پچھلے سال کی طرح امسال بھی بھارت کی حکومت نے کورونا کو
قابومیں لانے کیلئے مختلف طریقوں سے لاک ڈائون نافذ کیااور اس لاک ڈائون
کولاک ڈائون اس لئے نہیں کہہ رہی ہے کہ اگر وہ پابندیوں کولاک ڈائون کا نام
دیتی ہے تواس کیلئےحکومت کی طرف سے باضابطہ طور پر عوام کی مددکیلئے پیاکیج
کا اعلان کرناہوگا۔لیکن حکومت اس وقت اس مقام پر نہیں ہے کہ وہ لوگوں کیلئے
پیاکیج کا اعلان کرے ،اقتصادی ومالی حالات کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات
اٹھائے۔یہی وجہ ہے کہ وہ قتل کی واردات کو قتل کا نام دینے کے بجائےموت کا
نام دینے کی کوشش کررہی ہے۔اس حالت میں جو حالات ہیں وہ اس طرح سے بھی ہیں
مانوکہ بھارت کے لوگ ناجائز اولادکی طرح ہیں،جنہیں کچھ لوگ اپنےشوق کیلئے
پیدا تو کردیتے ہیں لیکن ان کی کفالت و پرورش کی ذمہ داری نہیں لیتے۔اسی
طرح سے لاک ڈائون کے دوران بھی حکومت عوام کو دوسروں کے بھروسے چھوڑنے کی
تیاری کررہی ہےاور اُمید بھی کیاکی جاسکتی ہے کہ جو حکومت اچھے دنوں میں
لوگوں کا ساتھ دنہ دی ہو وہ بُرے دن میں کیسے لوگوں کی ہمدردو ہمنوا بن
جائیگی۔حکومت کے موجودہ طرزِعمل پرلوگوں کوہی آتم نربھر یعنی خودانحصار
ہوناہوگا،ورنہ سڑکوں پر ہماری لاشیں پڑی دکھائی دینگی۔یہ کوئی فلم یا ڈرامے
کی اسکرپٹ نہیں آپ پڑھ لیں اور خوش ہوجائیں،بلکہ چند ایسے سطور ہیں جو خود
سوچنے کے لائق ہیں اور دوسروں کوسوچنے کیلئے پہنچائے جائیں۔ہم دیکھ رہے ہیں
کہ اس وقت بھارت میں صر ف آکسیجن،وینٹی لیٹر اور بستروں کی کمی نہیں ہے
بلکہ حکومت کی طرف سے مددکی اُمیدکی بھی کمی ہے۔وزیر اعظم مودی تو گھر کی
اُس بوڑھیاکی طرح ہوتے جارہے ہیں جو پیٹ درد ہونے پر نظراُتارنے کا کام
کرتی ہے،پائوں میں درد ہونے پر زمین پر تین بار تھوکنے کی صلاح دیتی
ہیں۔نئی دلہن گھر پر آنے پر لال پیلا پانی اتارنے کی رسم ادا کرتے
ہیں۔الغرض گھریلوٹوٹکے اور گھریلو نسخوں کو دینا ہمارے مودی جی کی عادت
ہوچکی ہے او ریہی ان کی من کی بات ہے۔دھن خرچ کرنے کی بات وہ کرتے ہی نہیں
ہیں۔اب آپ یہ سوال کرینگے کہ ہمیں کیا کرناہوگا۔تاریخ ہمیں اس بات کادرس
دیتی ہے کہ مشکل گھڑی آنے سے پہلے احتیاط برتنا چاہیے،سوکھا پڑنے سے پہلے
پانی کاذخیرہ کرناچاہیے،قحط پڑنے سےپہلے اناج جمع کرلینا چاہیے،یہ سب قدرت
کادستورہے۔مگرہم آج بھی یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارےپاس نہ تو کوئی حکمت عملی
ہے نہ ہی منصوبہ بندی ہے،ہماری چھوٹی چھوٹی کوششیں اگر اکٹھا کرلی جائیں
تویقیناً بہت بڑا کام ہوسکتاہےاور یہ کام ساری انسانیت کیلئے کارگر
ہوگا۔لوگ آنے والے دنوںمیں بھوکے مرینگے،انہیں علاج ومعالجے کیلئے سہولت
نہیں ملے گی،کیونکہ اگر معاملہ ایک کا ہوتا تو حل ہوسکتا تھا،مگر یہاں
معاملہ تو پوری انسانیت کا ہے اور اس کا شکار بڑ اطبقہ ہے،اس لئے حکمت سے
کا م لیں،اپنے سرمایہ کو حفاظت سے رکھیں،جو خرچ آپ ابھی رمضان میں
کرناچاہتے ہیں،اُسے بھی احتیاط سے خرچ کریں،زکوٰۃ ،صدقہ ،خیرات ہر ایرے
غیرے کو نہ دیں بلکہ جو حقیقی ضرورتمند ہے اُسے دیں،جو لوگ دل کھول کر چندہ
مانگ رہے ہیں انہیں کہیں کہ جب ضرورتمندوں کا پیٹ بھریگا تب آپ کو چندہ
دیاجائیگا۔
|