راشن کا تھیلا یا عزت نفس کا جنازہ

تحریر: نیلم آصف سحر راولپنڈی
نوشابہ کے چار بچے تھے، دو بیٹیاں اور دو بیٹے،زندگی بڑی مطمئن گزر رہی تھی۔ جب ایک ایکسیڈینٹ میں اس کے شوہر کا انتقال ہوا تو اسے لگا جیسے ہر طرف اندھیرا چھا گیا ہو۔ کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے اس کے اندر ہمت پیدا کی اور اس نے اپنے بچوں کی زندگی کے لیے گھر سے قدم باہر نکالا۔

کورونا وباء سے پہلے وہ ایک فیکٹری میں کام کیا کرتی تھی۔ تنخواہ اور کچھ اوور ٹائم سے ملنے والی رقم سے اس کا اچھا گزارا ہو جاتا تھا اور اﷲ کے فضل سے اسے مالی مدد کے لیے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑے تھے۔ لیکن اس سال جب وائرس سے پھیلنے والی وبا نے اس کے شہر میں قدم رکھا تو لاک ڈاؤن کی بلا نے اسے بھوک کے خوف میں مبتلا کر دیا۔ کورونا کی وباء نے ایسے قدم جمائے کہ اب زندہ رہنے کی امید بھی کم سے کم ہوتی چلی گئی۔ قدم قدم پہ کھڑی مجبوریوں کی اونچی دیواروں نے نوشابہ کی زندگی اجیرن بنا دی تھی۔ لاک ڈاؤن بلاشبہ ایک مجبوری کے تحت لگایا گیا تھا، مگر ارباب اختیار نے یہ نہ سوچا کہ اس کے نتائج ان سفید پوش لوگوں کے لیے کس قدر تکلیف دہ ہو سکتے تھے جو روزانہ کی بنیاد پر چار پیسے کما کر گھر کا چولہا جلاتے تھے۔۔۔ جی ہاں وہی لوگ جن کو ہم ''دیہاڑی دار مزدور'' کہتے ہیں۔

ابھی تو رمضان کا پہلا ہی عشرہ جاری تھا اور یہ اس کی زندگی کا پہلا ایسا رمضان تھا جس میں وہ فارغ ہی فارغ تھی۔ نہ کرنے کو کوئی کام تھا اور نہ کمائی کا کوئی اور ذریعہ، گھر میں اشیائے خور و نوش اور راشن بس اتنا ہی تھا کہ نوشابہ چار،پانچ دن بچوں کو سحر و افطار میں روکھی سوکھی کھلا سکتی تھی۔ اس کے بعد کیا ہو گا، وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔وہ بے چاری بیٹھی بس یہی سوچ رہی تھی کہ زندگی میں پہلی بار دوسروں کے آگے کیسے ہاتھ پھیلائے گی۔

وہ سوچ رہی تھی کہ دنیا بھر میں رمضان کا با برکت مہینہ آتا ہے تو اشیائے ضروریہ سستی کر دی جاتی ہیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے ملکوں میں کھانے پینے کی چیزوں پر پچاس سے اسی فیصد تک آف کی سیل لگا دی جاتی ہیں اور مملکت خداداد کی خوبی دیکھیے کہ پاکستان میں رمضان کو کمائی کے ''سیزن'' کا نام دیا جاتا ہے۔ اشیائے خوردنی سے لے کر کپڑے لتے تک ہر شے پر اندھا دھند منافع کمایا جاتا ہے۔ پھل، سبزی، انڈے، مرغی، گوشت غرض ہر چیز مہنگی کر دی جاتی ہے اور بھول جاتے ہیں یہ پیدائشی مسلمان بیوپاری کہ اس مادی دنیا سے آگے ایک دنیا اور بھی ہے جہاں ان کو اپنی ناجائز منافع خوری کا جوابدہ ہونا ہے۔ کیا رمضان ہمیں انہی باتوں کا پیغام دیتا ہے؟ رمضان کا تو مقصد ہی تحمل اور برداشت ہے۔ روزہ ہمیں دوسروں کی بھوک اور مجبوری کا احساس کرنا سکھاتا ہے مگر اب یہ باتیں صرف واعظ و نصیحت کی حد تک ہی رہ گئی ہیں، عمل درآمد کم ہی ہوتا نظر آتا ہے۔ ان حالات میں ہمارے معاشرے کا سفید پوش طبقہ جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتا سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔

محلے کی مسجد میں ہونے والے اعلان نے نوشابہ کے خیالات کا تسلسل توڑ دیا۔ علاقے کا کونسلر مستحقین میں راشن تقسیم کرنے والا تھا۔ لاؤڈ اسپیکر پر اعلان ہو رہا تھا، ''حضرات! ہمارے علاقے کے کونسلر صاحب مستحقین میں راشن تقسیم کرنے تشریف لا رہے ہیں۔ آج رات بعد نمازِ عشاء علاقے کے مستحقین اپنے شناختی کارڈ لے کر گورنمنٹ اسکول کے باہر والے بڑے گراؤنڈ میں جمع ہو جائیں''
نوشابہ نے عشاء کی نماز پڑھی، پھر ایک دکھ بھری سرد آہ بھری اور اپنا شناختی کارڈ اٹھائے گراؤنڈ کی طرف چل پڑی۔ گراؤنڈ کے بیچ ایک بہت بڑا ٹینٹ لگایا گیا تھا، بڑے بڑے بینرز جن پہ علاقے کی سیاسی شخصیات کے حق میں تعریفی کلمات اور نعرے لکھے تھے اور رمضان کے حوالے سے امدادی سامان مہم کی تشہیر کی گئی تھی جگہ جگہ آویزاں تھے۔ روشنیاں ٹینٹ کو اندر سے منور کیے ہوئے تھیں۔بڑے بڑے سیاسی لوگ اور دیگر معززین چہروں پہ مصنوعی مسکراہٹ سجائے موجود تھے۔ عورتوں اور مردوں کا ایک ہجوم پریس کے نمائندوں اور نجی ٹی وی چینلز کی ڈی ایس این جی گاڑیوں کی آمد کا منتظر تھا کہ کب یہ لاؤ لشکر آئے اور راشن کی تقسیم شروع ہو۔

کہتے ہیں مفلسی بھی ایک فتنہ ہے جو انسان کے ایمان تک کو کھا جاتا ہے۔

میڈیا کی آمد کے ساتھ ہی راشن کی تقسیم کا عمل شروع ہوا۔ اس کی آنکھوں میں چمکتے بے بسی کے آنسوؤں کو کیمرے کی دور رس نگاہوں نے قید کر لیا۔ صد شکر کہ اس نے حجاب لے رکھا تھا، اگر کہیں چہرے پہ نقاب نہ ہوتا تو اس کی عزتِ نفس کا جنازہ ہی نکل چکا ہوتا۔ اس کی انا اور خود داری کو پاؤں تلے روندتے ہوئے محلے کے کونسلر صاحب نے راشن کا تھیلا اس کے ہاتھ میں تھمایا، اخباری نمائندوں کے کیمروں نے ٹھکا ٹھک تصویریں کھینچیں اور راشن بانٹنے والوں کی خوب واہ واہ ہوئی۔ ان حالات میں اس انا گزیدہ خاتون کی بے بسی کے متعلق بھلا کون سوچتا؟ چند کلو کا اناج کا تھیلا اٹھائے، جو اس کے لیئے منوں وزنی ہو چکا تھا وہ حالات کی ماری بوجھل قدموں سے خود کو گھسیٹتی بمشکل تمام گھر پہنچی۔
کورونا وباء اور رمضان کے ''سیزن'' کی آمد سے بھی بڑھ کر معاشرے کے بے حسی اور سرد رویئے نے نوشابہ کی جیسے کمر ہی توڑ کر رکھ دی۔ دنیا کی نگاہوں میں سفید پوشی کا بھرم رکھتے رکھتے آخر کار زندگی تھک گئی
 

M.H BABAR
About the Author: M.H BABAR Read More Articles by M.H BABAR: 83 Articles with 72988 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.