عورتوں پر ہونے والی زیادتی پر خاموشی چھائی رہتی
ہے۔ ہمارے بیرونی ایجنڈے پر چلنے والے میڈیا،لبرل،سیکولر اور ہیومن رائٹس
کمیشن کو گوارا ہی نہیں۔ہم کس غلط سمت میں چل پڑے ہیں ہمیں شاید اس کا
اندازہ ہی نہیں اور نہ ہم اندازہ رکھنا چاہتے ہیں۔اگر کوئی اسلامی قوانین
کی بات بھی کرتا ہے تو اس کو پرانی سوچ کا اور پرانے خیالات کا مالک کا
طعنہ دیا جاتا ہے کیا اسلام کی دعوت دینا پرانی سوچ کی عکاسی کرتا ہے کیا
اسلامی قوانین پرانی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں کیا۔خدا کی قسم اگر آج اسلامی
قانون اس ملک میں رائج ہوجائے تو کسی کی مجال نہ ہوگی کہ کوئی بھی حوا کی
بیٹی پر غلط نگاہ نہ ڈالے۔میں وزیر اعظم سے گزارش کروں گا کہ آپ لبرل اور
بیرونی ایجنڈے پر چلنے والے میڈیا کی بات کو نہ سنیں بلکہ ملک میں اسلامی
قوانین کے رائج کا حکم دیں عدالتوں کو مضبوط بنائیں مہنگائی تو ہر دور میں
ہوتی ہے وہ ختم بھی ہوجاتی ہے لیکن یہ فحاشی اگر بڑھ جائے تو اس کے نقصانات
مہنگائی سے بھی زیادہ ہیں آپ ان فحاش اور لبرل لوگوں کو لگام ڈالیں جو کہ
اس ملک میں اسلام اور اسلامی قوانین کیخلاف یک زبان ہیں وزیر اعظم صاحب آپ
کامیاب اسی صورت میں ہوسکتے ہیں اگر آپ نے صحیح اسلامی قوانین کا نفاد اس
ملک میں کر دیا۔اللہ آپ کو اور ہم سب کو اور ہماری ماؤں،بیٹیوں اور بہنوں
کو اس بے ادم معاشرے سے محفوظ اور سلامت رکھے۔آمین
|