خدا وند تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں انفاق کو دین
اور دینداری کے اصلی ارکان میں ذکر فرمایا ہے۔قرآن کریم کی متعددآیات انفاق
کی اہمیت اور حقیقت کو بیان فرمارہی ہیں۔ انفاق کے بارے میں جو مسلمانوں کی
فہم ہے وہ قرآن کریم کے بتائے ہوئے نظام کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی ہے۔
قرآن کریم نے انفاق کو نظام الہٰی کا ایک رکن قرار دیا ہے۔ بندگان خدا کے
لیے اﷲ نے زمین پر لوگوں کی ہدایت، معاشرت اور مقصود زندگی تک پہنچنے کے
لیے جو نظام بنایا ہے اس میں ایمان اور انفاق ایک ردیف اور ایک درجے میں
ذکر فرمایا ہے لیکن فہم دین اور دین شناسی میں جس طرح دیگر ارکان نظام
الہٰی متاثرو متغیر ہوئے ہیں ان میں ایک اہم قرآنی موضوع انفاق ہے جس کا
بہت ہی سطحی اور ابتدائی معنی کیا گیا ہے اور عملی طور پر اسے ایک غیرضروری
چیز کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ اگر انسان انفاق کرے تو اس کو ثواب و اجر
ملے گا اوراگر انفاق نہ بھی کرے باقی اعمال صالحہ و عبادات بجالاتاہے تویہ
اس کی بخشش کے لیے کافی ہے، قرآن کریم میں انفاق ایسے ذکر نہیں ہوا ہے بلکہ
قرآن کے مطابق انفاق کے بغیر انسان کی مادی،جسمانی و معاشرتی زندگی خلل کا
شکار ہوجاتی ہے ، یعنی نظام زندگی ایسا متاثر ہوتا ہے کہ اس میں زندگی کا
مقصد مفقود و نابود ہوجاتا ہے اور اس معاشرے میں رہنے والے افراد جس میں
عملِ انفاق لاگو و جاری نہیں ہے اور لوگوں کا معمول نہیں ہے ایسی زندگی میں
ناممکن ہے کہ انسان انفرادی و اجتماعی طور پر اپنا مقصود زندگی
پاسکیں۔انفاق کا جو عام سطحی و سرسری معنی ہمارے ذہنوں کے اندر موجو د ہے
وہ ہے راہ خدا میں مال خرچ کردینا، اپنے مال کا کچھ حصہ راہ خدا میں
ناداروں، مسکینوں یا ضروت مندوں کو دیدینا۔ یہ انفاق کا معمولی و ابتدائی
تصورہے۔ بعض لوگ یہ انفاق کرتے ہیں کہ اپنی درآمد ومحصولات میں سے بہت ہی
معمولی حصہ کسی نادار ، مستحق یا صاحب ضرورت خاندان کو دیدیتے ہیں اور اس
عطیہ پر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ہم عملِ انفاق یا رکن انفاق بجالارہے ہیں
چونکہ انفاق کی حقیقت ہمارے لیے واضح و روشن نہیں ہے اس لیے ہم اس عمل کو
ہی انفاق کی جگہ پر قرار دے کراطمینان حاصل کرلیتے ہیں کہ ہم صاحبان انفاق
ہیں اور انفاق کرنے والوں کے لیے جو مقامات اﷲ تعالیٰ نے ذکر کیے ہیں وہ
سارے ہمیں حاصل ہونگے۔کچھ اردوں کی محدودیت ہے اور کچھ مترجمین ، مفسرین و
دیگر افراد کی دقت نہ کرنے کی وجہ سے بھی ہے کہ ان الفاظ کے معانی عموماً
ایک جیسے ذکر کیے جاتے ہیں جیسے لفظ خوف کا مطلب بھی خوف ہے، خشیت کا مطلب
بھی خوف ہے اور وجل کا مطلب بھی خوف کرتے ہیں جبکہ ایسے نہیں ہے بلکہ خوف،
خشیت اوروجل الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں ، یہ سارے الفاظ عربی زبان کے ہیں اور
مترادف نہیں ہیں بلکہ ان کے معانی الگ الگ ہیں لہٰذا ہمیں ان معانی کے اندر
فرق محسوس کرنا ہے اور دوسرا ان معانی کی تعبیر کے لیے مناسب الفاظ انتخاب
کرنے ہیں۔چونکہ اردو زبان کا کوئی محافظ نہیں ہے اور اس زبان کی قوم اس
زبان کو پسند ہی نہیں کرتی بلکہ یہ اردو کو اپنے لیے شرم کا باعث سمجھتے
ہیں یا اپنے مقامی و علاقائی زبان بولیں گے یا پھر سیدھے نکل کر انگلش پر
چلے جائیں گے یا بلتی ، انگریزی، سرائیکی ، پنجابی یا انگریزی ،یا پشتو
یاانگریزی بیچ میں کوئی سٹیشن نہیں ہوتا جبکہ آپ کا بیچ میں ایک اور سٹیشن
بھی ہے اور وہ آپ کی قومی زبان ہے اور ہر قوم اپنی قومی زبان کو سب پر مقدم
رکھتی ہے سوائے پاکستانیوں کے کہ انہیں عملی طور پر اپنی زبان سے بیزاری و
نفرت ہے۔ یہ افسوس ناک ہے جس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ اردو زبان کی حفاظت، وسعت
اور ایک زبان کے بارے میں جو اہتمام ایک قوم کرتی ہے، وہ اردو زبان میں
نہیں ہوتانتیجتاً علوم کی ترجمانی سے یہ زبان قاصر ہوجاتی ہے لہٰذا جب کسی
بھی علم کی بات ہو، سائنس کی بات ہو یا قرآن کی بات ہو یا فلسفہ کی بات ہو
تو اردو پیچھے رہ جاتی ہے کیونکہ اردو والوں کے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں
چونکہ ہمیشہ ان علوم کو دوسری زبانوں میں ہی پڑھتے ہیں اور دوسری زبانوں
میں ہی بیان کرتے ہیں اور اپنی اردو زبان میں انہیں علوم، معارف اور حقائق
کا علم نہیں ہے۔اس لیے خوف کو بھی خوف معنی کرتے ہیں اور وجل یا خشیت کا
معنی بھی خوف کرتے ہیں۔ اگر اردو پر محنت کی ہوتی تو ہر لفظ کے لیے علیحدہ
سے یہ مترادف لفظ وضع کرتے جیسے خشیت کا معنی خوف نہیں ہے بلکہ پروا ہے کسی
کی پروا کرتے ہوئے عمل کرنا یا اپنی کیفیت بنانا۔وجل مثال کے ذریعہ سے
سمجھتے ہیں:جیسے کلاس روم میں شاگرد بیٹھا ہوا ہے اور جدی و سنجیدہ نہیں ہے
اور وہ جب سنتا ہے کہ معلم آگیا ہے تو اس کے اندر قلبی طور پر جو احساس
پیدا ہوتا ہے ۔تو پھر جس حالت و کیفیت میں ہوتا ہے تو فوراً اس میں تبدیلی
لے آتا ہے اور اپنے اندر آمادگی و سنجیدگی پیدا کرلیتا ہے اور لاپرواہی،
غفلت ، لہو و لعب یا کسی بھی سستی و کاہلی کی حالت کو اپنے آپ سے جھٹک دیتا
ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|