ملک میںجاری دہشت گردی اور
ہلاکتوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پرقابوپانے میںناکامی پرعرصہ درازسے انسانی
حقوق کی تنظیمیں،سیاسی ودینی جماعتیں اور عام شہری حکومت سے شہر کو
غیرقانونی اسلحہ سے پاک کرنے کے لیے آپریشن کامطالبہ کررہے ہیں۔ اس وقت
دنیا میں ساڑھے ستاسی کروڑ چھوٹے ہتھیار ہیں جن میں چوہتر فیصد ہتھیار
شہریوں اور مسلح گروہوں کے پاس ہیں جبکہ پاکستان میں بھی چھوٹے ہتھیار
لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کے پاس ہیں جن میں زیادہ تر غیرقانونی
ہیں۔’پاکستان میں جو 1998ء میں جو مردم شماری ہوئی تھی اس میں تقریباً دو
کروڑ ہتھیار پائے گئے، جس میں سے صرف بیس لاکھ ہتھیار لائسنس یافتہ تھے
باقی ایک کروڑ اسی لاکھ ہتھیار بغیر لائسنس کے تھے لیکن یہ بھی دس گیارہ
سال پرانے اعدادوشمار ہیں جن میں یقیناً اب اضافہ ہوچکا ہے ۔ہمارے معاشرے
میں چھوٹے ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے نتیجے میں خاندانی جھگڑوں میں ان کا
استعمال بڑھا ہے اور اس کا زیادہ تر نشانہ خواتین اور بچے بنتے ہیں۔ان
ہتھیاروں کی موجودگی میں قبائلی جھگڑے ایک جنگ کا روپ دھار لیتے ہیں اور ان
میں کئی اموات ہوجاتی ہیں۔ لیکن پولیس ان جھگڑوں کو نمٹا نے میں ناکام رہتی
ہے۔ اس وقت بھی پاکستان میں چھوٹے ہتھیار لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کے پاس
ہیں پاکستان جیسے ممالک میں جہاں چھوٹے اسلحے کی روک تھام میں ریاست ناکام
رہی ہے وہاں اس طرح کے اسلحے کو فروغ میں خود اس کا بھی ہاتھ رہا ہے۔یہ کہا
جاسکتا ہے کہ ریاست خود کسی ایک گروپ کے خلاف دوسرے گروپ کی حمایت کرکے
اپنے آپ کو ملوث کرتی ہے۔ اور حکومتی رٹ ختم ہوجاتی ہے۔ 80 اور پھر 90 کی
دہائیوں میں اس کا مشاہدہ کیا جاچکا ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرے میں اسلحے کی
بھرمار ہوئی ہے۔ملک میں ریاستی پالیسی کے تحت غیرریاستی عناصر کو اسلحہ دیا
گیا اور اب تک یہ پالیسی تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ حکومت عسکریت پشندی کا الزام
عائد کرکے جن علاقوں میں آپریشن کر رہی ہے۔ اس کے جواب میں ان علاقوں میں
عسکریت پسند زیادہ پیدا ہورہے ہیں وہاں پر حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر
ترقیاتی کام کرانے چاہئیں تاکہ اس چیز کو روکا جاسکے‘۔
سول سوسائیٹی کے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ملک میں چھوٹے ہتھیاروں پر قابو پانے
کے لیے سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر پالیسی وضع کرے اور پہلے قدم کے طور پر
ان ہتھیاروں کی پیداوار کو ریگولرائز کرے یا سرے سے بند کردے۔ غیر سرکاری
تنظیمیں جو ملک میں غیر قانونی ہتھیاروں کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں ان کا
کہنا ہے کہ ملک میں ایسے ہتھیاروں کی تعداد برابر بڑھ رہی ہے اور اس وقت
ملک میں لوگوں کے پاس لگ بھگ ڈھائی کروڑ چھوٹے ہتھیار موجود ہیں جن میں سے
ڈیڑھ کروڑ سے زائد بغیر لائسنس ہتھیار ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ غیر قانونی
ہتھیاروں کی بہتات کی وجہ سے ملک کی اندرونی سلامتی خراب سے خراب تر ہوتی
جا رہی ہے اور یہ ملک میں بدامنی کا ایک بڑا سبب ہے۔
ہرسال ماہ اکتوبرکے آخری ہفتے کو ہتھیاروں کے خلاف عالمی ہفتہ کے طور پر
منایا جاتا ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں لوگوںمیںیہ شعورپیداکرناہوتاہے کہ
سڑکوںپرہتھیاروں کی موجودگی کے بغیردنیاکتنی پرامن ہوتی ہے۔ 1978ءمیں اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اسلحہ کی تخفیف کے حوالے سے بلائے گئے خصوصی سیشن
کی قراردارمیں دواقسام کے ہتھیاروں کی تخفیف کامطالبہ کیا گیا تھا۔ ان میں
انسانی تباہی والے ہتھیارجیسے نیوکلیائی، کیمیکل یا بائیولوجیکل ہتھیار اور
ایسے چھوٹے ہتھیارجیسے رائفل، پستول اوربندوق وغیرہ۔ جس سے معاشرے میں
انارکی پھیلتی ہے۔ اسلحے کے زورپرتشددکے خلاف کام کرنے والی بین الاقوامی
تنظیم ”انٹرنیشنل ایکشن نیٹ ورک آن سمال آرمز“ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا
ہے پاکستان میں اس بارے میں سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں ۔تاہم
تخمینوں کے مطابق پاکستان میں لائسنس اور بلا لائسنس ہتھیاروں کی کل
تعداد2کروڑسے زائدہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میںسب سے زیادہ ہتھیارعام
شہریوں کے پاس ہیں اوران کے ہتھیاروں کی تعداد فوج،پولیس اور عسکریت پسندوں
کے پاس موجوداسلحے سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان میںدہشت گردی کے بڑھتے ہوئے
واقعات کودیکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے باقاعدہ طورپرقومی سطح پر”آرمز
کنٹرول پروگرام“ شروع کیا گیا جس کا مقصدشہریوںسے غیرقانونی اسلحہ کی ضبطی
کے ذریعے ایک مہم شروع کرنا تھا۔ اس حوالے سے جون 2001ءمیں حکومت کی جانب
سے غیرقانونی اسلحہ رکھنے والے افرادکورضاکارانہ طورپراسلحہ جمع کراکرعام
معافی کااعلان کرکے دوہفتے کی مہلت دی گئی مگریہ مہم بھی بری طرح ناکام
ہوگئی۔
جبکہ ”ہٹ اینڈ رن شوٹنگ“ کے 95 فیصد واقعات میں نائن ایم ایم اور 32 بور کے
ممنوعہ ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں۔رپورٹوں کے مطابق اگرچہ اس حوالے سے
شہرمیں اسلحہ کے حوالے سے سرکاری طورپرکوئی اعدادو شمار موجود نہیں مگر ایک
اندازے کے مطابق صرف 2009ءمیں ایک لاکھ پچیس ہزارکے لگ بھگ نائن ایم ایم کے
پستول فروخت کیے گئے۔ ایک سینئروکیل کا کہنا ہے کہ عدالتوں میں دیگرجرائم
کی نسبت سب سے زیادہ غیرقانونی ہتھیاروں کے مقدمات کراچی کی عدالتوںمیں پیش
ہوتے ہیں۔ غیرقانونی ہتھیاروں کے مقدمات لوئرکورٹس میںچلتے ہیں جہاںسے ان
مقدمات میں گرفتارملزمان آسانی سے ضمانت پررہا ہو جاتے ہیں۔
یہ بھی عجیب بات ہے کہ ملک بھر میں غیر قانونی اسلحہ ہونے کے ثبوت اور
شواہد کے باوجود جب بھی غیر قانونی اسلحے کے بارے میں کاروائی اور آپریشن
کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے کراچی کا نام لیا جاتا ہے۔ ماضی میں
بھی مختلف حکومتوں کی جانب سے کراچی میں غیرقانونی اسلحہ کے خلاف آپریشن
کیے گئے جو نامناسب حکمت عملی کے سبب ناکامی سے دوچار ہوئے۔ کراچی میں
غیرقانونی اسلحہ کے خلاف پہلاآپریشن 80ءکی دہائی کے وسط میں سہراب گوٹھ کے
علاقے میں کیا گیا تھا جسے شہر بھر میں اسلحہ کی فراہمی کا مرکز سمجھا جاتا
تھا مگریہ آپریشن بری طرح ناکام ہوا۔اخباری رپورٹوں کے مطابق پولیس کے
محکمہ میںموجودافسران کی وجہ سے پہلے ہی سے غیرقانونی اسلحہ کے بیوپاریوں
کواطلاع دینے پروہ سہراب گوٹھ سے نکل گئے تھے جس کی وجہ سے پولیس کی جانب
سے چھاپہ مارنے پر صرف چند پرانے ہتھیار اور کم مقدار میں بارود برآمد ہوا
۔اسلحہ کے خلاف دوسراآپریشن بے نظیربھٹوکی دوسری حکومت میں 90ءکی دہائی کے
وسط میں شروع کیا گیا ۔ اس آپریشن میں شہر کے مختلف علاقوںمیں اسلحہ کی
برآمدگی کے ساتھ ساتھ سیاسی کارکنوں کوبھی گرفتار کیا گیا۔ اس آپریشن کے
بعد پولیس ایک منظم حکمت عملی کے تحت قبائلی علاقوںسے شہرمیں فراہم کیے
جانے والے غیرقانونی اسلحہ کی سپلائی لائین کوکافی حدتک توڑنے میں کامیاب
ہوئی تھی ۔شہرکوغیرقانونی اسلحہ سے صاف کرنے کے لیے تیسر ا آپریشن میاں
نواز شریف کے دوسرے دورحکومت میں شروع ہوامگر سیاسی دباﺅ کاشکارہوکراس
آپریشن کو روکنا پڑا۔ جنرل(ر) پرویزمشرف کے دورمیںبھی کراچی میں اسلحہ کے
خلاف ایک مہم شروع کی گئی تھی جس کے نتیجے میں محض چند ہزار غیر قانونی
ہتھیاروں کو ضبط کیا گیا تھا۔موجودہ حکومت پرکراچی میں امن وامان کی بدترین
صورت حال اورہلاکتوں کی شرح میں اضافے کے سبب شہرکی تمام سیاسی ودینی
جماعتوں ، غیرسرکاری تنظیموں اورشہریوں کی جانب سے شہرکو اسلحہ سے پاک کرنے
کی مہم شروع کرنے کامطالبہ بار بار کیا جارہا ہے۔
غیرسرکاری تنظیمیں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، شہری اورنیشنل سوشل فورم
اسلحہ کی تخفیف کے حوالے سے کام کر رہی ہے۔شہریوں کی جانب سے ہیومن رائٹس
کمیشن آف پاکستان اور سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے باہمی
اشتراک سے شہر میں ”گن فری سوسائٹی “کے نام سے ہتھیاروں کے خلاف مہم شروع
کی گئی تھی جس کے تحت عوام میں شعوراورآگہی پھیلانے کے حوالے سے پروگرام
منعقدکیے جاتے رہتے ہیں۔ایک جانب چھوٹے ہتھیاروں کے بارے میں حکومت کے پاس
کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں لیکن غیر قانونی اسلحہ سے پاک کرنے کی
مہم میں سرگرم غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ ملک میں چھوٹے ہتھیاروں کی
تعداد لگ بھگ ڈھائی کروڑ ہے جن میں سے بغیر لائسنس کے ہتھیاروں کی تعداد
تقریباً ڈیڑھ کروڑ ہے جبکہ تقریباً ستر لاکھ لائسنس یافتہ ہتھیار ہیں۔
واقف حلقے الزام لگاتے ہیں کہ پاکستان میں غیر قانونی اسلحہ کا سب بڑا
ذریعہ افغانستان ہے، ملک میں کلاشنکوف کلچر کی وجہ افغان لڑائی ہے۔ وفاق کے
زیر انتظام قبائلی علاقہ درہ آدم خیل، بلوچستان اور پنچاب کے زیر انتظام
قبائلی علاقوں میں بھی غیر قانونی طور پر ہتھیار تیار کیے جاتے ہیں، اس کے
علاوہ کشمیر کے جہاد کے نتیجے میں بھی پاکستان میں غیر قانونی اسلحہ
پھیلا۔‘
بعض حلقے یہ بات بھی کہتے ہیں کہ انیس سو سینتالیس میں برصغیر کی تقسیم اور
پاکستان کے قیام کے وقت پاکستان ہندوستان کے مقابلے میں روایتی ہتھیاروں
میں کمزور تھے۔ اس وقت یہاں ایسی پالیساں بنائی گئی کہ جس میں ملک کو
سکیورٹی سٹیٹ بنا دیا جس میں ہتھیار اور جنگجو کلچر کو فروغ دیا۔ افغانستان
سے اسلحہ اسمگل ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جرمنی نے تقریبا تین سال قبل
افغان پولیس اور فوج کو مسلح کرنے کے لئے 10 ہزار پستول کابل حکومت کے
حوالے کئے تھے۔ جرمن ریڈیونے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 2006ء
میں افغان وزارت داخلہ کے حوالے کئے گئے پستول افغانستان اور پاکستان کے
قبائلی علاقوں میں غیرقانونی طور پر فروخت کئے جا رہے ہیں۔ جرمن والتھیر P1
پستول پاکستان اور افغانستان کی بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو رہے ہیں۔بنیادی
طور پر یہ پستول افغان پولیس کے لئے تھے۔ان ہتھیاروں کے استعمال کی نگرانی
کی ذمہ داری امریکی سربراہی میں ایک ٹیم کوسونپی گئی تھی۔ جس نے اس کا خیال
نہ رکھا جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی کوشش تھی کہ افغانستان کے سیکیورٹی
اہلکار اپنے ملک میں سلامتی کی ذمہ داری سنبھالے، اس مقصد کے لئے انہیں
تکنیکی مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ اس مدد کو کس طرح استعمال کیا گیا، یہ جان
کر مایوسی ہوئی۔والتھیر P1 پستول تقریبا 50 سال پرانے ہیں۔ تاہم زیادہ
استعمال شدہ نہیں ہیں۔ اسلحے کے تاجروں کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ
سینکڑوں ہتھیار فروخت کے لئے دستیباب ہیں۔ یہ پستول علاقے میں انتہائی
مقبول ہیں اور خریداروں سے اس کے لئے اضافی قیمت وصول کی جا رہی ہے۔ یہ
پستول 680 یورویعنی ایک ہزار امریکی ڈالر میں فروخت ہوتا ہے۔ افغانستان کے
دارالحکومت کابل میں تو اس گَن کی مانگ بھی زیادہ ہے اور قیمت بھی۔ وہاں
اسے سولہ سو امریکی ڈالر میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ ان ہتھیاروں کی
غیرقانونی فروخت میں افغانستان کے سابق اور موجودہ فوجی ملوث ہیں، جنہیں
پاکستان کے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں بھی اسمگل کیا جا رہا ہے۔
ملک میں اسلحہ کے خلاف مہم چلانے والے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ یہاں
غیر قانونی اسلحہ کی ترسیل کو روکے بغیر امن کا قیام ناممکن ہے۔ پاکستان کے
ہر شہرمیں خودکار رائفلوں اور پستولوں سمیت چھوٹے غیرقانونی ہتھیار آسانی
سے بازار میں دستیاب ہیں اورمختلف سیاسی ومذہبی گروہوں کے کارکنوں کے پاس
ایسا غیرقانونی اسلحہ وافر مقدار میں موجود ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں
اس بات کا مطالبہ تو کرتی ہیں کہ غیر قانونی اسلحہ کی روک تھام کی جائے
لیکن ہتھیاروں کی نمائش میں یہی سیاسی رہنما اور ان کے کارکن نمایاں ہوتے
ہیں۔ عملی طورپردیکھاجائے توہرجماعت کے کارکنوں کے پاس بڑی تعداد میں
ہتھیار پائے جاتے ہیں اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ حکومت
غیرقانونی اسلحے کے خلاف ایک منظم مہم شروع کرنے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے
قانون سازی بھی کرے جس میں غیرقانونی ہتھیاررکھنے والے ملزمان کوزیادہ سے
زیادہ سزادی جائے کیونکہ اس جرم میں گرفتار ملزمان آسانی سے13-Dکے مقدمے سے
ضمانت پربری ہوجاتے ہیں۔ جس میں زیادہ سے زیادہ تین ماہ قید کی سزا دی جاتی
ہے۔ کراچی میں غیر قانونی اسلحہ اور گولہ بارود اسمگل کرنے کے کئی راستے
ہیں۔ وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق شہر میں پھل اور سبزیاں لانے والے
ٹرکوں اور ٹرالرز، ریتی بجری کے ٹرکوں، آئل ٹینکرز اور دیگر شہروں سے سامان
لانے والے ٹرکوں کے ڈرائیور اسلحے کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ رپورٹ میں یہ
بھی کہا گیا ہے کہ ہسپتالوں کی ایمبولینس گاڑیاں اور پانی لانے والے ٹینکرز
کے ساتھ ساتھ شہروں کے درمیان چلنے والی انٹر سٹی بسیں بھی اسلحے کی
اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔رپورٹ میں صوبہء بلوچستان اور صوبہء سندھ سے اسلحہ
اسمگل کرنے کی طریقوں، ملوث افراد، گروپوں اور راستوں کو بہت تفصیل سے بیان
کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبہءبلوچستان، جس کی سرحد افغانستان
اور ایران سے ملتی ہے، سوویت افغان جنگ کے بعد اب ملک میں غیر قانونی
ہتھیاروں کی آمد کا بڑا ذریعہ ہے۔ اس صوبے کی600 کلومیٹر طویل سرحد کراچی
سے جیکب آباد تک سندھ سے ملتی ہے۔ یہی راستہ شہر میں غیر قانونی ہتھیاروں
کی آمد کا بڑا ذریعہ ہے۔ان ہتھیاروں کے بڑے خریدار متحارب سیاسی گروپ اور
انتہا پسند تنظیمیں ہیں، جنہوں نے ان دنوں بدامنی اور دہشت گردی کے لئے
پاکستان کو ہدف بنا رکھا ہے۔ وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے علاقے
منگھو پیر سے آگے بلوچستان کی سرحد پر شاہ نورانی کا علاقہ بھی غیر قانونی
اسلحہ اسمگلروں کا ایک محفوظ مرکز ہے۔ وہاں اسلحہ ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ
جرائم پیشہ گروہ تاوان کے لئے اغواکئے گئے افراد کو بھی رکھتے ہیں۔ اس
علاقے سے اونٹوں پر لکڑیاں لاد کر لائی جاتی ہیں اور اِس آڑ میں اسلحہ
کراچی منتقل کیا جاتا ہے۔ اسمگلر اس راستے پر پولیس اور نیم فوجی رینجرز کی
چیکنگ نہ ہونے کی وجہ سے اسے محفو ظ تصور کرتے ہیں۔ رپورٹ میں ان چار
راستوں کی نشاندہی نمایاں طور پر کی گئی ہے، جو مہلک ہتھیاروں کی شہر میں
آمد کا بڑا ذریعہ ہیں۔
پہلا راستہ چمن، جنگل پیر علی زئی(افغان مہاجر کیمپ) قلعہ عبداللہ کچلاک،
کوئٹہ، سریاب، بولان، سبی، جیکب آباد، شکارپور اور حیدرآباد سے کراچی آتا
ہے۔ شہر میں اسلحے کی آمد کا دوسرا راستہ کوئٹہ، بولان، سبی ، ڈیرہ بگٹی،
کشمور، کندھ کوٹ، شکارپور، لاڑکانہ ، دادو اور حیدرآباد سے ہوتا ہوا کراچی
آتا ہے۔ تیسرا راستہ کوئٹہ، خضدار، ٹھل اور حب سے ہوتا ہوا کراچی پہنچتا
ہے۔ شہر میں غیر قانونی ہتھیاروں کی ترسیل کا چوتھا راستہ قلعہ سیف اللہسے
شروع ہو کر ژوب، ڈیرہ اسماعیل خان، فورٹ منڈو، ڈیرہ غازی خان سے سندھ کے
شہر سکھر، حیدرآباد سے کراچی تک ہے۔اسلحہ اسمگلنگ کے حوالے سے وزارت داخلہ
کی رپورٹ میں سرکریک سمیت ان بحری راستوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے، جو
انڈیا اور پاکستان کے درمیان متنازعہ علاقے ہیں۔رپورٹ کے مطابق سرکریک اور
شاہ بندر (پاکستانی علاقہ) کے درمیانی جگہ، جو لائٹ ہاﺅس کے نام سے مشہور
ہے، اسلحہ اسمگلنگ اور سرحد پار سے آنے والے ہتھیاروں کی کھیپ کی پہلی منزل
ہے۔ کراچی کی دوسری بندرگاہ پورٹ قاسم کے قریب ابراہیم حیدری کے علاقے میں
بنی کچی کھاڑیاں اور اطراف کے چھوٹے غیر آباد جزیروں پر بھی یہ ہتھیار جمع
کئے جاتے ہیں اور پھر کوسٹ گارڈز کی نظروں سے بچا کر مچھیروں کی چھوٹی
کشتیوں کے ذریعے شہر میں منتقل کئے جاتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اکثر اوقات
غیر قانونی ہتھیاروں کی فروخت کے لئے سپر ہائی وے پر افغان خیمہ بستی اور
الآصف اسکوائر خریداروں اور اسمگلروں کی میٹنگ کے مقامات ہیں۔ لیکن ان
مقامات کی آگاہی کے باوجود اس جگہ چیکنگ کا کوئی موثر نطام قائم نہیں ہے۔
حکمرانوں کا رویہ بھی اس بارے میں میں منفی رہا ہے۔ وہ وردی والوں کے ساتھ
ساتھ سادہ لباس میں مسلح نجی گارڈ رکھتے ہیں۔ اسی سبب ہتھیاروں کے پھیلاﺅ
کو فروغ ملتا ہے۔ حکومت اس مسئلے کے حل کے لئے ملک میں چھوٹے اسلحہ کے
پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پالیسی وضع کرے جس کے تحت چھوٹے اسلحے کی پیداوار
کو ریگولرائز کیا جائے یا اسے یکسر بند کردیا جائے۔ضرورت اس بات کی بھی ہے
کہ پاکستان چھوٹے اسلحہ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر ہونے والی
کوششوں کا حصہ بنے اور دنیا میں چھوٹے ہتھیاروں کی پیداوار اور تجارت کو
کنٹرول کرنے کے لیے مجوزہ عالمی قانون آرمز ٹریڈ ٹریٹی کی حمایت کرے۔ سابق
سویت یونین کے خلاف جنگ میں پاکستان کا کردار بھی ملک میں غیر قانونی اسلحے
کے پھیلاؤ کا باعث بنا۔ ہمیں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور
پاکستان کو سکیورٹی سٹیٹ سے فلاحی ریاست بنانا پڑے گا۔ یہ امر واقعہ بھی ہے
کہ غیر قانونی اسلحہ کے روک تھام کے لیے ملک میں قوانین اور ان پر عمل کا
طریقہ کار موجود ہے لیکن اس پر موثر طریقے سے عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔
حکومت کو چاہیئے کہ وہ ان قوانین پر عمل کرے ،حکومت اسلحہ کے لیے لائسنس
جاری نہ کرے، ممنوعہ اسلحہ پر پابندی ہونی چاہیے، اسلحہ کی نمائش، تقاریب
اور شادیوں میں ہوائی فائرنگ پر پابندی عائد کی جانی چاہیے، کھلونا
ہتھیاروں پر بھی پابندی عائد ہونی چاہیے تاکہ بچوں میں یہ رحجان نہ بڑھ
پائے۔
صوبہ سندھ گزشتہ کئی عشروں سے بد امنی، لاقانونیت اور اسلحے کی غیر قانونی
اسمگلنگ کے مسئلے سے دوچار ہے۔ بڑھتی ہوئی لاقانونیت کے سبب کراچی شہر کا
تشخص بین الاقوامی سطح پر سخت مجروح ہو رہا ہے۔
کراچی شہرمیں غیر قانونی ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا درست اندازہ
متحارب دھڑوں کے درمیان تصادم یا نئے سال کے آغاز پر ہوائی فائرنگ سے بھی
اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں قیمتی سرکاری اور پرائیوٹ زمینوں
پر ناجائز قبضے کے لئے کئی قبضہ گروپ برسر پیکار ہیں۔ ان تمام گروپوں کے
کارندے ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں اور زمینوں پر قبضے کی جنگ اکثر مسلح
تصادم میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اِس دوران ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا
جاتا ہے لیکن پولیس سیاسی دباﺅاور مالی فوائد کے باعث ان گروپوں کے خلاف
کاروائی سے گریزاں ہے۔ افغان جنگ کے بعد سے پاکستان میں غیرقانونی ہتھیاروں
کی فراوانی شروع ہوئی، مختلف حکومتوں نے اس سلسلے میں صرف سیاسی بیانات دئے
تاہم حقیقی اقدامات سے گریز کیا گیا۔ ملک میں بڑے پیمانے پر ممنوعہ بور کے
لائسنسوں کے اجراءکے ایک اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد صورتحال اور مخدوش
ہوجاتی ہے۔ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ایسے تمام لائسنس منسوخ کردئے گئے
ہیں، جن کے کوائف نامکمل اور مشتبہ تھے جبکہ وزارت داخلہ کے دو اہلکاروں کو
بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں غیر قانونی ہتھیاروں کی موجودگی
کسی بڑے سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔ جس کی ایک جھلک بے نظیر بھٹو کے قتل کے
بعد سندھ میں دیکھنے میں آئی تھی۔ پولیس کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا
کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر انارکی کو روکنا دشوارہوگا۔ ایسی اطلاع بھی ہیں کہ
با اثر سیاسی شخصیات ممنوعہ بور کے ایک اسلحہ لائسنس کے نمبر کئی ہتھیاروں
پر کندہ کروا کر استعمال کر رہے ہیں، جو سنگین جرم ہے۔ اس بارے میں ذرائع
کا کہنا ہے کہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کی طرح نادرا سے اسلحہ لائسنس کا
بھی کمپیوٹرائزڈ اندراج کرانا انتہائی ضروری ہے۔ |