زیب داستاں
ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
اﷲ پاک اس ملک پر رحم فرمائے۔ یہاں پر اچھی خبریں شاذ و نادر ہی سننے کو
ملتی ہیں۔ کم وبیش ہر روز کوئی نہ کوئی افسوسناک خبر سامنے آجاتی ہے۔ تازہ
قصہ سینئر صحافی اور سابق چیئر مین پیمرا ابصار عالم سے متعلق ہے۔دو رو ز
قبل ابصار عالم اسلام آباد میں واقع ایف ۔الیون پارک میں چہل قدمی کر رہے
تھے۔ ایک نامعلوم شخص نے ان پر گولی داغ دی، جو ان کے پیٹ کو چیرتی ہوئی
گزر گئی۔ ابصار صاحب کو ہسپتال لے جایا گیا۔ آئی ۔سی۔ یو میں داخل ہوئے اور
جراحی کے مرحلے سے گزرے۔ ابصار صاحب بلند حوصلہ آدمی ہیں۔گاڑی میں ہسپتال
جاتے ہوئے، راستے میں انہوں نے اپنے درد کو ضبط کرتے ہوئے ویڈیو پیغام
ریکارڈ کروایا۔ حملہ کروانے والوں کو پیغام دیا کہ "میں حوصلہ نہیں ہارا،
اور نہ ہی حوصلہ ہاروں گا۔ میں ان چیزوں سے ڈرنے والا نہیں" ۔ فی الحال
ابصار عالم بستر پر پڑے ہیں۔ اسلام آباد کے تھانہ شالیمار میں اقدام قتل کا
مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ پولیس کی ایک خصوصی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل پا چکی ہے۔
اعلیٰ حکام کی طرف سے تفتیشی ٹیم کو ہدایت جاری ہوئی ہے کہ تمام سائنسی اور
فرانزک طریقے استعمال کرکے اس واردات میں ملوث افراد کا کھوج لگائیں۔شیخ
رشید یعنی وفاقی وزیر داخلہ نے بھی حملے کی تحقیقات کا حکم جاری فرمایا ہے۔
کہنا ان کا یہ ہے کہ ابصار عالم پر فائرنگ کرنے والے قانون سے نہیں بچ سکیں
گے اور بہت جلد قانون کی گرفت میں ہونگے۔
ان تمام رسمی کاروائیوں اور روائتی بیانات سے قطع نظر، ہم بخوبی آگاہ ہیں
کہ کچھ دن گزرنے کے بعد یہ قصہ بھی سینکڑوں واقعات کی طرح قصہ پارینہ ہو
جائے گا۔ کسی کو یاد بھی نہیں ہو گا کہ ابصار عالم نامی صحافی پر دارلحکومت
اسلام آباد میں دن دیہاڑے قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ یوں بھی یہ کوئی پہلا اور
انوکھا واقعہ تو نہیں ہے۔ اب تک ایسے کئی واقعات رونما چکے ہیں۔ ہر واردات
کے بعد باقاعدہ کمیٹی تشکیل پاتی ہے۔ اعلانات ہوتے ہیں۔ بلند بانگ دعوے کئے
جاتے ہیں۔ لیکن کچھ دن گزرنے کے بعد سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔2010 میں
نامور تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ کو اغوا کے بعد بدترین تشدد کا نشانہ بنایا
گیا تھا۔ ان کے سر کے بال اور بھنویں مونڈھ دی گئیں۔ مار پیٹ کرنے والے
انہیں نیم مردہ حالت میں اسلام آباد کے قریب پھینک کر فرار ہو گئے۔ آج تک
اس واقعے میں ملوث افراد کا تعین نہیں ہو سکا ہے۔ معروف صحافی اور ٹی۔وی
اینکر حامد میر کا قصہ ہماری یاداشت میں تازہ ہے۔ اپریل 2014 میں حامد میر
پر دن دیہاڑے قاتلانہ حملہ ہوا۔ ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی۔ان کی جان
تو بچ گئی ، لیکن ابھی تک اس واقعے کی یادگار چھ گولیاں ان کے جسم کے مختلف
حصوں میں پیوست ہیں۔ اس زمانے میں نواز شریف وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے سپریم
کورٹ سے درخواست کی کہ تحقیقات کیلئے ایک جیوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ تین
رکنی کمیشن تشکیل پایا۔ کئی ماہ پر محیط تحقیقات بھی ہوئیں۔ تحقیقاتی رپورٹ
جمع تو ہوئی مگر انجام وہی ہوا، جو حمود الرحمن کمیشن ، ایبٹ آباد کمیشن
اور ایسے دیگر کمیشنوں کی رپوٹوں کا ہوتا آیا ہے۔ آج تک حامد میر پر حملے
کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر نہیں آ سکی۔بالکل اسی طرح نامور صحافی احمد
نورانی کا قصہ بھی ہمیں یاد ہے۔ 2017 میں اسلام آباد زیرو پوائنٹ پر کچھ
افراد نے ڈنڈے اور چاقو سے نورانی پر حملہ کیا۔ وہ تشویشاک حالت میں ہسپتال
پہنچے۔ کئی ماہ تک بستر پر پڑے رہے۔ اس بھیانک واقعے کی بھی تحقیقات ہوئیں۔
مگر مجرموں کا تعین آج تک نہیں ہو سکا۔معروف صحافی مطیع اﷲ جان کی زبان
بندی کی بھی کوششیں ہوتی رہیں۔ ان کی گاڑی روک کر ڈنڈے برسائے گئے۔ ڈرایا
دھمکایا گیا۔ چند ماہ پہلے یعنی اگست 2020 میں انہیں اغوا کیا گیا۔ سی سی
ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آگیا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر تحقیقات ہوئیں۔
رپورٹ جمع ہوئی۔ چیف جسٹس نے اسے ناقص قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ اس کے
بعد یہ قصہ بھی ماضی کا حصہ بن گیا۔
یہ فقط چند واقعات ہیں۔ایسے واقعات کی ایک لمبی فہرست ہے جو نہایت آسانی سے
مرتب کی جا سکتی ہے۔خاص طور پر فاٹا اور بلوچستان میں آئے روز ایسے سانحات
ہوتے رہتے ہیں۔ چند ایک دن ہم رونما ہونے والے واقعے کا نوحہ پڑھتے ہیں اور
پھر اسے بھول جاتے ہیں۔ معاملہ صرف مار پیٹ، تشدد ، اور ہراساں کرنے تک
محدود نہیں ہے۔اب تک بیسیوں صحافی نامعلوم افراد کے ہاتھوں اپنی جان گنوا
چکے ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی ایک رپورٹ کے مطابق ، 2002 سے
اب تک پاکستان میں 130 صحافیوں کا قتل ہو ا۔ نہایت افسوسناک (بلکہ شرمناک)
بات یہ ہے کہ آج تک کسی ایک صحافی کے قاتلوں کا تعین نہیں ہو سکا۔صرف ایک
صحافی ( ولی بابر) کے ملزموں کو انسداد دہشت گردی عدالت نے سزا ئے موت
سنائی تھی۔ مگر سندھ ہائی کورٹ نے یہ سزا کالعدم قراد دے دی تھا۔ یعنی
پاکستان میں صحافیوں کو خواہ ہراساں کیا جائے، تشدد کا نشانہ بناجائے یا
انہیں جان سے مار ڈالا جائے، ان کے مجرمو ں کو ہر طرح کی سزا سے سو فیصد
استثنی حاصل ہے۔
یہ جملے لکھ رہی ہوں تو خیال آرہا ہے کہ میں بھی کیا قصہ لے بیٹھی ہوں۔ ہم
نے اس ملک میں مجرموں کو پکڑنے ،انہیں کیفر کردار تک پہنچانے اور نشان عبرت
بنانے کی روایت ہی کب ڈالی ہے۔ یہاں تو بڑے بڑے قومی سانحات پر آج تک کسی
کی گرفت نہیں ہوئی۔ ہم آج تک ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل
کا سراغ نہیں لگا سکے ۔ ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کا خون
ناحق بھی ہوا کا رزق ہو گیا تھا۔یہ ملک پاکستان ٹوٹ گیاتھا۔ ملک کا آئین
بار بار توڑا گیا۔ حکومتیں بنائی اور گرائی گئیں۔ انتخابات چرائے جاتے رہے۔
مگر آج تک مجرموں کا تعین نہیں ہو سکا۔ کسی ایک مجرم کو بھی سزا نہیں دی جا
سکی۔ان قومی سانحات کے سامنے صحافیوں کا قتل اور مار پیٹ تو معمولی باتیں
ہیں۔
بہرحال لگتا یہی ہے کہ ابصار عالم پر حملے کے مجرم بھی گرفتار نہیں ہو سکیں
گے۔ ہمارے اسی رویے کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان صحافیوں کے لئے خطرناک
ملک شمار ہوتا ہے۔ آزادی صحافت کے انڈیکس میں ہمارا درجہ مسلسل گر رہا ہے۔
یعنی صورتحال بہتر ہونے کے بجائے بد سے بدترین ہوتی جا رہی ہے۔ آزادی اظہار
رائے اور شہری آزادیوں کے حوالے سے یہاں پر جگہ واقعتا سکڑتی، سمٹتی جا رہی
ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم یہاں سیاسی کھیل تماشوں میں الجھے ہیں۔ مخالفین پر
الزام تراشی اور دشنام ترازی کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن دیگر ممالک ہم پر
مسلسل نگاہ رکھتے ہیں۔ دنیا بہت غور سے دیکھتی ہے کہ پاکستا ن میں دن
دیہاڑے کیا کچھ ہو رہاہے۔ یہ سب واقعات اور اشاریے (indicators) مل کر دنیا
کی نگاہ میں پاکستان کا ایک تاثر قائم کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ تاثر روز
بروز مزید بگڑتا جا رہا ہے۔ کاش ہم اپنے گریبان میں جھانکیں اور غور کریں
کہ کیوں غیر ملکی ادارے یہاں سرمایہ کاری سے گریزاں ہیں۔ کیوں کچھ برس سے
پاکستان پر فاٹف کی تلوار لٹک رہی ہے۔ کیوں ہمارا پاسپورٹ بدترین پاسپورٹوں
کی فہرست میں سر فہرست ہے۔کیوں ہماری کرنسی کی قدر خطے کے تمام ممالک میں
کمزور ترین ہے۔ کیوں ہمارے ملک کو صحافیوں کے حوالے سے خطرناک ترین ملک
سمجھا جاتا ہے۔ دعا ہے کہ اﷲ پاک اس ملک پر رحم فرمائے۔ ہمیں ایک دوسرے کو
برداشت کرنے اور ایک دوسرے کے اختلافی نقطہ نظر کو سننے کا حوصلہ عطا
فرمائے۔ آمین۔ |