تحریر:ہدایت الرحمن،کراچی
اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں امتِ محمدی کو ایک معتدل امت قرار دیا جو کسی
بھی معاملے میں حد سے تجاوز نہیں کرتی، سورۃ البقرہ میں یہ الفاظ اس طرح
بیان ہوئے ہیں ’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر
امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول (صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو‘۔ اعتدال اور رواداری کی اعلیٰ انسانی
خصوصیات ہمیں ریاستِ مدینہ کے ماڈل میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتی
ہیں۔
یہ ماڈل اسلامی ریاست کرہ ارض پر حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے
ویڑن، قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی بصیرت کاشاہکار تھی۔ یہ ماڈل اس سے قبل
عملی شکل میں دنیا کی تاریخ میں ہمیں کہیں نظر نہیں آتا۔ حضور صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے نہ صرف مکہ کے مہاجرین اور مدینے کے انصار میں اخوت اور بھائی
چارے کا رشتہ استوار کر کے مسلم قومیت کا تصور دیا بلکہ بعدازاں مختلف
قومیتوں میں بٹے ہوئے یہودی قبائل کو اس میں شامل کر کے ایک ایسی اسلامک
ڈیموکریٹک سٹیٹ کی بنیاد رکھی جس میں جملہ مذاہب کے پیروکاروں کے بنیادی
حقوق کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے مذہبی عقائد کے مطابق عبادات
کرنے، یہاں تک کہ خاندانی اقداراور قبائلی رسوم و رواج کے مطابق فیصلے کرنے
کی تحریری یقین دہانی کروائی۔
اس تحریری یقین دہانی کو تاریخِ اسلام میں میثاقِ مدینہ کے نام سے یاد کیا
جاتا ہے۔ میثاقِ مدینہ بین المذاہب و بین الاقوامی رواداری کی اقدار پر
مبنی ایک ایسی دستاویز ہے جسے مسلمان اعتدال پسندی کے دعوے کے حوالے سے
قیامت تک کیلئے فخر کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں۔ یہ دستاویز قرآنی فلسفہ
اعتدال اور ’امت اوسط‘ ہونے کا عملی ثبوت اور اظہار ہے۔ میثاقِ مدینہ کو
کائناتِ انسانی کا سب سے پہلا تحریری دستور ہونے کا مقام حاصل ہے۔ صحرائے
عرب کے اْمی نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت دنیا کو پہلے جامع تحریری
دستور سے متعارف کروایا جب ابھی دنیا کسی آئین یا دستور سے نا آشنا تھی۔
میثاقِ مدینہ کے جملہ آرٹیکلز کے مطالعہ سے یہ اخلاقی و روحانی پیغام ملتا
ہے کہ اسلامی تعلیمات غیر مسلموں کے ساتھ بھی معاملہ کرتے وقت کسی تنگی اور
تعصب کوآڑے نہیں آنے دیتیں۔اسلامی نظام حیات میں احترامِ انسانیت، اصلاحِ
معاشرہ اور فرد کے عقائدی رجحانات اور قبائل (ممالک)کی مسلّمہ اقدار و
ثقافت کو تحفظ دیا گیا ہے۔ میثاقِ مدینہ کی دستاویز کی اساس اصلاحِ معاشرہ،
امن عامہ، جان و مال کے تحفظ اور نیکی و خیر کے پیغام کو فروغ دینے میں ہے۔
اصلاحِ احوال و معاشرہ کے نبوی تصور کو سمجھنے کیلئے بیعتِ عقبیٰ اولی کے 7
نکات کو سمجھنا ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بیعت 7
نکات پر لی:
اﷲ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں گے۔
چوری سے باز رہیں گے۔
زنا نہیں کرینگے۔
اولاد کو قتل نہیں کرینگے۔
کسی پر جھوٹی تہمت نہیں لگائیں گے۔
چغلی نہیں کھائیں گے۔
ہر اچھی بات میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کریں گے۔
ایک مثالی، فلاحی معاشرہ کیلئے ان نکات کی آج بھی اہمیت دو چند ہے۔ اس پہلی
بیعت کے اصول سے یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ اسلام ایک پرامن ضابطہ حیات ہے
اور فساد فی الارض کی نفی کرنے والا دین ہے۔
|