میں آنکھیں بند کر کے نشانہ لگانے کا ماہر تھا۔ میرا تیر
کسی بھی رخ میں ہو، وہ اپنے نشانے پر لگتا تھا۔ سب مجھے ماہر نشانے باز
سمجھتے تھے۔ میں اپنے آپ میں ایک تھا۔ مجھے کیا پتہ بد نصیبی کس بلا کا نام
ہے۔ درد کسی بھی درجے کا ہو برداشت کر جاتا تھا۔ میری برداشت کی طاقت سب سے
زیادہ تھی۔ خوف میرے پاس سے نہیں گزرتا تھا۔ میری آنکھوں کی چمک لوگوں کے
دلوں میں جگہ کر لیتی تھی، سب مجھے کنگ کہتے تھے۔ مجھے خود بھی اندازہ نہیں
تھا کہ میرے ہاتھوں میں ایسی کون سی شکتی ہے جو مجھے نمبر ون بنا دیتی ہے۔
دولت کے لیے کبھی محنت نہیں کی بلکہ میں دولت کو محنت سمجھتا ہی نہیں تھا۔
میرے دوستوں کی فوج جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے تیار رہتی تھی۔ جس دشمن
نے بھی میرے لیے نقصان کا سامان تیار کیا، اس کو اسی سامان کی نذر ہونا
پڑا۔ میرے ایک اشارے پر حالات بدل جاتے تھے۔ میرا جسم عجیب و غریب کیمیائی
طاقت رکھتا تھا۔ مجھے کئی علوم پر عبور تھا۔ میرے اندازے یقین کی شکل رکھتے
تھے۔ ہر معاملے میں میرا اندازہ سو فیصد تھا، مگر کبھی برے وقت کا اندازہ
نہیں لگایا تھا۔
ایک دن میں نے تیر چھوڑا اور وہ نشانے پر کیا نشانے کے قریب بھی نہیں پہنچ
سکا، میری چیخ نکل گئی۔ جو خوف میرے قریب نہیں بھٹکتا تھا، وہ میرے اندر
بیماری کی طرح داخل ہو گیا تھا۔ میں کھلی آنکھوں سے بھی صحیح سمت کا اندازہ
نہیں لگا پا رہا تھا۔ مجھے اپنے ہاتھ کی لکیریں مٹتی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔
آنکھوں کی چمک کے بجائے آنکھوں کے گرد گہرے ہلکے پڑ گئے تھے۔ دوست شہر میں
ختم ہو گئے تھے اور دشمنوں کی فوج میری جان کی بھوکی مجھے ڈھونڈ رہی تھی۔
میں نے اپنی عقل استعمال کرنا چاہی جس پر مجھے بڑا ناز تھا، اس نے کام کرنے
سے انکار کر دیا۔ میرا جسم تھک رہا تھا، دل میں بگڑتے حالات کی تکلیف
برداشت کرنے کی طاقت بھی نہیں رہی تھی۔میں سمجھ گیا تھا۔ میرا برا وقت شروع
ہو گیا ہے اور میں جس شہر میں کنگ تھا، اس شہر میں رہنے کا مجرم ہو گیا
ہوں۔
میں اس شہر کو چھوڑ کر چلا آیا اور پہاڑوں میں نکل گیا۔میں کہیں پر بھی
جاتا۔ میری شہرت میرے پیچھے تھی اور اب بد قسمتی نے بھی ہر جگہ ڈیرے ڈال
رکھے تھے۔میں پہاڑوں میں بغیر کسی سمت کے چل رہا تھا، سر پر چھت نہ تھی۔
میرے اندازے اتنے کچے ہو چکے تھے کہ بادلوں کے آنے پر بارش ہوتی ہے، میں
بھول گیا تھا اور کسی جگہ کی تلاش میں نکلنے کی طاقت نہ تھی۔ بارش تیز ہو
گئی۔ میں نے چھت تلاش کرنا چاہی تو ایک غار کی طرف نگاہ پڑی۔ میں نے غار
میں داخل ہونا چاہا تو اچانک اندر بیٹھے ایک بزرگ نے اپنی چھڑی سے میرے
پیروں پر مارا اور میں گھبرا کر پیچھے کو ہو گیا۔
’’کون ہو تم یہاں نہیں آ سکتے۔ غار میں داخل ہونا ہے تو دنیا باہر چھوڑنی
پڑے گی۔ اندر آ گئے تو میری مرضی کے بغیر باہر نہیں جا سکو گے۔ بولو! منظور
ہے۔‘‘ بابا جی کی بات پر میں سوچ میں پڑ گیا۔ ذہن جواب نہیں دے رہا تھا۔
بارش کے رکنے کا اندازہ نہیں تھا۔ میں نے ’’ہاں‘‘ کر دی اور غار میں داخل
ہو گیا۔ بارش رک گئی۔ بابا جی میری طرف غور سے دیکھ رہے تھے، مگر بول نہیں
رہے تھے۔ مجھے بھوک نے تنگ کیا تو میں نے باہر جانا چاہا تو چھڑی پھر انہوں
نے میرے سر پر ماری اور کہنے لگے ’’بکواس کرتا ہے اب تو باھر نہیں جائے
گا۔‘‘ اپنی تھیلی میں سے ایک کھجور نکالی اور میری طرف بڑھا دی۔ میں نے
کھجور کھائی اور وہی سو گیا۔ جب میں نیند سے بیدار ہوا تو میرا جسم بہت
ہلکا محسوس کر رہا تھا۔
بابا جی غار کے باہر سے آ رہے تھے اور اس دفعہ وہ غصے میں بھی نہیں تھے اور
کہنے لگے ’’او بد نصیباں خبردار! اگر غار سے قدم باہر نکالا۔ شہر تو شہر
پہاڑوں کی چیلیں بھی تجھے نہیں بخشیں گی۔ تیرا وقت صحیح نہیں ہے۔‘‘ بابا جی
کی بات پر میرا دل ہل گیا اور میں کہنے لگا ’’تو بابا جی میں کیا کروں؟
میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ میں مر جاؤں گا۔ ایک دو کھجوروں سے پیٹ تھوڑی
بھرتا ہے مجھے تو خوف آ رہا ہے، کہیں میں مر نا جاؤں۔‘‘ بابا جی خاموش رہے۔
ایک دن میں نے بھاگنے کی کوشش کی تو بابا جی نے دھمکی دے دی۔ ’’اگر تو اس
غار سے میری مرضی کے بغیر بھاگا تو یہاں دوبارہ داخل نہیں ہونے دوں گا۔
باہر تیرا وقت اچھا نہیں ہے۔‘‘ میں ڈر گیا اور بھاگنے کی سوچ کو ہی ختم کر
دیا۔ غار کو ہی دنیا سمجھنا شروع ہو گیا۔ بابا جی ہی پھل اور کھجوریں میرے
لیے لاتے اور وہی میری خوشی بن گئی۔ بابا جی اور مجھ میں پورے دن میں سلام
اور اس کا جواب ہی ہماری گفتگو ہوتا۔ غار کے اندر سے جھانک کر صبح، شام اور
رات کو دیکھتا اور یہی میری عیاشی ہوتی۔ جب بھی بابا جی سے پوچھتا تو وہ
کہتے’’ابھی وقت نہیں ہے، جب وقت آئے گا تو بتا دوں گا‘‘ اور پھر آہستہ
آہستہ میں نے پوچھنا بند کر دیا۔ پہلے مایوس ہوا، پھر نا امید ہو گیا۔ میں
جہاں سارے شہر کا کنگ تھا، اب میں ایک غار کا درویش بن گیا تھا۔
ایک دن بابا جی غار میں آئے تو میں ان کو دیکھ کر مسکرا اُٹھا اور وہ مجھے
دیکھ کر مسکرانے لگے۔ بولے، بول خوش نصیباں! کیسا محسوس کر رہا ہے۔‘‘ میں
نے بابا جی سے کہا ’’آج اچھا محسوس کر رہا ہوں۔ آپ کو دیکھ کر دل کو سکون
ملتا ہے۔ کھجور کھانے پر شکر کرتا ہوں کہ کھجور تو ملی۔ کھانے کو اور غار
کو دیکھ کر دل کو سکون ملتا ہے۔ رہنے کو چھت تو ملی۔ زندگی کی دولت ہے میرے
پاس، مجھے اور کیا چاہئے۔ رب کی سب سے بڑی دولت زندگی ہے، اگر میں اپنے رب
کو ناپسند ہوتا تو مجھے وہ اپنی پناہ میں کیوں رکھتا۔‘‘ میں اپنی زبان پر
حیران تھا۔ کتنے عرصے بعد میری زبان استعمال میں آئی تھی۔ میری باتیں مجھے
خود کو حیران کر رہی تھیں اور خوش ہونے لگا۔بابا جی کہنے لگے ’’بہت اچھے
خوش نصیباں۔ بہت اچھے۔ جدھر اچھا وقت انسان کی زندگی کا حصہ ہے، اسی طرح
برا وقت بھی زندگی کا حصہ ہے۔ انسان کو رب آزماتا ہے، جب رب آزمائش میں
ڈالتا ہے تو اس کو بھوک اور خوف میں ڈال دیتا ہے۔ ہر طرح سے خالی کر دیا
جاتا ہے۔ عقل کام کرے بھی تو راہ نہیں تلاش کر پاتا۔ دل دھڑکے بھی تو سکون
نہیں تلاش کر پاتا تو ایسے وقت میں زندگی کی کسی غار میں چھپ جانا چاہئے،
کیوں کہ وہی وقت سب سے قیمتی ہوتا ہے، کیوں کہ اسی وقت میں تم اپنے رب کے
قریب ہوتے جاتے ہو۔ بھرا پیٹ رب کی یاد سے غافل کر دیتا ہے۔ زندگی کی
آرائیشیں موت کی حقیقت سے بے گانہ کر دیتی ہیں، تم میرے بیٹے اس غار کو یاد
رکھنا۔ یہ غار تمہاری زندگی کا وہ حصہ ہے، جدھر تم اپنے برے وقت میں پناہ
لے سکتے ہو۔‘‘ بابا جی رکے۔ میرے قریب آئے اور میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے غار سے
باہر لے آئے ’’لے تیرا برا وقت ختم ہو گیا۔ اب تو جا واپس اور اپنے اچھے
وقت کو دوبارہ شروع کر۔ اس بار تیرے ساتھ شکر کرنے والی زبان بھی شامل
ہے۔‘‘ میں نے بابا جی کا ہاتھ چوما اور واپس اپنے شہر کو لوٹ گیا۔
|