آج کی ماں جاگ ذرا

تحریر:راحیلہ ہاشمی
ماں کی تخلیق کا مقصد صرف نسل انسانی کو آ گے بڑھانا نہیں تھا۔بلکہ انسانوں کی تربیت کو پروان چڑھانے کے لئے ماں کی گود کو تربیت گاہ کا درجہ دیا۔ماں کے قدموں تلے جنت بچھا دی گئی۔دنیا اور آ خرت کی کامیابی میں ماں کی عظمت و عزت و تکریم کو واجب قرار دے دیا گیا۔نیز اس کی رضامندی کو رب کی رضامندی اور اس کی نا فرمانی کو رب کی نافرمانی تعبیر کر دیا۔مگر آ ہ کیا بات کی آ ج کی ماں اپنے رتبے کو پہنچاتی،اپنے وجود کی اہمیت سے اپنے ظاہروباطن کو منور کرتی۔اوراپنے صاحب اولاد ہونے کا حق ادا کرتی۔اور اپنی اولاد کے ظاہر و باطن سنوارنے میں اس کی مدد کرتی۔اسے اﷲ تعالیٰ سے منسلک کرتی۔اس کی شخصیت میں نبی آ خر الزماں صلی علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں کا رنگ بھرتی۔اس کی زندگی کا مقصد آ خرت کی کامیابیوں کا حصول بناتی۔اس کی شخصیت کو صحابہ کرام کی لازوال ایمان افروز محبت سے چار چاند لگاتی۔مگر یہ تو نے کیا کیا!

اپنی اولاد کو سپر مین اور اسپائیڈر مین کے خیالات میں گم کر دیا۔

اریتم اسے محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد بناتی۔مگر تو نے تو اسے فانی دنیا کے فریبوں میں کھو جانے دیا۔

ارے تجھے تو اپنی اولاد کو مولا علی کرم اﷲ وجہہ کی شجاعت دینی تھی۔عمر فاروق کا ایمان دینا تھا۔عثمان غنی کی سخاوت دینی تھی۔ابوبکر صدیق کی صداقت دینی تھی۔

سرور کائنات کی محبت سے اس کا سینہ منور کرنا تھا۔رب کائنات سے اس کی ملاقات کروانی تھی۔بی بی فاطمہ کی شرم وحیائاور پاکیزگی سے اس کے تصورات و خیالات سے اس کو روشناس کروانا تھا۔

آج کی ماں جاگ ذرا۔اگر اب بھی تو نہ جاگی۔ تو بربادی کا ایک طوفان اب بھی تمھارے سامنے سینہ تان کر کھڑاہے۔اب بھی وقت ہے۔ان قدروں کو پہچان ذرا۔دنیا کی فانی محبت سے تھوڑا الگ کر،اپنے ذہن کو اس چمک ودمک سے آ زاد کر۔

تو وہ اعلیٰ و عظیم ہستی ہے۔جیسا چنا گیا ہے۔نسلوں کی آ بادکاری کے لیے۔تو تو اپنا حق ادا کر۔ورنہ بروز قیامت اپنے رب کے سامنیکس منہ سے جنت کی طلبگار ہو گی۔جیسے رب نے تیرے قدموں میں سجا دیا۔
اب بھی وقت یے۔اٹھ اپنے ایمان کو تازہ کر،اس دنیا کی محبت کو فراموش کر۔اور اپنی آخرت کی فکر کر جس کے لیے تو نے جوابدہ ہونا ہے۔

اس دنیا میں تیری اولین زمہ داری اولاد کی پرورش ہے۔تیرا کام اس کی شخصیت میں دنیاوی اخلاق واطوار کو سنوارنااور دین کی خدمت اوراس کے فرائض کو اجاگر کرنا ہے۔

اپنی اولاد کو اپنی آ خرت میں نجات کا ذریعہ دنیا میں صدقہ جاریہ بنانا ہے۔

اس تحریر میں دل کے جذبات اور میرے نا ختم ہونے والے آ نسو شامل ہیں۔میں بشمول خود دل کی گہرائیوں سے آ ج کی ماؤ ں کے لیے دعا گو ہوں۔کہ میری تحریر ان کے دلوں پر نقش ہو جائے۔اور ان کے بہتے ہوئے آ نسو ان کی توبہ کے ضامن بن جائیں۔اور وہ اپنی زندگی کے اس عظیم مقصد(تربیت و اولاد)کو پا لیں۔اور اپنے قدموں کو واقعی جنت کا حقدار پائیں۔

 

Assia Muneer
About the Author: Assia Muneer Read More Articles by Assia Muneer: 28 Articles with 21462 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.