زمانے کی الٹ چال' کیا ہم جوانوں کیلئے تربیتی سلسلہ شروع کراسکتے ہیں
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ہم پیاز اور گڑ کیساتھ صبح کا پراٹھا دوپہر کو ہونیوالے سکول کے وقفے میں کھاتے تھے پنسل نہیں ملتی تھی ' بیٹری کے سیل سے نکالے گئے کالے رنگ کے سیل کو سلیٹی سمجھ کر لائن مارتے ' تختی لگتے تھے ' بال پوائنٹ لکھنے پر مار پڑتی تھی ' ہولڈر سے لکھنے کی تلقین ملتی ' اور ہمیں یہ بھی پتہ ہوتا کہ ہولڈر کا نب کونسا انگلش کیلئے ہے اور کونسا اردو زبان کیلئے ' اور تو اور مار بھی ایسی پڑھتی کہ الامان الحفیظ ' اور اگر کہیں غلطی سے گھر آکر والد کو پتہ چلتا تو پھر گھر میں مزید مار پڑتی کہ ضرور کوئی نہ کوئی شیطانی کی ہوگی. تبھی تو مار پڑھی ہے اور پھر گھر میں بھی چھترول ہوتی.کتابیں کپڑے میں باندھ کر لے جاتے. کنگھی کی ہمت نہیں ہوتی تھی بلکہ میٹرک تک ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ بالوں میں مانگ دائیں سائیڈ پر نکالتے ہیں یا بائیں سائیڈ پر.. |
|
گئے دنوں کی بات ہے کہ اگر کوئی شخص منہ ڈھانپ لیتا 'یا چہرہ چھپا لینے کی کوشش کرتا تو معاشرے میں سیکورٹی اہلکار تو بڑی بات ہے وہ تو منہ ڈھاپنے شخص کو کھڑا کرتے ان سے پوچھ گچھ کرتے کہ کہیں مفرور تو نہیں ' کوئی قتل تو نہیں کیا ' کہیں چوری کرکے تو نہیں آرہے. خیریت تو ہے ' چور تو نہیں ہو. اور منہ چھپانے والا بندہ شرمندہ ہوجاتا . عام لوگ بھی منہ چھپانے والے شخص سے دور بھاگتے کہ کہیں کوئی مسئلہ نہ ہو جائے.اب وہی معاشرہ ہے ' ہاں نسل تبدیل ہو کر رہ گئی ہیں کچھ پرانے نسل کے لوگ اب بھی ہیں لیکن عجیب زمانہ آگیا ہے سب نے منہ چھپا لئے ہیں ' اب تو وہ زمانہ آگیا ہے کہ اگر کوئی منہ نہیں چھپاتا تو جرمانہ ہوتاہے- اب تو منہ چھپانے والے شخص کو تعلیم یافتہ ' تہذیب یافتہ کہاجاتا ہے ' اور جو لوگ منہ نہیں چھپاتے انہیں پینڈو ' جاہل ' گنوار جیسے القاب ملتے ہیں اور تو اور عام لوگ بھی اب منہ نہ چھپانے والوں سے منہ چھپاتے ہیں.
بس یہی حال ہمارے تعلیمی میدان کا بھی ہے ہر چیز الٹ ہو کر ر ہ گئی ہیں ..ویسے کیا قسمت پائی ہے آج کل کے جوانوں نے .بغیر کتاب پڑھے پاس بھی ہو جاتے ہیں اور زمانہ بھی ایسا آگیا ہے کہ اب تو پرائیویٹ اداروں کے اساتذہ بھی بغیر پڑھائے تنخواہیں لینے کیلئے چیخیں مارتے ہیں-ایک ہمارا دور تھا پورے کلاس میں ایک یا زیادہ سے زیادہ تین " بادشاہ"ہوا کرتے تھے جو سب کے سب کلاس کے آخری ڈیسک پر بیٹھے ہوتے.ان سے استاد بھی پوچھ گچھ نہیں کرتا ' بس انہیں مار پڑتی رہتی.کیونکہ یہ پڑھائی میں نکمے ہوتے . اس لئے بادشاہ کہلائے جاتے . اوراب کلاس میں ہر کوئی بادشاہ ہے ' کیونکہ پڑھنے والا کوئی نہیں.
ہم پیاز اور گڑ کیساتھ صبح کا پراٹھا دوپہر کو ہونیوالے سکول کے وقفے میں کھاتے تھے پنسل نہیں ملتی تھی ' بیٹری کے سیل سے نکالے گئے کالے رنگ کے سیل کو سلیٹی سمجھ کر لائن مارتے ' تختی لگتے تھے ' بال پوائنٹ لکھنے پر مار پڑتی تھی ' ہولڈر سے لکھنے کی تلقین ملتی ' اور ہمیں یہ بھی پتہ ہوتا کہ ہولڈر کا نب کونسا انگلش کیلئے ہے اور کونسا اردو زبان کیلئے ' اور تو اور مار بھی ایسی پڑھتی کہ الامان الحفیظ ' اور اگر کہیں غلطی سے گھر آکر والد کو پتہ چلتا تو پھر گھر میں مزید مار پڑتی کہ ضرور کوئی نہ کوئی شیطانی کی ہوگی. تبھی تو مار پڑھی ہے اور پھر گھر میں بھی چھترول ہوتی.کتابیں کپڑے میں باندھ کر لے جاتے. کنگھی کی ہمت نہیں ہوتی تھی بلکہ میٹرک تک ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ بالوں میں مانگ دائیں سائیڈ پر نکالتے ہیں یا بائیں سائیڈ پر..
اب تو ماشاء اللہ ہر بچہ پیدائشی جیمز بانڈ ہے ' کلر سے لیکر پنسل ' کتابوں کے بیگ سے لیکر ٹفن تک بال پوائنٹ کے استعمال سے لیکر سکول میں استاد کی مار سے بے غم ہے.استاد کی بھی ہمت نہیں کہ بچوں کو مار سکیں.لیکن پھر بھی یہ حال ہے کہ اپنی زبان کسی کو نہیں آتی. بچوں کو انگریزی زبان میں سب کچھ یاد ہے لیکن اگر ان سے قومی زبان میں یا پھر مادری لوکل زبان میں ہندسوں یا چیزوں کا پتہ کیا جائے تو ایک دوسرے کا منہ تکتے رہتے ہیں کہ یہ کیا پوچھا جارہا ہے.اور تو اورکتابیں خریدنی پڑتی تھی اور اگر کہیں غلطی سے والد صاحب نے بستہ کھول کر دیکھ لیا کہ کتابیں کس حالت میں ہے تو پھر الامان الحفیظ ' تین دن تک مائیں تشریف کی ٹوکری سے لیکر سارے جسم کو گرم پانی سے ٹکور دیتی تھی اب تو سکولوں میں مفت کتابیں بھی ملتی ہیں لیکن مجال ہیں کہ باپ بھی پوچھ سکیںکہ بیٹا کتابوں کا حال کیا کیا ہے..کچھ یاد بھی ہے کہ نہیں.
جب ہم میٹرک میں تھے تو سنتے تھے کہ تم میٹرک پاس سے تو پرانے زمانے کے چھٹی جماعت کے لوگ اچھے تھے ' اور یہ سن کر ہمیں برا بھی لگتا تھا کہ یہ کیا بات ہوئی ہم ان سے تعلیمی لحاظ میں بہتر لیکن یہ کیسی باتیں کرتے ہیں لیکن آج اندازہورہا ہے ہ اقعی ہمارے گریجویٹ نوجوانوں سے ہم سے گئے گزرے دور کے آٹھویں جماعت کے لوگ بھی بہتر تھے .اخلاق سے لیکر زندگی کے ہر معاملے میں بہتررہے 'جبکہ آج کے دوران میں آنیوالے کل کے دور میں ہم اپنے بچوں کو یہ کہہ سکتے کہ تمھارے ڈبل ماسٹر سے ہمارے دور کے میٹرک پاس لوگ بہتر تھے .
دو سال سے تعلیمی سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہیں ' کرونا کی وجہ سے ' ٹھیک ہے یہ مجبوری ہے ' لیکن کیا کسی والد نے اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچا ہے کہ یہ کیا بنیں گے بادشاہ بن کر پاس ہونے والے کیا کرینگے ' اوریہی نسل کسی بھی میدان میں خواہ وہ میڈیکل کا شعبہ ہو ' وکالت کا شعبہ ہو ' صحافت کا شعبہ ہو ' انجنیئرنگ کا شعبہ ہو یا کوئی بھی شعبہ ' آج کے نوجوان سے آپ کیا توقع رکھیں گے اور یہ کیا کوئی تبدیلی لیکر آجائیں گے.. لگتا تو مشکل بلکہ ناممکن ہی ہے .
لیکن کیا ہم اپنے بچوں کو ان دو سالوں کی کمی کوئی ہنردیکر پوری نہیں کرسکتے.. یہ وہ سوال ہے جو حکمرانوں کو سوچنے کی ضرورت ہے.کیا میٹرک سے فارغ ہونیوالوں کیلئے کوئی تربیتی سیشن ' ڈپلومہ ہم شروع نہیں کرسکتے جس سے ہنرمند افراد ہمارے معاشرے میں بڑھ سکیں اور افرادی قوت بھی بڑھے اور بیروزگاری کی شرح میں بھی کمی آئے اس پر سوچنے کی ضرورت ہے..کیونکہ دو سالوں سے تعلیمی ادارے بند ہیں اور زیادہ تر بچوں نے حالا ت کے پیش نظر پرائیویٹ کام شروع کردیا ہے تاہم اب بھی ہزاروں ایسے بچے ہیں جنہوں نے ابتدائی تعلیم کو مکمل کرلی ہے مگر کوئی ہنر ان کے پاس نہیں کیا. حکومت ان کیلئے کوئی تربیتی سیشن شروع کراسکتی ہیں جو نہ صرف انہیںروزگار دے بلکہ انہیں ہنر بھی مہیا کردے..
|