ان کے والدین بچوں کا نام بھی نہیں رکھتے۔۔۔ موت کی جانب بڑھتے 80 لاوارث بچوں کو باپ کا پیار دینے والے محمد بِزیک کون ہیں؟

image
 
اپنے بچوں کو تو سب والدین ہی پیار کرتے ہیں لیکن امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں کچھ ایسی مثالیں بھی دیکھنے کو ملی ہیں جہاں ماں باپ نے اپنے سگے بچوں کو صرف اس لیے قبول کرنے سے انکار کردیا کیونکہ ڈاکٹروں نے بچوں کی زندگی سے جواب دے دیا تھا۔ لیکن انھیں ایک قطعی غیر شخص نے نا صرف اپنایا بلکہ ان لاوارث بچوں کو ماں اور باپ دونوں کا پیار دے کر انسانیت کی انوکھی مثال قائم کی۔
 
محمد بِزیک کا تعلق لیبیا سے ہے۔ وہ دہائیوں قبل امریکہ منتقل ہوئے لیکن امریکہ کو انھوں نے اپنے خوابوں کے برعکس پایا۔ جہاں خوشحال خاندان ہونے چاہیے تھے وہاں ٹوٹے ہوئے خاندان تھے اور جہاں ہنستے مسکراتے بچے ہونے چاہیے تھے وہاں آخری سانس لیتے نومولود بچے تھے۔ محمد بِزیک کہتے ہیں کہ "میں دہائیوں سے امریکہ میں ہوں اور ان بچوں کی پرورش کرہا ہوں جنھیں مہلک بیماریوں کہ وجہ سے سگے والدین چھوڑ کر چلے گئے کیونکہ ڈاکٹر نے انھیں بتا دیا تھا کہ یہ بہت جلد مرجائیں گے"
 
جب میں اسپتال جاتا تھا تو یہ بچے تنہا ہوتے تھے
بچوں کو گود لینے کے حوالے سے محمد بِزیک کہتے ہیں کہ" جب میں اسپتال جاتا تھا تو یہ بچے تنہا ہوتے تھے۔ وہاں انھیں پیار کرنے والا، بات کرنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا کیونکہ ان کے خاندان والے ان کی موت سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے تھے۔
 
ان بچوں کو ایسی مہلک بیماریاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے وہ نہایت کمزور رہتے ہیں اور اکثر اپنی پہلی سالگرہ سے قبل ہی فوت ہوجاتے ہیں۔ محمد بِزیک بتاتے ہیں "ان بچوں کے والدین میں ایسے افراد زیادہ ہوتے ہیں جو منشیات کا استعمال کرتے ہیں یا کم عمر والدین جو فی الحال گھر بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ انھیں جب ڈاکٹر ان بچوں کے مرض کے بارے میں بتاتا ہے تو وہ انھیں وہیں اسپتال میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں"
 
image
 
محمد بِزیک نے جب ان بچوں کو تنہا اپنی بیماریوں سے لڑتے دیکھا تو انھیں اپنے گھر لے آئے اور بچوں کے لئے وہ سب کیا جو ایک باپ یا ماں اپنی اولاد کے لئے کرسکتا ہے۔ محمد بِزیک ان بچوں کے لئے کھانا پکاتے ہیں، انھیں کھلونے لاکر دیتے ہیں یہاں تک کے انھوں نے ان بچوں کے لئے سانس کی مشینیں بھی خرید کررکھی ہیں۔
 
ان کے والدین بچوں کے نام رکھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے
محمد بِزیک کہتے ہیں "ان بچوں کے والدین اتنی زحمت بھی نہیں کرتے کہ ان کو کوئی نام ہی دے دیں اس لئے ان کو میں نام دیتا ہوں کیونکہ ان کا حق ہے کہ ان کی کوئی شناخت ہو"
ان بچوں کو عام بچوں کی نسبت پیار اور توجہ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے محمد بِزیک کہتے ہیں "میرے گود لیے بچوں میں سے اکثر نابینا یا گونگے بہرے ہیں۔ انھیں میری آواز سنائی نہیں دیتی لیکن میں انھیں چھو کر احساس دلاتا ہوں کہ میں ان کے ساتھ ہوں"
 
محمد بِزیک خود کینسر میں مبتلا ہیں
"مجھے 2016 میں پتا چلا کہ مجھے کولون کینسر ہے اس وقت مجھے ان بچوں کا اور بھی شدت سے احساس ہوا کیونکہ اس وقت میں 60 سال کا تھا پھر بھی موت سے خوفزدہ تھا لیکن یہ بچے تو بہت چھوٹے ہیں اور اکیلے ہی موت سے جنگ لڑ رہے ہیں"
 
محمد بِزیک اپنی نیک دلی کی بدولت دنیا بھر میں مشہور ہوچکے ہیں اور کئی اداروں سے انعامات اور ڈونیشنز وصول کرچکے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ انھیں حقیقی خوشی ان بچوں کو خوش دیکھ کر ہی ملتی ہے
image
YOU MAY ALSO LIKE: