شہر قائد کی باہمت خاتون - نان، تافتان ،شیرمال اور مزیدار کھانے بنے ان کی پہچان

پاکستان کی لاکھوں محنت کش خواتین شہری اوردیہی علاقوں میں صنعتی اور زرعی سیکٹرمیں سخت محنت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں ۔ فیکٹری مزدور خواتین، بھٹہ مزدور خواتین، کھیت مزدور خواتین، گھریلو ملازم خواتین، بیوٹی پارلروں کی ورکرز، آفس ورکرز سمیت پاکستان میں خواتین مختلف شعبوں میں کام کررہی ہیں مگرانہیں مناسب اجرت بھی نہیں ملتی، زچگی اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کا کوئی بہترانتظام موجود نہیں، انہیں قلیل اجرت، جنسی ہراسانی، جبری مشقت سمیت متعددمسائل کاسامناہے ایسے میں بہت سی خواتین اپنی زندگیوں میں بہتری پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہیں اور نہ صرف اپنی زندگی کے لیے بلکہ اپنے خاندان کے لیے بے شمار مشکلات کو برداشت کرتی ہیں ۔ تمام خواتین مختلف ہوتی ہیں۔ تمام خواتین ایک جیسی چیز نہیں چاہتی ہیں۔ تاہم، کچھ چیزیں ضرور ہیں جو خواتین ضرور چاہتی ہیں اور ہر خاتون کی فہرست میں ضرور شامل ہے اور وہ ہے مالی خودمختاری و آزادی . کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک باہمت خاتون فاطمہ نازش نے مالی پریشانیاں دور کرنے کے لئے تندور و اور پکوان مرکز کھول لیا ۔ ۔ وہ چار بچوں کی ماں ہیں، شوہر سے علیحدگی کے بعد انہوں نے اپنے بچوں کی اچھی پرورش اور مالی حالات بہتر کرنے کے لئے اپنا کام شروع کیا اور تندور لگا کر اپنے بزنس کا آغاز کیا۔کھانے پکانے میں ماہر ہنرمند خاتون نازش نے پہلے اپنے گھر سے چھوٹے پیمانے سے آن لائن پکوان کا کام شروع کیا ۔ بہت ہی کم عرصے میں آن لائن بہت زیادہ کام ملنے لگا جس کی وجہ سے انہوں نے دوسری خواتین کو روزگار کا موقع فراہم کیا اور اپنے ساتھ کام پر رکھا نازش نے بتایا کہ انہیں پکوان سے متعلق آن لائن کام کا اچھا تجربہ رہا تھا لاک ڈاؤن کے دوران لوگ فون کالز کرکے مجھ سے مختلف قسم کے کھانے بنواتے تھے کوئی نرگسی کوفتے بنواتا تھا تو کوئی بریانی اور کوئی چکن سے بنی ہوئی مختلف کھانے جس کا فیڈ بیک بہت زبردست آتا تھا اسی دوران انہوں نے سوچاکہ کیوں نہ تندور اور پکوان کا بزنس شروع کیا جائے اور انہوں نے اس بارے میں لوگوں سے مشورے کرنا شروع کردیئے بات چیت کرنے پر ملے جلے تاثرات سننے کو ملتے تھے لوگوں کا کہنا تھا کہ تندور سراسر مردوں سے تعلق والا کام ہے اس میں آپ کو مشکلات پیش آئیں گی مگر کچھ لوگوں نے بہت ہی مثبت سوچ دی اوربتایا کہ یہ اتنا بھی مشکل نہیں ہےاور بس میں نے معلومات جمع کرنا شروع کردی اور پھر اس کے بعد انہوں نے باقاعدہ دکان کرائے پرلیکر تندوراور پکوان سینٹرکھولنےکاارادہ کیا جس پر سب نے تنقید کی کہ گھر سے کام کرنے میں اور روڈ پر کھڑے ہوکرکام کرنے میں بہت فرق ہے آپ یہ نہیں کر سکو گی مگر ان کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ کوئی بھی کام مشکل ضرورہوتاہےمگرناممکن نہیں ہوتا اوراسی سوچ پرعمل پیراہوتے ہوئے انہوں نےایک تندوراور پکوان سینٹرکھول ہی لیا اورآج کامیابی سے اپنا کاروبار چلارہی ہیں اور دوسری خواتین کیلئے مثال بنی ہوئی ہیں ۔

وہ بتاتی ہیں کہ تندور لگانے کے بارے میں جب ان کی فیملی کو پتہ چلا تو کسی نے ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ الٹا ان کو باتیں سنائیں لیکن وہ ٹھان چکی تھی کہ وہ یہ کاروبار ضرور کریں گے۔ اس کے لئے سب سے پہلے انہوں نے دکان دیکھی، دکان لینے میں بھی انہیں دشواری پیش آئی کیونکہ اگریمینٹ کے وقت ان سے کہا گیا کہ کسی مرد کو لائیں یہ کام عورتیں نہیں کرتیں۔ دکان کے مالک کی یہ باتیں بھی نازش کے حوصلے کو پست نہ کرسکی۔ نازش دکان کرائے پرلینےکےلئے روز ان کے پاس جاتی اورانہیں یقین دلاتی کہ وہ یہ کام اچھے طریقےسےکرسکتی ہیں۔ دکان کامالک نازش کے پختے ارادے کو دیکھتے ہوئے دکان کرائے پر دینے کا فیصلہ کرلیا۔ نازش نے اپنے چھوٹے سے کاروبار کا آغاز کیا لیکن اس کے باوجور لوگ یہی بولتے رہے کہ کوئی خواتین والا کام کرو مگر انہوں نے یہی کرنے کی ٹھانی ہوئی تھی اسلئے تمام تنقید اور مشکلات کے باوجود آج کامیابی سے اپنا کاروبار کررہی ہے اور دوسروں کے روزگار کا ذریعہ بھی بنی ہوئی ہیں۔ اس تندور کے ذریعے فاطمہ نازش اپنے چار بچوں کی تعلیم و تربیت کررہی ہیں اور خاندان کو بھی مالی تعاون کررہی ہیں۔ نمائندے سے بات کرتے ہوئے نازش کا کہنا تھا کہ اگر کوئی خاتون کچھ کرنے کی ٹھان لیتی ہے تو راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کوتوڑتی ہوئی اپنی منزل تک پہنچتی ہے،انہوں نے بتایا کہ وہ بہت اچھی بائیک رائیڈر بھی ہیں آن لائن کام کے دوران اکثر مجھے اشیاء کی خریداری کیلئے باہر جانا پڑتا تھا تو مجھے ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا مہنگا پڑتا تھا اور مشکل بھی ۔ پھر میں نے اس مسئلے کا حل یہ تلاش کیا کہ میں نے خود موٹرسائیکل چلانا سیکھی۔ جس کے بعد میں کسی کی محتاج نہیں رہی۔ اب مجھے اپنےپکوان سینٹرجانا ہویاکسی دوسرے کام سےاپنی بائیک کااستعمال کرتی ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نےبتایاکہ شروع شروع مجھے بائیک چلاتے دیکھ کراکثر مرد حضرات آوازیں لگاتے تھے مگر اب معاشرے میں بدلاؤ آرہاہے لوگوں میں سمجھ آرہی ہیں اور کراچی کی ٹرانسپورٹ کا حال بھی سب کے سامنے ہی ہیں اب لوگ بائیک چلانے پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور کئی لوگوں نے مجھ سے تو درخواست کی ہے میں ان کی بیٹیوں اور بہنوں کو بائیک چلانا سکھا دو۔

نازش کاکہنا ہے کہ میں نے سوچ لیاہے کہ اب یہاں پر نہیں رکنا ہے جیسے ہی میرا یہ اسٹارٹ اپ مستحکم ہوتا ہے اس کے بعد سپر ہائی وے پر ایک اچھا ریسٹورنٹ کھولنے کا ارادہ ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ آنیوالا وقت بہت اچھا ہوگا بے شک خواتین کو سماجی اور معاشی چیلنجز کا سامنا ہے مگروہ ہمت اور جذبہ کے ساتھ اپنے خاندان و معاشرے کیلئے بہترین معاون ثابت ہورہی ہیں۔
 

Shakeela Sheikh
About the Author: Shakeela Sheikh Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.