رمضان میں مہنگائی کی روک تھام ضروری
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
|
ازقلم: ذوالفقار علی بخاری
آپ کے علم میں اکثر یہ سننے کو آتا رہتا ہوگا کہ فلاں فلاں دن پر اشیاء کی قیمتوں میں کمی کر دی جائے گی۔ہمارے ہاں اکثر بڑے تجارتی ادارے بھی مخصوص اشیاء پر قیمت کم کر دیتے ہیں تاکہ فروخت زیادہ ہو سکے۔ پاکستان سے باہر کی بات کریں تو کئی ممالک میں مذہبی تہواروں کے دنوں میں اشیاء کی قیمت کم کر دی جاتی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس کا رواج بہت کم ہے۔ ہم اس حوالے سے منفی طرز عمل کی بدولت مشہور ہو چکے ہیں۔
اگر چہ موجودہ حکومت نے اس بار عوام کے لئے رعایتی اشیاء کے لئے یوٹیلیٹی سٹورز پر یہ ذمہ داری ڈال دی ہے کہ سب کچھ سستا حاصل ہو سکے مگر یہ بات اب حکومتی نمائندوں تک بات کون لے کر جائے کہ گذشتہ کئی سالوں سے وہاں پر عوام کے جانے کا رجحان کم ہوچکاہے اور اس کی بڑی وجہ وہاں پر ضروری اشیاء کا نہ ہونا ہے، کیوں کہ باقی سرکاری اداروں کی مانند یہاں پر بھی عوام کو ضرورت کی اشیاء اُس مقدار میں حاصل نہیں ہوتی ہیں جس قدردرکا رہوتی ہیں۔آپ اس حوالے سے محض چینی کو ہی لے لیں کہ یہ مخصوص دنوں میں میسر ہوتی ہے اور خاص کر رمضان المبارک میں غائب ہی رہتی ہے۔راقم السطور کو گذشتہ کئیبرسوں میں ازخود رمضان المبارک میں وہاں جا کر معلوم ہوتا ہے کہ چینی دستیاب نہیں ہے کہ ابھی تک اُس کی فراہمی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ وہاں پر رمضان المبارک کے ابتدائی ایام میں یا آخری ایام میں نہیں بلکہ سال کے کئی دنوں میں چینی کا نام و نشان ہی نہیں ہوتا ہے،دالوں کا معیار بھی اس قابل نہیں ہوتا ہے کہ کوئی لے کر جا سکے۔اسی طرح سے باقی اشیاء کا حال دیکھنے کو ملتا ہے اگرچہ اس قسم کی صورت حال ہر جگہ پر نہیں ہے مگر ایسا ہو رہا ہے جب ہی لوگوں کی شکایات سامنے آتی ہے کہ کہیں پر کچھ گڑبڑ ہے۔
دیکھنے میں آیاہے کہ ہم پوری طرح سے کوشش کرتے ہیں کہ اس ماہ مقدس میں اس قدر لوٹ مار کرلیں کہ اُس کے منافع سے پورا سال عیش کر سکیں۔ہمیں دوسروں کا احساس کرنا بھی سیکھنا چاہیے،ہمیں اپنے منافع کو بالکل کم یا جائز حد تک رکھنا چاہیے، اس حوالے سے کوشش کرنی چاہیے کہ قیمت میں اضافے کی کوششیں ازخود ناکام کر دی جائیں تاکہ کم سے کم ماہ مقدس میں تو و ہ لوگ بھی جو استطاعت نہیں رکھتے ہیں وہ بھی کچھ خرید سکیں۔حکومت کو بھی اس لوٹ مار کا سبب بننے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کرنی چاہیے تاکہ رمضان المبارک میں ہر سال شروع ہونے والا یہ رجحان ختم ہو سکے۔
دوسری طرف ہمیں بھی کوشش کرنی چاہیے کہ اگر ہم مہنگی داموں کچھ بھی خرید نے سے باز رہیں تو ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے اور یوں سب کو عمدہ اشیا ء مل سکتی ہیں،گرانی کی وجوہات اپنی جگہ مگر گلی سٹری اور خراب سبزی،پھل وغیرہ کو بھی شامل کر کے بیچنا بھی غلط طرز عمل ہے،ہمیں اس حوالے سے اللہ کو جوابدہی کے حوالے سے بھی تیار رکھنا چاہیے،کم سے کم آپ کو دوسروں کو کسی بھی حوالے سے نقصان نہیں پہنچانا چاہیے جو کہ ہم رمضان المبارک میں قیمتوں کے اضافے سے غریب طبقے پر ناحق بوجھ ڈال دیتے ہیں۔
اس ماہ کی فیوض و برکات کے حصول کے لئے جہاں دیگر سرگرمیاں سرانجام دینا ضروری ہیں وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ ہم دوسروں کااحساس کر سکیں،مگر ہم تو ماہ مقدس میں اپنے مفادات کی خاطر اُن اشیا ء کی قیمت میں اتنا اضافہ کر دیتے ہیں جو کہ رمضان سے قبل ہمیں آدھی قیمت یا اُس سے بھی کم پر مل رہی ہوتی ہیں وہ ہمارے مہربان بھائی دوگنی قیمت پر فراہم کرتے ہیں۔رمضان المبارک کے سستے بازاروں میں بھی لوٹ مار کچھ الگ سے انداز کی ہوتی ہیں جہاں پر اگرچہ حکومتی نمائندے حالات کو دیکھتے ہیں مگر جونہی وہ غائب ہوتے ہیں تو پھر سے اپنی من مانی قیمت پر اشیاء کی فروخت شروع ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ گھٹیا اور غیر معیاری اشیاء کو بھی شامل کر ا کے بیچ دیا جاتا ہے یا پھر اگر کوئی اس حوالے سے بات کرے تو پھر خریدار کو کچھ بھی دینے سے صاف انکار کر دیا جاتا ہے۔ راقم السطور اس حوالے سے مشاہدہ کر چکا ہے کہ گاہگ سے اکثر دکاندار بدتمیزی بھی کر جاتے ہیں جو کہ غلط رویہ ہے۔ اس حوالے سے درست شکایات پر مذکورہ دکاندار کا سٹال منسوخ کر دینا چاہیے اور آئندہ بھی اُسے سٹال نہ دیا جائے تاکہ عوام کو بہترین رویے کے ساتھ اشیاء کی فراہمی ممکن ہو سکے۔
حکومت کو مخیر حضرات کے تعاون سے کوشش کرنی چاہیے کہ ارزاں نرخ پر اشیاء کی فراہمی کو ممکن بنانے کی کوشش کرے تو بھی یہ ایک احسن اقدام ہوگا۔ بہت سے ادارے اور حضرات اگر افطاری کے لئے اتنا کچھ کر سکتے ہیں تو وہ اپنی طرف سے عوام کے لئے سستی اشیاء کی فراہمی کے لئے بھی تعاون کر سکتے ہیں اگر وہ ذخیرہ اندوزی اور نا جائز منافع کی وجہ بننے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے ہیں تو اس حوالے سے حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے بہت سا ثواب حاصل کر سکتے ہیں کہ عوام کو اشیاء کم قیمت پر حاصل ہو سکیں گی۔دوسری طرف غریب افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ رمضان المبارک میں بھی دو وقت کی روٹی کے لئے پریشان حال ہو ئے ہوتے ہیں کہ پہلے ہفتے میں ہی مہنگائی اُن کی کمر توڑ کر رکھ دیتی ہے جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہم آج ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں مگر پھر بھی ہمارے کچھ بھائیوں کے لئے حالات بہت ہی تنگ ہو جاتے ہیں کہ وہ عام دنوں کی مانند رمضان میں بھی اپنا گذر بسر تنگ دستی میں ہی گذار لیتے ہیں کہ اشیاء کی قیمت ہی آسمان کو چھو رہی ہوتی ہے اور متوسط طبقہ بھی اس صورت حال سے تنگ نظر آتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت مستقل بنیادوں پر رمضان المبارک میں اس مہنگائی کو ختم کرنے کے اقدامات کرے تاکہ عوام کو سکون سے اللہ تعالیٰ کی عباد ت کرنے کا موقع مل سکے اور ایسے افراد جو باقی ایام میں مشکلات کا شکار رہتے ہیں وہ بھی بہترین اشیاء کو خرید کر اپنے بچوں کو کھلا سکیں تاکہ اُن میں بھی احساس محرومی ختم ہو سکے کہ وہ کچھ اچھا بچوں کو لے کر دے سکتے ہیں۔۔ختم شد۔ |