ارے بھیا زرا سستے جوڑے دکھانا! انہوں نے کونسا سارا سال برانڈڈ پہننا ہے۔۔۔ہم ملازموں کے لیے وہ کیوں نہیں خریدتے جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں

image
 
“ارے بھائی میں دینے والے سستے جوڑے دکھانا“ طیبہ ابھی دکان میں داخل ہی ہوئی تھی کہ اس نے یہ آواز سنی
 
“یہ سستے جوڑے کیا ہوتے ہیں“ (طیبہ نے حیرت سے سوچا)
 
لیکن تھوڑی دیر میں ہی طیبہ کی حیرت، پریشانی میں بدل گئی جب دکان دار انتہائی بری کوالٹی اور بدرنگے سوٹ لے کر آیا اور خاتون کے سامنے رکھ دیے۔
 
“ان میں سے اوپر والے پانچ پیک کردو“ خاتون نے بس ایک نگاہِ غلط جوڑوں پر ڈال کر دکان دار سے کہا
 
“یہ جوڑے آپ لیں گی“ بات تو کچھ غیر اخلاقی تھی لیکن پھر بھی طیبہ نے اپنی حیرت پر قابو پانے کے لئے خاتون سے سوال پوچھ ہی ڈالا جو کہ حلیے سے اچھے خاصے کھاتے پیتے گھر کی لگ رہی تھیں۔ طیبہ کا دل یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ خاتون اتنی بری کوالٹی کے لباس گھر میں بھی پہنتی ہوں گی۔
 
“نہیں یہ میں اپنے گھر کام کرنے والی ماسیوں کے لئے لے رہی ہوں جو انھیں عید پر دینے ہیں“ خاتون نے طیبہ کے پوچھنے پر کہا
 
“لیکن یہ تو دو تین بار دھلنے کے بعد کسی کام کے نہیں رہیں گے اور ان کا رنگ بھی۔۔۔۔“ (طیبہ ابھی بھی بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا تھی)
 
اوہو بی بی ۔۔۔ یہ ماسیاں کونسا پورا سال برانڈڈ جوڑے پہنتی ہیں جو اب کولٹی کی فکر ہے اپ کو؟ ان کے لئے تو یہ بھی قیمتی ہونے چاہئیں۔ اب آپ کو زیادہ مسئلہ ہے تو اپنی ماسی کو چار چار ہزار کے جوڑے بنوا کر دے دو“ (خاتون نے طیبہ کے سوال پر اکتا کر جواب دیا، دکان دار کو پیسے دیے اور تھیلا اٹھا کر یہ جا وہ جا)
 
لیکن طیبہ کے لئے یہ سب کافی عجیب تھا کیونکہ اس نے تو یہی سنا تھا کہ جو خود پہنو وہی دوسروں کو بھی پہناؤ پھر عید کے موقع پر کوئی کسی کو خاص طور پر سستے کپڑے کیسے دے سکتا ہے
 
image
 
ویسے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں۔ آج کسی بھی مقامی بازار چلے جائیں وہاں ایسی دکانوں کی بہتات ہے جہاں زکوٰۃ، خیرات اور صدقے میں دیے جانے والے کپڑوں کا خصوصی بورڈ لگا ہوتا ہے۔ اور وہاں ایسے کپڑے بیچے جارہے ہوتے ہیں جن کی قیمت انتہائی کم ہوتی ہے اور قیمت کی مناسبت سے کوالٹی اور رنگ بھی کافی خراب ہوتا ہے۔ لیکن لوگ وہ کپڑے خریدتے بھی ہیں اور اپنے گھر کے ملازمین اور غریب رشتے داروں میں عید کے موقع پر تقسیم بھی کرتے ہیں۔
 
جو خود پہنو وہی غلاموں کو پہناؤ
جب ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں تو اسلام کے بنائے ضابطہ اخلاق کے پابند ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہماری رہنمائی بھی اسلام ہی کرتا ہے۔ حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے آخری خطبے میں فرماتے ہیں کہ”اپنے غلاموں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، ان سے بہتر سلوک کرو، جو خود کھاؤ انھیں کھلاؤ، جو خود پہنو انھیں پہناؤ، ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کرو“۔
 
 اسی طرح خطبے میں ایک اور مقام پر آپ نے فرمایا “اپنے اموال کی خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرتے رہو“
 
ان احکامات کی روشنی سے ہم کو یہ پتہ چلتا ہے کہ بحیثیتِ مسلمان ہم پر لازم ہے کہ اپنے ملازمین اور دیگر غریب غرباء کی مدد ان کی نہیں بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق کریں۔ بے شک اگر کسی کی مالی حالت اتنی اچھی نہیں کہ وہ اچھی سے اچھی چیز صدقہ کرے تو وہ کم دام والی خرید سکتا ہے مگر مالی طور پر مستحکم افراد اس بات کی اہمیت کو سمجھیں کے اللہ جوڑوں کی تعداد نہیں بلکہ نیت اور خلوص دیکھتا ہے۔ زکوٰۃ اور خیرات کئی طرح سے ادا کیے جاتے ہیں لیکن عیدین کے موقعوں پر غرباء میں کپڑے تقسیم کرنے کا بہت اچھا رواج ہے اس لئے کوشش کریں کہ اپنی حیثیت کے مطابق بہتر اشیاء خرید کر غریبوں میں تقسیم کریں تا کہ لوگوں کے دل سے آپ کے لئے دعا نکلے۔
image
YOU MAY ALSO LIKE: