خواہشِ حیات و خواہشِ تَسلسلِ حیات

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ مَریم ، اٰیت 1 تا 15 ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
کٓھٰیٰعٓصٓ
1 ذکر رحمت ربک
عبدہٗ زکریا 2 اذنادٰی ربہ
نداء خفیا 3 قال رب انی وھن
العظم منی واشتعل الراس شیبا و
لم اکن بدعائک رب شقیا 4 وانی خفت
الموالی من وراءی وکانت امراتی عاقرا فھب لی
من لدنک ولیا 5 یرثنی و یرث من اٰل یعقوب وجعلہ
رب رضیا 6 یٰزکریا انا نبشرک بغلٰم اسمہ بیحیٰی لم نجعل لہ
من قبل سمیا 7 قال رب انٰی یکون لی غلٰم وکانت امراتی عاقرا و
قد بلغت من الکبر عتیا 8 قال کذٰلک قال ربک ھو علَیّ ھین وقد خلقتک
من قبل ولم تک شیئا 9 قال رب جعل لی اٰیة قال اٰیتک الا تکلم الناس ثلٰث
لیال سویا 10 فخرج علٰی قومہ من المحراب فاوحٰی الیھم ان سبحوا بکرة وعشیا
11 یٰیحیٰی خذ الکتٰب بقوة واٰتینہ الحکم صبیا 12 وحنانا من لدنا وزکٰوة وکان تقیا 13
وبرابوالدیہ ولم یکن جبارا عصیا 14 وسلٰم علیہ یوم ولد و یوم یموت ویوم یبعث حیا 15
اے ھمارے کریم النفس ھادی ، ھمارے یقین پرور عبد اور ھمارے صادق الوعد رسول ! یہ تیرے رَب کی اُس مہربانی کا ذکر ھے جو اُس نے اپنے بندے زکریا پر اُس وقت کی تھی جب وہ دَبی دَبی اور گُھٹی گُھٹی آواز میں کہہ رہا تھا کہ اے میرے پروردِگار ! میری عظمت کا سُورج غروب ہو رہا ھے جس کی وجہ سے میری قوم کے سردار میرے خلاف مُشتعل ہو چکے ہیں ، تُو بخوبی جانتا ھے کہ میں نے تیرے عطا کیۓ ہوۓ کارِ نبوت میں کبھی بھی کوئی کوتاہی نہیں کی ھے اور تُو یہ بھی بخوبی جانتا ھے کہ میری قوم ایک بانجھ قوم ھے اور مُجھے یہ ڈر ھے کہ میرے بعد میری اور اٰلِ یعقوب کی دینی وراثت کو سنبھالنے والا کوئی نہیں ہو گا ، اِس لیۓ میری درخواست ھے کہ تُو میری جانشینی کے لیۓ میری قوم میں کسی ایسے مردِ کار گزار کو مُنتخب کر کے اُس کو قوم کی سرداری کے لیۓ راضی کر دے جو کارِ نبوت کے لیۓ میری جانشینی کا حق دار ہو ، زکریا کو اللہ نے بشارت دی کہ ھم نے تیرے جانشین کے طور پر ایک مردِحیات آفریں { یحیٰی } کا انتخاب کر لیا ھے جو ایک ایسا اسم بامُسمٰی نوجوان ھے کہ اِس نوجوان سے پہلے ھم نے کسی اور انسان کو حیات آفرینی کی اِس اَعلٰی صفت سے مُتصف نہیں کیا ھے ، زکریا نے حیرت سے کہا پروردِگار یہ حیات آفریں نوجوان کب آۓ گا اور کہاں سے آۓ گا ، میری سرکش قوم تو اِس قابل ھے ہی نہیں کہ اِس میں کوئی ایسا جوہرِ قابل پیدا ہو جاۓ اور جہاں تک میری ذات کا تعلق ھے تو مُجھے میری بڑھتی عُمر کی ناتوانی نے گھیرا ہوا ھے ، فرمایا تیری قوم کا بانجھ اور تیرا ناتواں ہونا ہی وہ وجہ ھے جس کی بنا پر ھم نے تُجھے ایک لائق اور حیات آفریں جانشین دینے کا فیصلہ کیا ھے ، اِس سے پہلے تُجھے بھی تو ھم نے اسی طرح سے پیدا کر کے کارِ نبوت جیسے عظیم کام پر مامُور کیا تھا ، اگر پہلی بار کیا گیا وہ کام ھمارے لیۓ کُچھ مُشکل نہیں تھا تو دُوسری بار کیا جانے والا یہ کام بھی کُچھ مُشکل نہیں ھے ، زکریا نے یہ سُن کر اُس حیات آفریں نوجوان کے ظہور کی نشانی مانگی تو کہا اُس کے ظہور کی نشانی یہ ہوگی کہ اُس کے تُمہارے سامنے آنے سے تین دن پہلے تُمہیں اِس قدر مصروف کر دیا جاۓ گا کہ تُو اپنے قومی سرداروں کے ساتھ بھی اشارات و کنایات ہی میں بات کر سکے گا ، زکریا نے یہ بشارت پاتے ہی اپنے سامانِ جنگ کے کمرے کی ایک کِھڑکی سے سر کو باہر نکال کر اپنے قومی سرداروں کو خاموشی کے ساتھ اپنے اپنے صُبح و شام کے مقررہ کاموں میں مصروف رہنے کا اشارہ کیا اور پھر خود بھی کمرہ بند ہو کر اپنے کام میں مصروف ہو گیا اور پھر جب وہ حیات پرور نوجوان یحیٰی سامنے آیا تو ھم نے اُس کو اُس قوم کا حاکم بنایا ، وہ ایک ایسا نرم خُو اور پاکیزہ رُو نوجوان تھا جو والدین کے ساتھ اَدب تمیز سے پیش آتا تھا اور درُشتی اُس کو چُھو کر بھی نہیں گزری تھی ، ھم نے اُس نو جوان کو حُکم دیا کہ ھم نے اپنے کتابی اَحکام تُمہاری فطرت کا شوق بنا کر تُمہاری فطرت میں سمو دیئے ہیں اور اَب تُم ھمارے اِن اَحکام کے ذریعے اپنی قوم پر اپنی گرفت مضبوط کر لو اور زکریا کی قوم کو بھی اِس حیات آفریں نوجوان کے اَحکام پر عمل کرنے کے لیۓ یہ مُژدہ سُنا دیا یا گیا کہ اللہ تعالٰی نے تُمہاری رہنمائی کے لیۓ جس نوجوان کا اِنتخاب کیا ھے وہ تُمہارے دُوسرے نوجوانوں کی طرح کا کوئی عام سے نوجوان نہیں ھے بلکہ وہ اَمن و سلامتی کا وہ علَم بردار ھے کہ جس کی پیدائش کے دن کو بھی ھم نے سلامتی کا دن بنایا تھا ، اُس کی موت کے دن کو بھی سلامتی کا دن بنائیں گے اور موت کے بعد جس دن اُس کو زندہ کیا جاۓ گا تو اُس کا وہ دن بھی سلامتی کا دن ہو گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قصہِ آدم اِس اَمر کا گواہ ھے کہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے یا تو اُس حیات کا طالب رہا ھے جس حیات پر موت وارد نہ ہو یا پھر اُس حیات کا طالب رہا ھے جس حیات کے ساتھ موت کے بعد بھی اُس کا کوئی تعلقِ یاد قائم رھے ، انسان کی پہلی خواہش تو اِس دُنیا میں پُوری نہیں ہوئی لیکن اِس کی دُوسری خواہش اِس طرح پُوری کی گئی ھے کہ اِس دُنیا میں اُس کی اَولاد کی صورت میں اُس کے ایک جنم کے بعد اُس کا دُوسرا جنم ہوتا رہتا ھے اور اُس کے ہر جنم میں اُس کے اَجزاۓ جسم و جان دُنیا میں آتے رہتے ہیں ، یہی وجہ ھے کہ جُملہ انسان مرنے سے پہلے اپنے اَجسام کے تسلسل کے لیۓ اپنی وہ جسمانی اَولاد پیدا کرنا چاہتے ہیں جو زمین پر اُن کے اَجسام کو نسل در نسل چلاتی رھے اور اپنے علمی و عملی کام کے تسلسل کے لیۓ اپنی وہ رُوحانی اَولاد بھی پیدا کرنا چاہتے ہیں جو زمین پر اُن کے علمی و عملی کام کو آگے سے آگے بڑھاتی رھے ، انسان کی یہی وہ نفسیاتی خواہش ھے کہ جس نفسیاتی خواہش کے تحت ہر شخص اپنی اَولاد کو اُسی پیشے میں لانے کی کوشش کرتا ھے جس پیشے سے وہ خود وابستہ ہوتا ھے تاکہ اُس کا علمی و عملی ورثہ اُس کی دُنیا سے جانے والی ہر ایک نسل کے بعد دُنیا میں آنے والی ہر ایک نسل میں چلتا چلا جاۓ ، انسان کی یہ خواہش اتنی فطری اور اتنی حقیقی ھے کہ اَنبیاۓ کرام علیھم السلام بھی یہی چاہتے تھے کہ جس وقت وہ دُنیا سے رُخصت ہوں تو دُنیا میں اُن کے کارِ نبوت کو جاری رکھنے والی وہ اُمت بھی ضرور موجُود ہو جو اُن کے بعد اُن کےکارِ نبوت کی علمی و عملی کام کی حفاظت کرتی رھے اور اُن کا لایا ہوا وہ دین دُنیا سے ختم نہ ہو جاۓ جس دین کی اُنہوں نے عُمر بھر اہلِ دُنیا کو تعلیم دی ھے ، انسانی نفسیات و خواہشات کا یہی موضوع قُرآنِ کریم کی سُورہِ مریم کا مرکزی موضوع ھے اور اِس مرکزی موضوع کی دلیل اور تَمثیل کے طور پر قُرآنِ کریم نے اِس سُورت کے آغاز میں زکریا علیہ السلام اور یحیٰی علیہ السلام کا وہ قصہِ رفتہ بیان کیا ھے جس قصہِ رَفتہ میں انسان کی اِس خواہش کی ایک سبق آموز تفصیل بیان کی گئی ھے جو اِس سُورت کا ایک علمی موضوع ھے لیکن عُلماۓ روایت کہتے ہیں کہ زکریا علیہ السلام جب 90 سال کے ہوچکے تھے تو اُس وقت اُنہوں نے اپنی اور اٰلِ یعقوب کی وراثت سنبھالنے کے لیۓ اللہ تعالٰی سے ایک فرزند کی پیدائش کی دُعا کی تھی اور اللہ تعالٰی نے اُن کو وہ فرزند عطا فرمایا تھا جس کا نام یحیٰی تھا ، اگر زکریا علیہ السلام ایک ایسے روایتی جاگیردار ہوتے جنہوں نے اٰلِ یعقوب کی زمینوں اور مکانوں پر قبضہ کیا ہوا ہوتا تو اُن کو اپنی زمینوں ، مکانوں ، دوکانوں اور دُوسری منقولہ و غیر منقولہ جائداد کے لیۓ فی الواقع ایک ایسے ہی ہو نہار بیٹے کی ضرورت ہوتی جو اُن کی جاگیر کا ایک دست گیر ہوتا اور عُلماۓ روایت کی یہ روایت بھی درست ہوجاتی لیکن زکریا علیہ السلام تو اللہ تعالٰی کے ایک برگزیدہ نبی تھے اور اللہ تعالٰی کے ایک نبی کے طور پر اُن کو زمینوں ، مکانوں ، دوکانوں اور دُوسری منقولہ و منقولہ جائداد کے سنبھالنے کے لیۓ کسی بیٹے کی ضروت نہیں تھی بلکہ صرف اُس جانشین کی ضرورت تھی جو اُن کے اُس کارِ نبوت کی حفاظت کرتا جو اُن کا اور اٰلِ یعقوب کا ایک مُشترکہ دینی و رُوحانی ورثہ تھا اور بیٹے کی دُعا مانگنے کی یوں بھی کوئی تُک نہیں بنتی تھی کہ اگر 90 سال کی عُمر میں اللہ تعالٰی اُن کو بیٹا دے بھی دیتا تو آخر یہ کب ضروری ہوتا کہ وہ بیٹا نبی بھی ہوتا اور یہ کب ضروری تھا کہ وہ نو مولُود دیکھتے ہی دیکھتے جوان ہو کر اُن کے کارِ نبوت کا بار بھی اُٹھا لیتا اور دُوسری بات یہ ھے کہ زکریا علیہ السلام بار بار خود بھی یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ اِس لَمحہِ دُعا کے وقت اُن کی جو عُمر ھے وہ قُدرت کے اُس قانونِ فطرت سے قطعاً کوئی مطابقت نہیں رکھتی قُدرت کے جس قانونِ فطرت کے تحت اَولاد پیدا ہوتی ھے اور تیسری بات یہ کہ جب 90 سال کی عُمر تک اللہ تعالٰی نے اپنے اُس نبی کو اَولاد نہیں دی ھے تو اَب 90 سال کی عُمر میں اللہ تعالٰی کے اُس نبی نے قُدرت کے اِس فیصلے کو قبول کیوں نہیں کیا ھے ، عقلِ سلیم اِس بات کو ہر گز تسلیم نہیں کرتی کہ اللہ تعالٰی کا کوئی نبی اَولاد کی فطری عُمر گزرنے کے بعد بھی اللہ تعالٰی کے سامنے بچوں کی طرح ایک بچگانہ ضد کرے لیکن حقیقت یہ ھے کہ قُرآنِ کریم کی اِن اٰیات کے اِس مفہوم میں یہ بچگانہ ضِد قُرآن کی نُورانی اٰیات نے پیدا نہیں کی ھے بلکہ اہلِ روایت کی ظُلمانی روایات نے پیدا کی ھے کیونکہ جہاں تک قُرآنِ کریم کے اپنے بیانیۓ کا تعلق ھے تو اِس بیانیۓ میں آنے والا پہلا لفظ "العظم" ھے جس کا معنٰی عظمت ھے اور جس سے عظیم و معظم وغیرہ کے الفاظ بنے ہیں ، اِس کا دُوسرا معنٰی ہڈیوں کا ڈھانچا ھے اور یہ دونوں معنی زکریا علیہ السلام کی نبوت اور عُمرِ نبوت دونوں پر ہی مُنطبق ہوتے ہیں ، اِس سلسلہِ کلام کا دُوسرا لفظ "اشتعل" ھے جو بابِ افتعال سے ھے اور جس کا معنٰی شُعلہ و اشتعال ھے اور جو اُس جارحیت کا مفہوم فراہم کرتا ھے جس میں گھیراؤ اور جلاؤ کا مذمُوم مفہوم شامل ہوتا ھے ، اٰیات ھٰذا میں ایک تیسرا لفظ "الراس" ھے جس کا مادہ "رءس" ھے اور جس کا معنٰی سر ھے اور سر کے اِسی لُغوی معنوی حوالے سے گھر اور قوم کے سربراہ کو ریئس کہا جاتا ھے اور چوتھا لفظ "غلٰم" جس کا اطلاق اُس جوان اور کار آمد شخص پر ہوتا ھے جو کسی کے اَحکام کا تابع ہوتا ھے اور جو اپنے ہر ایک کام میں اُس شخص کے اَحکام کا پابند ہوتا ھے جس کا وہ غلام ہوتا ھے ، اگر قُرآنِ کریم کی اِن قُرآنی لُغات کو سامنے رکھ کر اٰیات کا مفہوم مُتعین کیا جاۓ تو اِن سے 90 سال کی عُمر میں اللہ تعالٰی سے "بیٹاطلبی" کا وہ موہُوم مفہوم بر آمد نہیں ہوتا جو عُلماۓ روایت نے کشید کیا ھے بلکہ اِن اٰیات سے جانشین نبوت کا وہ مُحتاط و محفوظ مفہوم بر آمد ہوتا ھے جو متنِ اٰیات کے زیرِ متن ھم نے درج کیا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 457613 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More