بین الا قوامی یوم محنت 2021کے موقع پر خصوصی مضمون
آج پاکستان میں بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح یکم مئی کے دن ’’عالمی یومِ
محنت‘‘منایا جارہاہے۔اس ضمن میں مختلف سیاسی جماعتیں ،مزدور تنظیمیں اور
محنت کشوں کے لئے حصّول انصا ف کی عالمی جدوجہد سے تعلق رکھنے والی دیگر
روشن خیال تنظیمیں اُن شہیدمزدوروں کی یاد تازہ کریں گی کہ جنہوں نے اب سے
135سال قبل محنت کش طبقہ کو صنعتکار وں اور سرمایہ داروں کی غلامی سے نجات
دلانے کے لئے ’’8گھنٹہ کام،8 گھنٹہ آرام اور 8گھنٹہ Socializingکا نعرہ
بلند کیا‘‘۔اس راہِ حق میں آوازِ حق بلند کرنے کی پاداش میں سات مزدور
رہنماؤں کو تختہ دار پر کھینچا گیاجسے انہوں نے ہنستے مسکراتے قبول کیا مگر
طاقتوار طبقہ کے سامنے اپنا سر نہیں جھکایا اور اس طرح وہ تاریخ میں رہتی
دنیا تک امر ہوگئے۔
ہم یومِ مئی کی تاریخ کے حوالہ سے اگر آج اپنے ملک کے حالات پر ایک سرسری
نگاہ ڈالیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ 135 سال گذرنے کے باوجود مزدور طبقہ کی
زندگیوں میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔قیامِ پاکستان کے بعد خاص طور پر
پاکستان پیپلز پارٹی کے مختلف ادوار حکومت میں محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ
کے لئے بڑے پیمانے پر قانون سازی کی گئی اور متعدد ادارے بھی قائم کئے
گئے۔اس حوالہ سے شہید ذوالفقار علی بھٹو کا دور ایک سنہری دور کہا جاسکتا
ہے۔پاکستان میں مزدور طبقہ کی تعداد آبادی کے لحاظ سے تقریباََ سات کروڑ
بتائی جاتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک کی پارلیمان اور پالیسی ساز
اداروں میں اُن کی کوئی حقیقی نمائندگی موجود نہیں،اتنی بڑی تعداد میں
موجود ہونے کے باوجود کیونکہ یہ طبقہ غیر منظم ہے لہٰذا اُس کی کہیں کوئی
مؤثر آواز سُنائی نہیں دیتی ۔مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے وضح کئے گئے
قوانین کا اطلاق بالخصوص پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں شاد و نادر ہی نظر
آتا ہے۔حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم ماہانہ تنخواہ کی ادائیگی کے
قانون پر عملدرآمد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 80%فیصد ادارے اس پر عمل ہی
نہیں کرتے اور مزدور 17500/-روپئے ماہانہ کی بجائے 10سے 12ہزار روپئے
ماہانہ پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔قانون کے تحت کسی بھی کارکن سے کسی
بھی کارخانہ ،دفتریا انڈسٹری میں 8گھنٹہ یومیہ سے زائد بغیر اوور ٹائم کی
ادائیگی کام نہیں لیا جاسکتا لیکن حقیقی صورتحال یہ ہے کہ مزدور 12,12گھنٹہ
یومیہ کام کرنے پر مجبور ہیں اور اُن کی کوئی سنوائی نہیں۔قانون کی خلاف
ورزی کرنے والوں نے غلامی کے نئے نظام کو نافذ کردیا ہے اور کوئی پُرسانِ
حال نہیں۔عام طور پر صنعتکار اب اپنے اداروں میں ٹریڈ یونینز قائم ہونے ہی
نہیں دیتے اور اس طرح بتایا جاتا ہے کہ 80%فیصد کارخانوں
،فیکٹریز،دفاتر،کمرشل بنکس اور دیگر پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں ٹریڈ
یونینز ناپید ہوچکی ہیں جبکہ 20%فیصد اداروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
وہاں اندر کی یونینز ہیں مطلب کہ پاکٹ یونین جو کہ انتظامیہ کے جیبوں میں
پڑی ہوتی ہیں۔
ہم کوشش کرتے ہیں کہ مختلف صنعتوں میں محنت کشوں کے حالاتِ کار کا جائزہ
لیں تاکہ ملازمت پیشہ طبقہ کو درپیش مجموعی صورتحال اورٹریڈ یونین تحریک کی
موجودہ شکل سامنے آسکے۔ بنکنگ انڈسٹری کی ٹریڈ یونینز کے موجود حالات کا
تجزیہ کرنے کے لئے ہمیں کسی ایک ادارہ کو مثال کے طور پر لینا ہوگا ۔اس کے
لئے بہتر ہوگا کہ ہم ملک کے سب سے بڑے اور قدیم بنک حبیب بنک کے حالات کو
تجزیہ کی خاطر بطور مثال لے لیں۔پرائیویٹائزیشن سے قبل اور پہلی نام نہاد
گولڈن ہینڈ شیک اسکیم آنے سے قبل ادارہ میں ملازمین کی کل تعداد جن میں
افسران بھی شامل تھے تقریباََ32ہزار تھی جن میں کلریکل کیڈر کی تعداد
تقریباََ اٹھا رہ ہزار تھی ۔آج جب کہ حبیب بنک کی پرائیویٹائزیشن کو اٹھارہ
سال مکمل ہو چکے ہیں تو صورتحال یہ ہے کہ ادارہ میں اب میں کلریکل کیڈر کی
کل تعداد 1200رہ گئی ہے جو کہ ملازمین کی کل تعداد کا 10فیصد سے بھی کم
ہے۔حبیب بنک نے پچھلے اٹھارہ سالوں کے دوران سے ٹریڈ یونین کیڈر میں
بھرتیوں پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ بنک انتظامیہ نے یہ بھی کیا
کہ نا ن کلریکل کیڈر کے ہزاروں افراد کو 2006 میں آؤٹ سورس کرکے اُنہیں
تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ ایمپلائمنٹ سسٹم کے تحت بنک ملازمت سے فارغ کردیا
۔دوسری جانب گذشتہ تین سالوں کے دوران حبیب بنک کی انتظامیہ نے سی بی اے کو
گذشتہ 45سالوں سے حاصل تمام تر سہولیات سے محروم کردیا ہے۔سی بی اے کے تمام
دفاتر بند کردیئے گئے ،دفاتر کو دی گئی تمام تر سہولیات واپس چھین لی گئیں
،سی بی اے کے تمام عہدیداران پر پابندی عائد کردی گئی کہ وہ آفس آوورز کے
دوران ملازمین کو درپیش مسائل کے حل کے سلسلہ میں انتظامیہ کے افسران سے
کسی قسم کا رابطہ قائم نہ کریں بلکہ اسکے برعکس بنک کی جانب سے تفویض کئے
فرائض ادا کریں اور اس طرح پورے پاکستان میں وہ چند عہدیداران کہ جنہیں خود
انتظامیہ نے یہ سہولت دی تھی کہ وہ ملازمین کے مسائل کے سلسلہ میں اعلیٰ
افسران سے رابطہ کرسکتے ہیں اس سہولت کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔بہ الفاظ
دیگر ادارہ میں صورتحال یہ ہے کہ سی بی اے یونین تو موجود ہے مگر اُسے
انتظامیہ کی جانب سے قوانین کے غلط اور من مانے اطلاق کے ذریعہ مکمل طور پر
غیر فعال اور اس طرح ٹریڈ یونین تحریک کا گلا مکمل طور پر گھونٹ دیا گیا
ہے۔سرکاری بنکوں کو چھوڑ کر دیگر تمام پرائیویٹ کمرشل بنکس میں کم و بیش
یہی صورتحال پائی جاتی ہے اور اس انڈسٹری میں ٹریڈ یونین تحریک کو انتظامیہ
نے اپنی بھرپور طاقت اور جارحانہ حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے اسے ماضی کا
قصہِ پارینہ بنادیا ہے۔
مزدور طبقہ آج بھی اس ملک میں بحیثیت مجموعی بدترین حالات سے تو دو چار ہے
ہی لیکن بعض شعبوں میں صورتحال انتہائی دگر گوں ہے ۔کوئلہ کی کانوں میں کام
کرنے والے مزدوروں کے حالاتِ کار اور اُن کی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو
انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔اخبارات میں آئے دن خبریں ظاہر ہوتی رہتی
ہیں کہ درجنوں مزدوراپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے کسی کان میں داخل ہوئے
اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔اگر اعدادوشمار ایمانداری سے اکھٹے کئے جائیں
تو ہر سال ہمارے ملک میں سینکڑوں مزدور اپنی زندگیوں سے پیٹ کی آگ بجھانے
کی خاطر آگ اور حبس کی نظر ہوجاتے ہیں۔ ان حادثات کا سلسلہ ایسا ہے کہ
رُکنے کا نام ہی نہیں لیتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئلہ کے کانوں کے
ٹھیکیدار اور حکومتی مشینری اس ضمن میں کیا کردار ادا کر ررہی ہے؟۔پیپلز
پارٹی کی سندھ حکومت نے اس سلسلہ میں پہل قدمی کرتے ہوئے "Occupational
Safety And Health"کے قانون کو وضح کیا ہے لیکن یہاں بھی اصل مسئلہ اس کے
اطلاق کا ہے کہ اس کے بارے میں مثبت اطلاعات نہیں ملتیں۔کوئلہ کے کان کنوں
،محنت کشوں کی زندگیاں ہی ہمارے معاشرے میں عذاب سے نہیں گذر رہیں بلکہ
دیگر شعبہ جات میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے ماہی گیروں کی زندگیوں اور
حالات کار کا جائزہ لیں تو وہا ں بھی دکھ اور غم کے سواء مشکل سے ہی کچھ
ملتا ہے۔سمند ر کی لہروں سے لڑنے والوں اور لاکھوں انسانوں کے لئے بہترین
غذا کے حصول کے لئے اپنی زندگی سے کھیل جانے والوں کی خود اپنی زندگیاں
،زندگی کی حرارت سے محروم ہیں۔پاکستان میں دیہاڑی دار مزدوروں کی تعداد
لاکھوں سے بھی تجاوز کر چکی ہے ۔اس معاشرہ نے اُن کے لئے کیا کیا؟طبی
سہولیات ،روزگار کا تحفظ ،تین وقت کی روٹی کی ضمانت،اُن کے زیر کفالت بچوں
کا مستقبل یہ سب اُن کے لئے خواب و خیال ہیں۔دوسری جانب ہم مزدوروں کے
ویلفیئر کے لئے قائم اداروں جن میں ای و بی آئی،سوشل سیکیورٹی ورکرز
ویلفیئر بورڈز اور بحیثیت مجموعی لیبر ڈیپارٹمنٹس کی کاکردگی کا جائزہ لیں
تو ان اداروں کی صورتحال بھی دیگر سرکاری اداروں سے بہتر نہیں ہے۔ملک میں
محنت کش طبقہ کی تعداد کو اگر سات کروڑ تسلیم کرلیا جائے تو ہم مزید
مایوسیوں سے اس لئے بھی دوچار ہوجائیں گے کہ کارکنوں کے ویلفیئر کے لئے
قائم کسی بھی ادارہ میں چند لاکھ سے زائد کارکن رجسٹر نہیں اور اس طرح
باآسانی کہا جاسکتاہے کہ نوے فیصد محنت کش اپنے قانونی حقوق اور سہولیات سے
محروم ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ قائد اعظم کے تصور پاکستان کے مطابق اس ملک کو ایک فلاحی
ریاست ہونا چاہیئے جو کہ بد قسمتی سے ابھی تک بن نہیں پائی اس سلسلہ میں ہم
قائد اعظم کی اُس تقریر کے اقتباس کو پیش کریں تو ہم زیادہ بہتر انداز میں
بانی پاکستان کی سوچ کو سمجھ سکیں گے ۔24مارچ1943میں مسلم لیگ کے اجلاس
منعقد ہ دہلی سے خطاب کرتے ہوئے بیرسٹر محمدعلی جنا ح نے کہا کہ’’میں ضروری
سمجھتا ہوں کہ زمینداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کردوں کہ اس طبقہ کی
خوشحالی کی قیمت عوام نے ادا کی ہے اس کا سہرا جس نظام کے سر ہے وہ انتہائی
ظالمانہ اور شرانگیز ہے اور اس نے اپنے پروردہ عناصر کو اس حد تک خود غرض
بنادیا ہے کہ انہیں دلیل سے قائل نہیں کیا جاسکتا۔اپنے مقصد برآوری کیلئے
عوام کا استحصال کرنے کی خوئے بدان کے خون میں رچ گئی ہے۔وہ اسلامی احکام
کو بھول چکے ہیں۔حرص و ہوس نے سرمایہ داروں کو اتنا اندھا کردیا ہے کہ وہ
جلب منفعت کی خاطر دشمن کا آلہ کار بن جاتے ہیں آج یہ سچ ہے کہ ہم اقتدار
کی گدی پر متمکن نہیں۔آپ شہر سے باہر کسی جانب چلے جایئے۔میں نے دیہات میں
جاکر خود دیکھا ہے کہ ہمارے عوام میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جنہیں دن میں
ایک وقت بھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتاکیا آپ اسے تہذیب اور ترقی
کہیں گے؟کیا یہی پاکستان کا مقصد ہے؟کیا آپ نے سوچا کہ کروڑوں لوگوں کا
استحصال کیا گیا ہے اور اب ان کے لئے دن میں ایک بار کھانا حاصل کرنا بھی
ممکن نہیں رہااگر پاکستان کا حصول اس صورت حال میں تبدیلی نہیں لاسکتا تو
پھر اسے حاصل نہ کرنا ہی بہتر سمجھتا ہوں اگر وہ(سرمایہ دار) عقل مند ہیں
تو وہ نئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیں گے اور اگر وہ ایسا نہیں
کرتے تو پھر خُدا اُن کے حال پر رحم کرے ہم ان کی کوئی مدد نہیں کریں
گے‘‘۔قائد اعظم کے مندجہ بالا ارشادات ہمارے معا شرے اور ریاست کے لئے
مشعلِ راہ ثابت ہوسکتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں غربت،افلاس،بھوک
،ننگ اور بیروزگاری جیٹ اسپیڈ کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔تمام جمہوری سیاسی
جماعتوں کے لئے مستقبل کے حالات ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔عوام کے
مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں ملک کی اقتصادی و معاشی صورتحال نا گفتہ بہ ہے
مگر ہمیں مایوسی سے دو چار ہونے کے بجائے ان حالات کا حل تلاش کرنا
ہوگا۔مزدوروں ،کسانوں اور دیگر کچلے اور پسے ہوئے طبقات کو اپنے ساتھ جوڑ
کر اس بحران سے نکلا جاسکتا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی ایک ترقی پسند اور روشن
خیال سیاسی جماعت ہے جس کا ماضی عوامی حقوق کے لئے جدوجہد اور قربانیوں سے
بھر پور ہے ۔پارلیمان اور پالیسی ساز اداروں میں محنت کش طبقہ کی نمائندگی
بڑھانے سے پارٹی کی عوامی قوت میں اضافہ ہوگا اور اس طرح وہ عوام کی
خواہشات کو مزید اُجاگر کرسکے گی۔مزدور تنظیموں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ
کم سے کم نکات کی بنیادوں پر متحد اور منظم ہونے کی جدوجہد کو جاری رکھیں
اور سیاست کے قومی دھارے میں شامل ہوکراپنا کردار ادا کریں تاکہ محنت کشوں
کے مسائل ختم نہیں تو کم سے کم کئے جاسکیں۔
|