پروفیسر ڈاکٹر شمشاد اختر
اگر کسی قوم کی نفسیات کو سمجھنا ہوتواس کا مذہبی رویہ ّ،انداز سیاست، نظام
معیشت اور طرز معاشرت دیکھ لیا جائے،اندازہ ہو جائے گا کہ یہ قوم کیا ہے
؟رحمدل ہے یا خونخوار،منصف مزاج ہے یا ظالم ،مثبت قدروں کی امین ہے یا منفی
رویوں کی حامل،علم پرور ہے یا جہالت مآب ، ماضی پرست ہے یا مستقبل بین،صاحب
حال ہے یا صاحب قال،پہلو میں دل رکھتی ہے یا کھال مست ،روایات کی پاسبان ہے
یا خرافات میں گم؟تما م تر خوش فہمی کے باوجود بدقسمتی سے ہماری قوم رفتہ
رفتہ دامن صبر اپنے ہاتھ سے چھوڑ رہی ہے ۔مذہبی لوگوں کو دیکھ لیں ،سن لیں
ان کا موضوع سخن حضور ﷺ کا عفوو درگزر ہوتا ہے اور خطیب شہر اپنے مخالفوں
کے قتل کے فتوے جاری اورقتل کرنے والے کے لئے جنت کے ٹکٹ بانٹ رہے ہوتے ہیں
،نام کے ساتھ شیریں بیان لکھا ہوتا ہے اور سٹیج پر لفظوں کی گولہ بار نظر
آتی ہے ۔اسی طرح ہمارا طرز سیاست ہے۔ہماری سیاسی دنیا کی قوت برداشت کا یہ
حال ہے پارلیمنٹ ’’مباحثے ‘‘کا فورم ہے ہم نے اسے ’’ مجادلے ‘‘کا مرکز بنا
دیا، جمہوریت ڈائیلاگ کا نام ہے ہم نے اسے ’’ ڈانگ ‘‘ بنا ڈالا ، ’’ الیکشن
‘‘ رائے معلوم کرنے کا طریقہ ہے ہم نے اسے ’’ ایلیگیشن‘‘ بنا ڈالا ، مظاہرہ
’’ جذبات‘‘ کے اظہار کے لئے ہوتا ہے ہم نے اسے ’’ مغلظات ‘‘کا اشتہار بنا
ڈالا ،جلوس بطوراحتجاج ہوتا ہے ہم نے اسے’’ تاخت و تاراج ‘‘ بنا ڈالا ہے،
سیاست دراصل مسائل کو سمجھنے کا نام ہے اور ہم نے اسے فقط ’’ الجھنے ‘‘ کا
نام دے ڈالاہے،ارباب اقتدار پانچ سالوں میں دوسروں کو تہس نہس کرنے کے
عزائم رکھتے ہیں اور حزب اختلاف پانچ برس ٹانگ کھینچنے میں لگا رہتا ہے
،سیاسی حوالے سے عدم برداشت کا یہ عالم ہے الیکشن کوئی بھی ہوں ہر دو طرف
سے فوج کی نگرانی میں انتخاب کا مطالبہ ہوتا ہے ۔
کچھ یہی حال ہمارے نظام معیشت کا ہے قناعت، کفائت، بچت،ضبط، دیانت ،یہ سب
الفاظ اس نظام کی لغت سے خارج ہو چکے ہیں ، ہم کسی کاروبار میں منافع کے
لئے ایک برس انتظار نہیں کر سکتے، ہم تجارت میں دیانت کا صبر آزما تجربہ
نہیں کر سکتے ، قدم قدم پر ہماری قوت برداشت جواب دے جاتی ہے، خواہ اس کے
ساتھ ساتھ دیانت ،ایمانت داری ، ضمیر، انسانیت، خیر سبھی جواب دے جائیں ،
منافع منشیات فروشی سے ملتا ہے تو یہ کام ہمیں مرغوب ہو گا،کاروبار ،
ملازمت کو ناجائز حدود تک لے جانے میں اگر رشوت دینی پڑے تو د ے دیتے ہیں
،تجارت میں دیانت اگر تھوڑا منافع دے تو دیانت کو رخصت کر دیتے ہیں ۔ذخیرہ
اندوزی ، ملاوٹ ،سمگلنگ،اور دونمبر مال کی تیاری ، چور بازاری یہ سب ہماری
عدم برداشت کے مکروہ مظاہر ہیں ۔ ہمارے کھانے پینے کے انداز میں قوت برداشت
کی کمی نمایاں ہوتی ہے،شادی بیاہ میں کھانے کی تباہ کاریاں ، دھکم پیل ،ہلڑ
بازی اور چھینا جھپٹی ہماری حد سے بڑھی ہوئی ہوس کا پتہ دیتی ہیں کہ شائد
یہ کھانا ہماری زندگی کا آخری کھانا ہے ۔رہی معاشرت تو اﷲ کی پناہ ! ایام
جاہلیت تو ویسے ہی بدنام ہو گئے وہ دور ہم سے زیادہ کینہ پرور، منتقم،خون
آشام ،کم ظرف ،جفاکش اور مغلوب الغضب تو نہیں ہوگا، آج کوئی ہمسایہ دوٹائم
کی جی بھر کے کھانا کھالے تو ہمارے پیٹ میں قراقر اٹھ پڑتا ہے ،کسی کے ہاں
قالین بچھ گیا تو ہمارے ہاں صف ماتم بچھ جاتی ہے،کسی کے گھر شادیانے بج گئے
توہمارے ہاں مرثیے شروع ہو گئے، کسی کو رزق کی فراخی مل گئی تو ہمارے دل
تنگ ہونے لگ جاتے ہیں ، آخر یہ سب کچھ کیوں ہوتا ہے؟ وہی عدم برداشت کی
بیماری ،جس نے ہمارا سکون چاٹ لیا ،وڈیرا مزارعوں کے خون کا پیاسہ ، چودھری
غریبوں کی عزت کا ڈاکو ، افسر ماتحت کی عزت نفس کا دشمن، کارخانہ دار
مزدوروں کی معاش کا قاتل ، بڑا چھوٹے کا حریف، یہ نقشہ کس معاشرے کا ہے
جوروز بروزذہنی اور نفسیاتی طور پر سکڑتا اور سمٹتا جا رہا ہے ،اور کہیں
ایسا نہ ہو کہ ہم خود اپنے وجود میں سمانا چاہیں تو ہمارا وجود ہی ہمیں
اپنے اندر نہ سمو سکے،تنگی اس قدر بڑھ چکی ہے ، عدم برداشت اس حد تک پہنچ
چکی ہے۔
آخر ہم کب تک کسی کا پکا مکان دیکھ کر اپنا کچا کوٹھا گراتے رہیں گے؟ کسی
کا بیٹا دیکھ کر اپنی بیٹی زندہ درگور کرتے رہیں گے؟ کسی کی عزت دیکھ کر
اپنی ذلت کا سامان کرتے رہیں گے؟کسی کا نام دیکھ کر خود کو بدنام کرتے رہیں
گے ؟ کسی کو ہنستا دیکھ کرآنسو بہاتے رہیں گے ؟کوئی فرعون آج تک عمر بھر ’’
بنی اسرائیل ‘‘کو اپنا غلام نہیں رکھ سکا ہم کیوں ہر ایک کو غلام بنائے
جانے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں ؟ کوئی نمرود کسی ’’ ابراہیم ‘‘ کو نذر آتش
نہیں کر سکا ہم کیوں ہر ایک کے لئے جہنم دہکائے بیٹھے ہیں؟کوئی قارون کسی
’’ موسی ؑ ‘‘کے رزق کو نہیں روک سکاہم کیوں ہر ایک کی روزی پر پھن پھیلائے
بیٹھے ہیں ؟ کوئی امیہ بن خلف کسی ’’بلال ‘‘ کو زیر نہیں کرسکا ہم کیوں ہر
ایک کے لئے زنجیریں سجائے بیٹھے ہیں؟کوئی جہانگیر کسی ’’ مجدد ‘‘ کا راستہ
نہیں روک سکا ہم کیوں ہر ایک کے لئے باڑھ لگائے بیٹھے ہیں ؟جب یہ سب تاریخ
کے مستند حوالے ہیں تو ان حوالوں سے ہم کیوں منہ چھپائے بیٹھے ہیں ؟مذہب
اپنے اندر ’’ تبلیغ ‘‘ سیاست اپنے اندر ’’ تدبیر ‘‘ معیشت اپنے اندر ’’
تنظیم ‘‘ اور معاشرت اپنے اندر ’’ تہذیب ‘‘ پیدا کرے اسی سے انسان خلیفۃ
الارض ‘‘ قرار پاتا ہے،تبلیغ ہو تدبیر اور اسی طرح تنظیم ہو یا تہذیب یہ
ساری چیزیں برداشت سے منسلک ہیں ،اگر کسی سوسائٹی میں قوت برداشت ہی نہ رہے
تو پھر رہے نام اﷲ کا ! اس اسی عدم برداشت کی وجہ معاشروں میں تباہی اور
زوال ہے ۔اگر تما طبقاتِ انسانی اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کر لیں تو
ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے اور معاشرہ ترقی کی راہوں پر گامزن ہو سکتا
ہے ۔
|