ذہین شاہ بہت دنوں بعد آج پھر با با جی کو ملنے ان کے پا
س گیا۔ حسب معمول بابا جی پر سکون بیٹھے ہوئے تھے۔ ذہین شاہ نے ا دب سے
سلام کیا اور پاس بیٹھ گیا۔ بابا جی نے سلام کے جواب کے ساتھ محبت بھری دعا
دی۔ ذہین بیٹا آ ج کا فی دنوں بعد نظر آئے ۔ سب خیریت تھی ناں۔ جی بابا جی
۔ اﷲ کا شکر ہے سب خیریت ہے۔
ذہین شا ہ نے سوال کیا۔ با با جی رمضان کے مہینے میں شیطان قید ہو جاتا ہے
؟ با با جی مسکرائے۔۔ با با جی میں پوچھنا یہ چاہتاہوں اگر شیطان قید
ہوجاتاہے تو پھر ہم رمضان میں بھی جھوٹ کیو ں بولتے ہیں؟ ہماری مسجدیں
نمازیوں سے کیوں نہیں بھرجاتیں؟ ہم دوسروں کی مد د کیوں نہیں کرتے؟ ہم لوگ
رمضان میں ہی چیزیں مہنگی کیوں کرتے ہیں؟
ذہین شاہ نے ایک ساتھ ہی بہت سے سوالات پوچھ ڈالے۔ باباجی نے آہستہ سے لہجے
میں پوچھا۔ بیٹا روزے رکھ رہے ہو۔ ذہین شاہ نے جواب دیا جی بابا جی سارے۔
اس دفعہ تو بس ایک پارہ روز کا پڑھ رہا ہوں۔میرے ساتھی تو دوسری بار قرآن
پاک پڑھ رہے ہیں اور کہتے ہیں تین یا چار دفعہ مکمل پڑھیں گے۔ وہ کام کے
دوران بھی تلاوت کرتے رہتے ہیں۔مجھ سے کام کے دوران تو تلاوت نہیں ہوتی۔
بیٹا جی میر ی بات سنو۔ ہم ثواب حاصل کرنے کے لئے بعض دفعہ کچھ ایسے کام کر
جاتے ہیں۔جن کاثواب شایدہماری سوچ کے مطابق نہیں ملتا۔ با باجی وہ کیسے؟
مثال کے طورپر ایک استاد صاحب کا کام بچوں کو تعلیم دینا ہے۔اگر وہ پیریڈ
یعنی کام کے دوران قرآن پاک کی تلاوت کر کے ثواب حاصل کررہے ہیں۔ اور بچوں
کا حق یعنی تعلیم نہیں دے رہے تو کیا ان کو ثواب ملے گا؟ تلاوت بعد میں کی
جاسکتی ہے۔ بچوں کو ان کے وقت کے علاوہ نہیں پڑھایا جاسکتا۔ دوسری بات قرآن
پاک تین دفعہ پڑ ھ لو یا پانچ دفعہ۔ اگر اس کو سمجھو گے نہیں تو کیسے معلوم
ہو گا ہمارا مالک ہم سے کیاچاہتاہے؟ بیٹا کوشش کرو ۔ ترجمے کے ساتھ قرآن
پاک کو پڑھو۔ چاہے تھوڑاہی پڑھ لو۔ قرآن پا ک کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کا حکم
ہے۔ پھر تیزی کیسی ۔ با با جی نے پھر فرمایا۔ پہلی جتنی قو میں تبا ہ ہوئیں
ہیں۔ وہ عبادات کی کمی کی وجہ سے تباہ نہیں ہوئیں۔ بلکہ معاملات میں کوتاہی
کی وجہ سے ہوئیں۔ مثلا کم تولنا، رشوت لینا، جھوٹ بولنا، دوسروں کا حق
مارنا اور ناحق قتل کرنا جیسی برائیوں سے تبا ہ ہوئیں۔
بابا جی بول رہے تھے اور ذہین شا ہ سن رہا تھا۔ با با جی نے پوچھا۔ کبھی
افطاری کے وقت یہ خیال آیا کہ کتنے روزداروں کو یہ سب چیز یں میسر نہیں
ہونگی ۔ جومیر ے سامنے موجود ہیں۔وہ روزہ کیسے افطار کرتے ہوں گے؟ کبھی
رمضان میں ایسے لوگوں کی مد د کی ۔ جن کے پاس افطاری کا سامان میسر نہیں
ہے۔ کبھی کسی بیوہ عورت کی مدد کی۔کبھی کسی معذور انسان کی مدد کی؟ کبھی
کسی مریض کو دوا لے کے دی؟ کبھی ان کو عیدی دی جن کو عیدی دینے والا کوئی
نہیں ہے۔ کسی دکھی کا دکھ سن لینا بھی نیکی ہے۔ کسی کی دل آزاری نہ کرنا
بھی نیکی ہے۔ کسی کو اچھا مشورہ دے دینا بھی نیکی ہے ۔ مسافرکی مدد کردینا
بھی نیکی ہے۔ ذہین شاہ بابا جی کی باتیں سن کر سوچ میں پڑگیا۔ بابا جی کا
انداز کچھ ایسا تھا۔ کہ ساری باتیں ذہین شاہ کے دل و دماغ پر اثر کر رہی
تھیں۔ بابا جی نے بات مکمل کی۔ بیٹا ذہین۔ بیشک عبادات نماز،روزہ، زکوۃ اور
حج عمرے انسان کو رب کے قریب کرتے ہیں۔لیکن اگر رب کی مخلوق کا خیال رکھا
جائے رب کی رضا کے لئے تو وہ ذات اپنے بند ے کو بہت جلد اپنے قریب کر لیتی
ہے۔ ذہین شا ہ نے ادب سے سلام کیا ۔ اور اجازت لی۔ بابا جی مسکرائے اور دعا
دی۔ یہ وہ سبق تھے جو ذہین شا ہ نے بابا جی کی گفتگو سے سیکھے۔
1۔ہمیں قرآن پاک ترجمے سے پڑھنا چاہیے۔
۲۔ ہمیں ناپ تول میں کمی نہیں کرنی چاہیے،
۳۔ ہمیں رشوت جیسی لعنت میں نہیں پڑنا چاہئے۔
۴۔ غریبوں کی مدد کرنی چاہیے۔
۵۔ عید سے پہلے غریبوں کی مالی مدد کرنی چاہیے۔
۶۔ مسافروں کی مدد کرنی چاہیے۔
۷۔کسی کی دل آزاری نہیں کرنی چاہیے۔
۸۔ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔
۹۔ اﷲ کی مخلوق سے محبت اور مدد کرنی چاہیے۔ |