موت یا زندگی

کرونا وائرس اس وقت جہاں پوری دنیا میں انسانی زندگیوں کو نگل رہا ہے وہاں برصغیر میں بھی کرونا وائرس کی پہلی لہر دوسری لہر اور اب تیسری لہر انسانی زندگی کھا رہی ہے پاکستان اور ہندوستان جیسی ریاستیں جو دنیا کی چالیس فیصد سے زائد غربت پال رہی ہیں یہاں حکمرانوں کی تاریخی نااہلی کے باعث اکثریتی انسانوں نے اصل معنوں میں کبھی زندگی گزاری ہی نہیں بھوک،ننگ،افلاس کے ڈیرے یہاں پیچھلے 72 سالوں سے انسانوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں یہ دو کہنے کو ایٹمی طاقتیں حب الوطنی اور وطن کی سالمیت جیسے نام نہاد نعروں میں اکثریتی عوام کو کوئی بھی بنیادی سہولت دینے سے قاصر ہیں وطن پرستی کے نام پر جنگیں ہوں یہاں کوئی بھی ناگہانی آفات مرنا یہاں باآخر غریب نے ہی ہوتا ہے یہاں جمہوریت ہو یا آمریت عوام کے حالات ایک ہی سمت بگڑتے ہی جا رہے ہیں ۔

کرونا وبا اور اس جیسی دیگر ناگہانی آفات سرمایہ دارنہ نظام اور اس کی خباثت کو کھول کے رکھ دیتی ہیں یقیناً ناگہانی آفات میں ایسے ادارے ایمرجنسی لگاتے ہوئے تشکیل نہیں دیے جا سکتے بلکہ کسی نظام کی اچھے دنوں کی حاصلات ہی ناگہانی آفات کا نہ صرف فوری طور پر مقابلہ کر سکتی ہیں بلکہ ان کا خاتمہ کر کے انسانی آبادی کو موت کے منہ سے بچایا جا سکتا ہے ۔

ایسے ادارے بنانے کے بجائے یہاں کے حکمرانوں نے دونوں ریاستوں کے داخلی تضاذات سے نمپٹنے کے لیے مسائل کا فوری حل آر پار کی عوام میں جہاں وطن اور وطن کی سالمیت جیسے شاوئزم کا سہارا لیا اور نفرتوں کے بیچ بوئے وہاں اپنی اپنی ریاستوں میں عوام کو کھلی چھٹی نہیں دی بلکہ ہمیشہ مذہبیت ،فرقہ پرستی، مسلک،علاقوں یہاں تک کہ خاندان اور ذات کے نام پر تقسیم کیا ۔

آج بالخصوص پوری دنیا اور بالعموم برصغیر کے بسنے والے محنت کش جن کی زندگیاں اجیرن ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر محنت بیچ کر اپنی اور اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں جن کہ پاس اتنی جمع پونچی بھی نہیں ہوتی کہ وہ ہفتہ بھر کا راشن ذخیرہ کر کے آرام کر سکیں ان کے لیے آر پار کے حکمرانوں کا حکمنامہ جاری ہوا ہے اگر اس موزی وبا سے بچنا ہے تو سماجی فاصلہ رکھنا ہے اور اس کے لیے ضروری امر لاک ڈاوٴن ہے یعنی آپ لوگوں نے گھروں میں خود محصور کرنا ہے یہ ایسی ریاستیں جہاں ایک طرف سرمایہ داروں کے عالیشان محل برسوں خالی پڑے ہوتے ہیں اور دوسری طرف عوام کی نچلی پرتوں میں آج بھی ایسے انسان موجود ہیں جو بھارت اور پاکستان میں فٹ پاتھ اور پارکوں میں زندگی گزارنے کے لیے مجبور ہیں جن کا چھت آسمان ہے اور فرش زمین ہے اور جن میں اکثریت کی موت بھی سردی گرمی کے علاوہ اکثر امیر ذادوں کی نشے میں کی گئی ڈرائیونگ باعث فٹ پاتھ پر ہی موت واقع ہو جاتی ہے ۔

صورتحال یہ ہے اگر یہاں کے محنت کش گھروں میں محصور ہو جائیں گے تو بھوک سے مر جائیں گے اور اگر سماجی فاصلہ نہ رکھا تو کرونا وبا سے مر جائیں گے ۔

یہاں کے حکمران جماعتیں تو انسانی جانوں کے ضیاع کے متعلق کسی طور سنجیدہ نظر نہیں آتی اور اپوزیشن میں بیٹھی مین سٹریم پر رہینے والی پارٹیاں غریب عوام کی ویکسین کے لیے تکرار کرتے ہوئے نظر تو آتی ہیں لیکن مفت ویکسین کے لیے ان غریب محنت کشوں کے لیے کہیں سے آواز نہیں اٹھ رہی ہے ویکسین کروانے کے واویلے کے پیچھے ان حکمران سرمایہ داروں کا ایک ہی مقصد ہے کہ وہ ملٹی نیشنلز فارمیسی کارپوریشن کے لیے منافع حاصل کرنے کا دروازہ کھولیں جن سے وہ بھی سرمایہ کاری کر سکیں اور اپنے کمیشن وصول کر سکیں۔

جب کہ یہاں کے انسانوں نے ان خونی ریاستوں کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے خون یہاں تک کے ہڈیوں کے گودھے بھی نچھاور کیے ہیں ان 72 سالوں میں اس نام نہاد آزادی میں یہاں کی عوام کو سوائے نفرت اور تعصب کے کچھ نہیں ملا لیکن جب بھی عام حالات سے ہٹ کر ناگہانی آفات آتی ہیں تو تب بھی ان حکمرانوں کی دولت میں تو اضافہ بڑھتا ہی جاتا ہے لیکن غریب محنت کش کو کئی امتحان سے گزارنے کے ساتھ انہی سے قربانی بھی مانگی جاتی ہے قربانی مانگی ہی نہیں جاتی ہے بلکہ اپنی بنائی گئی پالیِسی مسلط کی جاتی کہ اب آپ نے ایسے زندگی گزارنی ہے ۔

یہاں سرمایہ داروں کی عیاشیاں ہوں چائے وہ سفارتی تعلقات کے نام پر بیرونی ملکوں میں لاکھوں ڈالروں کے ہوٹلز بکنگ اور پروٹوکول ہو کروڑوں روپیے کی حکمرانوں کی ٹی پارٹیاں ہوں ، وزراء ،ججوں ،جرنیلوں کی تنخواہیں بڑھانی ہوں یا پھر دفاع کے نام پر بجٹ جاری کروانا ہو جس بجٹ سے ان کے کک بیگس اور کمیشن آتا ہو وہ اور ایٹمی تجربے کرنے ہوں وہ سب ہو جاتا ہے لیکن غریب محنت کشوں کے لیے تعلیم نہیں روزگار نہیں علاج نہیں زندگی کی کوئی بنیادی سہولت موجود نہیں ۔

یہ تاریخی طور پر نااہل حکمران عوام کو کچھ دے سکتے ہیں تو خون فشار حالات دے سکتے ہیں اس خون فشاری اور تعصب نے اس نظام اور سماج میں اس قدر اپنی جگہ بنا لی ہے یہ حکمران اب چاہا کر بھی اس خونریزی ،بے حسی،اور عدم تحفظ کو اس نظام میں رہیتے ہوئے اس نظام کے ڈھانچوں میں مٹا نہیں سکتے اور خوف و ہراس اور انسانی زندگیوں کا ضیاع ہونا اس نظام کی اولین ضرورت بن کر رہا گیا ہے ۔

کرونا وبا پھیلنے سے پہلے بھی سرمایہ دارنہ نظام میں ایک بحران کی کیفیت تھی ساری دنیا اور بالخصوص ایشا میں بڑھتے ہوئے انسان کے بنیادی ضروتوں کے مسائل یہاں کی عوام کو ایک پر انتشار عہد سے بغاوتوں کی طرف مائل کر رہے تھے کرونا وبا کوئی ایسا حادثہ نہیں جو اچانک نمودار ہوا بلکہ ان سرمایہ داروں نے اپنے منافع کی ہوس باعث اس فطرت کو تباہ و برباد کیا جس تباہ و بربادی کے نتیجے میں ہونے والی ناگہانی آفات کے متعلق بھی سرمایہ داری نے اتنی ترقی کی ہوئی ہے کہ وہ جان سکتے ہیں کہ وبائیں کیسے سر اٹھاتی ہیں اور ان کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے اور ان کو ختم کیسے کیا جا سکتا ہے اور کرونا وبا کے متعلق بھی کرونا وبا پھیلنے سے پہلے سائیسدانوں نے اس متعلق پیشن گوئی کر دی تھی لیکن سرمایہ داروں کی منافع کی ہوس نے اس پر کسی قسم کی توجہ دینا مناسب نہیں سمجھا اور آج یہ وبا جب عالمی طور سرحدوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے انسانی جانیں نگل رہی ہے یہ قومی بنیادوں پر سفری پابندیاں لگاتے ہوئے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں سے ایک متروک قومی حدود میں رہیتے ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلانے کے باعث بن رہے ہیں

یہ وبا ایک عالمی وبا ہے اور اس کا مقابلہ عالمی بنیادوں پر ایک سے دوسری ریاست کے تعاون سے ہی کیا جا سکتا ہے ۔

جب کہ یہ ریاستیں سرمایہ داری کی ناکامی کو چھپانے بڑھتے ہوئے انسانی مسائل کو کرونا وبا کی آڑ میں دبانے کی کوشش کر رہے ہیں چند ماہ پہلے ہی پاکستان میں کرونا وبا کی لہر کم ہو چکی تھی جس میں محنت کش اپنی روز مرہ کی بنیادی ضرورتوں کی مانگ کے لیے سڑکوں پر نکل رہے تھے لیکن اس وقت بھی یہ ریاست کرونا وبا سے عام محنت کشوں کو ڈرا رہی تھی اور پابندیاں عائد کر رہی تھی جب کہ مین سٹریم پر رہینے والی پارٹیاں جلسے جلسوس اور ان تمام حکمرانوں کی نجی پارٹیاں بھی زور و شور سے جاری تھیں یہ ناگہانی آفات تو محنت کشوں کی زندگی کھاتی ہے لیکن سرمایہ داروں کے لیے ایسی آفات بھی چاندی بن جاتی ہیں جن آفات کا سہارا لے کر یہ محنت کشوں کو مزید لوٹ کھسوٹ سے دو چار کر دیتے ہیں۔

عظیم فلسفی ، مفکر کارل مارکس نے کہا تھا محنت کشوں کے پاس کھونے کو سوائے رنجیروں کو کچھ نہیں ۔

آج انسانی تاریخ ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں ایک طرف بربریت اور صرف بربریت ہے اور دوسری طرف اس نظام سے اس بربریت سے جھٹکارہ ہے ۔

اور اس خونی نظام سے جھٹکارہ کا ایک ہی حل ہے کہ بالعموم پوری دنیا کے محنت کشوں اور بالخصوص برصغیر کے محنت کشوں نے آپس میں ایک طبقاتی جڑت قائم کرتے اس نظام کو شکست دینی ہو گی اور سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہو گا جہاں محنت کش اپنے بنیادی حقوق حاصل کر سکتے ہیں جہاں موت باٹننے کے بجائے انسانی زندگی گزارنے کا آغاز ہو سکے اور روزگار اور علاج کے بجائے انسانیت کی معراج تسخیر کائنات ہو سکے۔
 

Rashid Baghi
About the Author: Rashid Baghi Read More Articles by Rashid Baghi: 2 Articles with 1118 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.