اللہ اکبر کی صدا کسی دور کی محتاج نہیں

”اللہ اکبر ،اللہ اکبر“یہ صدائیںجب بھی کانوں کے رستے دل میں اترتی ہیںتوایک لطیف،مکمل احساس انسان کواپنے سحرمیںجکڑلیتا ہے یہ وہ واحدصدا ہے جو دن رات برابر(دنیا کے مختلف مقامات سے) گونجتی ہے۔یہ صداچودہ سو سال پہلے جب سرِزمینِ عرب سے بلند ہوئی تھی توکفر کے سارے بُت اُوندھے منہ گرپڑے تھے اور اہلِ دانش سجدہ ریز ہو گئے تھے اس آواز میں بالا کی طاقت ہے اسی طا قت کی وجہ سے مسلمان اپنی دنیا(مصروفیات،کام،کاروبار وغیرہ)چھوڑ کر مسجد کی طرف قدم بڑھا تا ہے اپنے معبود کے آگے جُھک جا تا ہے کہ ”بے شک اللہ سب سے بڑا ہے“ایک وقت تھا جب دنیا پر تصوریت کی حکمرانی تھی،پھرکچھ ایسا ہو اکہ انسان نے مادیت کو ترجیحی دینی شروع کردی اور آج انسان مادہ پرستی کی ا نتہا پر کھڑا ہے۔ایک دور تھا انسان غاروں میں،جانوروں کی سی زندگی جی رہا تھا،پتوں وغیرہ سے سترپوشی کرتا تھا اور شکارکر کے کھایا کرتا تھا اس وقت اکثر وبیشتر انسان اپنی بھوک مٹا نے کے لئے اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کا گو شت نوچنے سے بھی دریخ نہیں کیاکرتا تھا اس با ت کے واضح شواہد ملے ہیں کہ قحط یا خوراک کی کمی کی وجہ سے انسان نے انسان کو اپنا نوالہ بنایا!پھر وقت اور حالات نے پلٹی کھائی،غاروں سے نکلنے والوں نے راحت اور تحفظ کے لئے کوجدوجہد کرنا شروع کردی۔وہ گارے اور پتھروں سے مکان بنانے لگا،کھانے کے لئے اناج اُگانے لگا گویا ترقی کرنے لگا،تہذیب کی جانب بڑھنے لگا،ترقی کی راہوں پر چلتے چلتے اس نے عقل کو مات دے دی،عقل دنگ رہ گئی کہ اس معمو لی سے انسان نے اپنے آرام و آسائش اور آسانی کے لئے پتہ نہیں کیا کیا ایجاد کر لیا،دنیا سے نکل کر نئی وسعتوں کو تسخیر کر بیٹھا!سائنس اور ٹیکنالوجی کے نام پر اس نے خوب داد سمیٹی ،خوب تحسین اکٹھی کی۔اور سمجھنے لگا کہ وہ آگے نکل گیا!کہتے ہیں کہ ہر چیز اپنی اصل کو لوٹ آ تی ہے آج انسان بھی تر قی،سائنس اور ٹیکنا لو جی دنیا تسخیر کر نے کے با وجود اپنی اُسی کل کو لوٹ رہا ہے جہاں وہ غاروں میں رہتا،بے شعور ،بے تہذیب حےوان کی ما نند تھا جسے کھا نے ،سونے اور شکار کرنے کے سوا کچھ سُجائی نہیں دیتا تھا۔آ ج کا انسان بھی حقیقتوں کی تلاش میں ”اپنی حقیقت کُھو بیٹھا ہے“۔سائنس اور ٹیکنا لوجی کو بنا نے والا اسی کا غلام ہوبیٹھا ہے اپنی آسا نیوں کی تلا ش میں اپنے آپ کو الجھنوں کے جا ل میں پھنسا بیٹھا ہے۔

میں یہ نہیں کہتی کہ سائنس اور ٹیکنا لوجی کے آجا نے سے مجھے یا آپ کو فا ئدہ نہیں ہوا،ایجا دات نے آپ کی اور میری زندگی میں آسا نی پیدا نہیں کی سا ئنسی ترقی ہو ئی اور ہو رہی ہے،مجھے انکا ر بھی نہیں اسے ہو نا بھی چا ہئے لیکن اس کے سا تھ مجھے یا آپ کو اپنی روحا نی ترقی کا بھی سوچنا چا ہیے۔آج سب کچھ ہے زمین پر رہنے والوں نے آسمان کے اُس پا ر کی انفورمیشن اکٹھی کر رکھی ہیں،ٹیکنا لو جی نے حیرت کی نئی دنیا میں ہمیں پہنچا دیا ہےہم کمپیو ٹر،موبائل اور پتہ نہیں کو ن کون سی بیسا کھیوں پر چلنے کے عادی ہو گئے ہیں پھر بھی اِک بوجھ ہے جس نے ہما ری کمر میں خم ڈال رکھا ہے،ایک ایسا خم جو سیدھا کھڑا ہونے نہیں دیتا!!!سا ئنس سوالوں کے جواب کھو جتی ہے ،تحقیق سے اُنھیں پر کہتی ہے اور کوئی نئی تھیوری،کو ئی نیا نظر یہ ہم پر مسلط کر دیتی ہے لیکن سا ئنس بہت سے سوالوں کا جواب کبھی کھو ج ہی نہیں سکتی!

اگر میں کسی سائنسدان سے کہوں کہ صاحب ”مجھے نیکی اور بدی کا سراغ لگا نا ہے،ان کی پیما ئش کر نی ہے“ تو وہ صا حب کچھ دیر تو اپنی عقل کے عیار دوڑائیں گے لیکن پھر تمسخر سے میرے احمقا نہ سوال کے جواب میں کہے گے کہ بھلا سا ئنس کا اس سے کیا کام،سائنس کا کام تو مادے کی تحقیق ہے اور اگر میں کہوں کہ”نیکی کیا ہے؟“تو بھی سائنس چپ سا دھ لے گی ایسا کیوں ہے؟؟؟؟اسلئے کہ سا ئنس چا ہے جتنی ترقی کر لے،ٹیکنا لوجی اور ایجا دات سے دنیا سے داد سمیت لے پھر بھی یہ مادیت سے نہیں نکل سکتی جبکہ انسان کا سکون روحا نیت میں مضمر ہےاور یہ یہی حقیقت ہے!میں اگر یہی سوال کسی سائیں درویش سے پوچھو کہ”با بانیکی کیا ہے ؟؟“تو وہ جھٹ سے کہے گا”دل کی خوشی“اب پوچھودل کی خوشی کیا ہے ؟تو کہے گاکہ کسی کی داد رسی کرنا،کسی سے ہمدردی کے دو بول بولناکسی بھو کے کو کھانا کھلاناوغیرہ کیا سائنس ”دل کی خوشی دے سکتی ہے؟؟“نہیں دے سکتی،کیونکہ سائنس وٹیکنالوجی ہمیں comfortدیتی ہے جو شروع میں ہمیں بہت تسکین دیتے ہیںپھرہم انcomfortsسے اُکتا جا تے ہیںدوسریcomfortsکی تلاش (سائنس نئی comfortsکی ایجاد)شروع کردیتے ہیں اور اسی تلاش میں میں ہم ”دل کی خوشی“کُھو بیٹھے ہیں اور پتہ ہے دل کی خوشی کس میں ہو تی ہے؟یہ” اللہ ھو“کی صدا میں ہوتی ہے یہ میں نہیں کہہ رہی۔قرآنِ پاک میں ارشادِالہی ہے۔تر جمہ:”اللہ کا دکر کر نے سے اطمینانِ قلب حا صل ہو تا ہے“ذکروہی ہوتا ہے جس میں دل سے ہوک نکلے،آپ اللہ کہوتواللہ کا احسا س آپ کو محسوس ہواور جب اللہ کا احسا س ہوتا ہے تو وہ پل انسان خاص طور پر مسلمان کے لئے انتہا ئی خوشی کا ہو تا ہے کسی نے کہا تھا:”مجھ سے اللہ کا تصور چھین لیا جائے تو میں پا گل ہو جا ﺅنگا“سائنس و ٹیکنا لوجی اپنے کرشمات سے ہمیں اس اللہ کے تصور سے دور کر رہی ہے جس کے چھن جا نے سے انسان پا گل ہو جا تا ہے۔پاگل پن اچھا ہے بشرطیکہ یہ دنیا کے لئے نہ ہو،اپنے لئے ہواپنے اندر کی جستجو کے لئے ہواپنی روح سے کنکشن کے لئے ہو!!!!سائنس وٹیکنا لوجی کی ترقی نے انسا نوں کواندھا سا کر دیا ہے وہ دنیا اور بس دنیا کو ِڈسکس کر نے لگا ہے۔کس ملک کے پاس کیا ہے؟اس کی اقتصادی حا لت کتنوں سے بہتر ہے؟۔کس کے پا س کتنے ایٹمی ہتھیار ہیںوغیرہ وغیرہ۔سائنس نے ”طا قت “کی حرص ہم انسانوں میں پیدا کردی ہے،ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے دشمن حریف سے زیادہ طا قتور ہوںمالی ،معاشی اورسماجی ہر لحاظ سے ہم دوسروں سے بہتر اور طاقتور ہوں۔”طاقت“کے حصول کے لئے چھینا چھپٹی بھی کرنی پڑتی ہے جو آج کا ہر انسان کر رہا ہے سائنس نے بُھوک کو مَٹا یا نہیں اور بڑھا دیا ہے ا نسان دولت ،طاقت کے لئے بُھو کے جا نور کی طرح ہو گیا ہے جو اپنی بھو ک مٹا نے کے لئے چھینا چھپٹی ،لوٹ ما ر کرتا ہے مجھے تعجب ہے انسان پر کیونکہ بھو ک تو روٹی سے ہی مٹتی ہے !!!

مجھے اپنے بزرگوں کی طرح اس سائنسی و ٹیکنا لو جی کے(جدید) دور سے بہت گلے ہیں(حا لا نکہ بزرگوں کو دور سے زیا دہ ہم سے شکا یت ہوتی ہے) خیر مجھے تو اس دور سے ہی گلہ ہے جس نے ہماری اخلا قی قدروں کو بُری طرح مسخ کر دیا ہے نا اخلا قیا ت رہی ہے نا ہی انسا نیت!!

بندگی تو خواب ہوئی!سا ئنس اور ٹیکنا لو جی نے ہمیں ترقی کا سنہرا خواب دے کرہما ری روح کو پستیوں میں جُھو نک دیا ہے(ایسے ہی جیسے بھٹو نے”میرے غریب اور بُھو کے عوام “کا نعرہ دے کر اپنا مقصد حا صل کیا تھا)یہ جھو کنا ایسا ہی ہے جیسے جلتے چو لہے میں کوئی سوکھی لکڑیاں جھونکے تو وہ تیزی سے جل کر رکھ ہو جا تی ہیں ہمیں بھی سائنس اور ٹیکنالوجی نے ان سُو کھی لکڑیوں کی طرح کر دیا ہے اور ہم اپنی مادی اور نفسا نی خواہشوں کے چولہے میں جلتے چلے جا رہے ہیں!حیرت اور تعجب اس با ت پر ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ترقی کی طرف ”بڑھ“رہے ہیںجبکہ حقیقت میں ہم اپنی ”اصل“ سے دُور ہوتے چلے جا رہے ہیں کل تک جو کا م عرب کے جہلاءکیا کرتے تھے وہ آج کا مسلمان کر رہا ہے۔مسلمان کس چیز کا نام ہے؟؟کلمہ پڑھ لےنے کا یا سر پر ٹوپی رکھ لینے کا یا خود کو اللہ رب العزت کی سپُردگی میں دینے کا!!!پیر،۰۲جون۱۱۰۲ کی با ت ہے وزیر بشیر بلور صاحب نے سائنس وٹیکنا لوجی سے مرعوب ہو تے ہوئے کہا تھا:”اللہ اکبر کا دور ختم،اب سائنس کا زمانہ ہے“

بڑا تعجب اور افسوس ہواکہ یہ تر قی ہے کہ بڑے فخر سے واحدانیت کی نفی کی جا رہی ہے اس وقت جب میں لکھ رہی ہوں توظہر کی اذان بلند ہو رہی ہو رہی ہے جو اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ”اللہ اکبر،اللہ اکبر “ کی صدا دور کی محتاج نہیں یہ کل بھی ہو تی تھی جب سائنس و ٹیکنا لوجی کا کہیں دور دور تک نہیں تھی،یہ ابھی بھی ہو رہی ہے جب سا ئنس و ٹیکنا لو جی کی اجا راداری ہے اور یہ آپ دیکھئے گا کل بھی ہوتی رہے گی!!!!سائنس و ٹیکنا لو جی کی ملو کیت اس آواز کو روک نہیں سکتی کیو نکہ ہر لمحے،ہر پل یہ آواز اُبھر رہی ہے دنیا کی یہ واحد آواز ہے جوبِنا کسی وقفے کے دنیا کے مختلف مقامات سے گونج رہی ہو تی ہے!

چاہے وہ عرب ہو یا یورپ۔سائنس وٹیکنا لوجی اب کس کس کو نے میں نقب لگائے گی ۔جہاں تک بات سائنس وٹیکنا لوجی کی حیرت انگیز ترقی کی ہے توصاحب!ایسی ترقی کا کیا فائدہ جو انسان کے ایمان کو گمراہ کردے اللہ اکبر عربی لفظ ہے اس کا اردو تر جمہ یوں ہو گا”اللہ سب سے بڑا ہے“کیاسائنس کا علم اللہ کے علم سے اعلیٰ ہے؟کیا سائنس اور ٹیکنا لوجی کی طا قت ،اللہ رب العزت کی طا قت سے زیادہ طاقتور ہے؟؟افسوس صد افسوس!اللہ کی بڑائی کرنے کے بجائے ہم انسان،اپنے علم کی کی بڑائی کے گھمنڈ میںپڑے ہیں!!سائنس اگر آج کچھ بھی ہے اس کے پاس جتنی معلومات جو نظریات ہیںوہ سا ئنسدانوں نے قرآن اور اسلام کے مطالعے سے حا صل کئے ہیں اور بڑے بڑے سا ئنسدان ما نتے ہیں کہ ہماراعلم اور ٹیکنا لوجی ایک حد کے بعد کا م نہیں کرتی!

بس جب انسان کے مزاج وعقل میںخلل پیدا ہو جاتا ہے تووہ ایسا ہی کہتا ہے جیسا بشیربلور صاحب نے کہا۔ایک طرف ہم دہشتگردی،تعصب اور اقتصادی جنگ لڑ رہے ہیں دوسری طرف سیا سی بصیرت کا یہ عا لم ہے!اسلام آپ کو یا مجھے سا ئنسی ،فنی،تیکنیکی اورمادی ترقی کرنے سے منع نہیں کرتابشر طیکہ آپ اصلیت،حقیقت اور روحا نیت کی نفی نا کریں اللہ تعالیٰ قرآن ِپاک میں بار بارانسان کو تحیقیق اور کا ئنات پر غوروفکر کی دعوت دیتا ہے کا ئنات کے سر بستہ رازوں سے واقفیت کی ترغیب دیتا ہے لیکن ساتھ ساتھ واضع الفاظ میں کہتا ہے کہ الہامی علم بر تر ہے سائنس وٹیکنا لوجی اگر کسی طرح الہامی علم سے متضاد ہو تووہ قطعاََنا قابلِ قبول ہے یہی وجہ ہے آج تک سائنس سرگرداں ہے کہ زمین پر زندگی کی ابتداءکس طرح ہوئی؟ڈارون اور لیمارک نے سائنسی منطق میں جواب بھی دیا لیکن عقل نہیں مانتی خود سا ئنس کو شک رہتا ہے تبھی یہ جستجو میں لگی رہتی ہے ۔

اسلام توخود سائنس ہے لیکن اسلام مادی تسخیرکے ساتھ روحا نی تعمیر کی سائنس ہےاسلام مادیت اور روحا نیت کے درمیان توازن کا نام ہے جسم اگر مادہ ہے تو روح احساس،اگر جسم اور روح کے درمیان ہم آہنگی نا ہو توانسان مسلسل کشمکش میں رہتا ہے۔ہمیں سائنس وٹیکنالوجی ،مشینوں اور نت نئی ایجا دات کے سحرنے فطرت کے مطا لعے ومشا ہدے سے بیگا نہ کر دیا ہے یہاں تک کہ ہم اس ٹیکنا لوجی کے سیراب میں اپنی عقل ودانش،سوجھ بوجھ استعمال کر نے سے بھی اپاہج ہوگئے ہیںپا کستان ابھی سائنسی ترقی میں اتنا آگے نہیں بڑھا تو ےہ حال ہے کہیں ےورپ جتنی ترقی کر لی تو ہمارے ہا ں تو آج اللہ اکبرکے دور کے خاتمہ کی آواز اٹھی ہے پھر ناجانے ایمان کا کیا ہو!سا ئنس وٹیکنا لوجی نے انسان کو نفس کا غلام بنا چھوڑا ہے اور نفس سے بڑادشمن ہو سکتا ہے۔اسلام آپ کو ماڈرن ہونے سے نہیں روکتا ناہی یہ تحقیق کی راہ میں مانع ہوتا ہے بشرطیکہ آپ اندھے یا بے ڈھنگے نا ہوں مجھے ہے حکمِ اذاں لا ا لہ الا اللہ۔۔۔! (ختم شد)اللہ آپ سب کا حا می و نا صرہو!
Sumaira Malik
About the Author: Sumaira Malik Read More Articles by Sumaira Malik: 24 Articles with 28581 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.