ہم بھی عبادات کرتے ہیں اور ۔۔ سڑکوں پر مانگنے والے خواجہ سراؤں کے رمضان اور عید کیسے گزرتے ہیں؟ جان کر آپ بھی افسردہ ہوجائیں گے

image
 
بس اسٹاپس پر اکثر ہم خواجہ سراؤں کو دیکھتے ہیں۔ ہم میں سے کچھ انھیں دیکھ کر مذاق اڑاتے ہیں تو کچھ خدا ترسی میں ایک دو نوٹ ان کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔ خواجہ سراؤں سے عام لوگ یا تو گھن کھاتے ہیں یا پھر ترس۔ لیکن انھیں اپنے جیسا انسان سمجھنے کا شعور فی الحال ہمارے معاشرے میں ناپید ہے۔ جب کہ وہ بھی عام انسانوں کی طرح ہی پیدا ہوتے ہیں بس معاشرے کے دوہرے رویوں کی وجہ سے مختلف زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ معاشرے کی ٹھوکر کھایا یوا یہ طبقہ رمضان کیسے گزارتا ہے، رمضان میں ان کے روز و شب کس انداز میں گزرتے ہیں اور کیا یہ عید بھی اپنوں سے دور ہی گزارتے ہیں یا اپنے گھر پر؟
 
ہم بھی نارمل لوگوں کی طرح عبادات کرتے ہیں
سپنا خان جو خواجہ سراؤں کی سماجی کارکن ہیں وائس آف امریکہ کو خواجہ سراؤں کے رمضان میں روٹین کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ “میری بات کا برا نہیں منائیے گا لیکن دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور ہم ابھی تک خواجہ سراؤں میں ہی اٹکے ہوئے ہیں۔ ہم بھی انسان ہیں اور ویسے ہی رمضان گزارتے ہیں جیسے باقی لوگ۔ ہمارا افطار اور عبادات بھی عام لوگوں جیسی ہی ہوتی ہیں۔
 
image
 
اپنے روٹین کے بارے میں بات کرتے سپنا نے بتایا کہ رات کو وہ سب جاگتے ہیں اور صبح سحری کھانے کے بعد سوتے ہیں اور ظہر میں اٹھتے ہیں اس کے بعد سب اپنے اپنے کام پر چلے جاتے ہیں اور 3، 4 بجے واپس آکر افطار کی تیاری شروع کردیتے ہیں۔ سپنا نے مزید بتایا کہ “افطار پارٹیز جتنی ہمارے ہاں ہوتی ہیں اتنی کہیں نہیں ہوتیں لیکن آج کل کورونا کی وجہ سے ہم بس اپنے ساتھ رہنے والے شاگردوں کے ساتھ گھر میں ہی افطار پارٹی کرلیتے ہیں“
 
عید کی شاپنگ کے لئے مانگنا تو پڑے گا
ایک اور خواجہ سرا صنم کہتی ہیں کہ ان میں سے اکثریت فنکشنز سے کما کر گزارا کرتی ہے لیکن رمضان میں چونکہ فنکشنز نہیں ہوتے اس لئے انھیں مجبوراً لوگوں سے مانگنے جانا پڑے گا کیونکہ انھیں بھی تو عید منانی ہے۔
 
image
 
عید کیسے مناتے ہیں
شلپا خان نامی خواجہ سرا کہتی ہیں کہ “میں نے 13، 14 سال کی عمر میں پہلا روزہ رکھا تھا۔ میرے گھروالوں نے روزہ کشائی کی تھی۔ پہلے امی سحری میں روزے کے لئے اٹھاتی تھیں اب سب خود کرنا پڑتا ہے۔ اب جو بھی تہوار آتا ہے اس میں والدین اور گھروالوں کے ساتھ گزارا وقت بہت یاد آتا ہے۔ وہ خوشی کہیں نہیں ملتی جو پہلے تھی۔ گزرا ہوا وقت یاد کرکے آنکھ میں آنسو اجاتے ہیں“
 
image
 
جبکہ صنم کہتی ہیں کہ “عید کا تہوار میں اپنے گھر جا کر ہی مناتی ہوں۔ وہ خود مجھے فون کرکے بلاتے ہیں اور اپنے ساتھ عید منانے کا کہتے ہیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: