اُس نے ہاتھ میں کتبہ لیا ، گھر
سے نکلی،تیز بہت تیز دنیا کی رواں دواں سڑکوں کے کناروںسے ہوتی ہوئی ایک
وسیع عریض شاہراہ کے چوک پرجا کر کھڑی ہو گئی،اس کی آنکھیں رات بھر رونے سے
سرخ ہوچکی تھیں،دل اُداس تھا،دماغ غم ناک سوچوں میں گم تھا،اِس لمحے اس نے
اپنے کمزور ہاتھوں سے کتبے کو فضاء میں بلند کیا اور دنیا کے سنگ دِل
انسانوں کے سامنے یکم مارچ کو اپنا گردہ فروخت کرنے کا اعلان کر دیا کیوں
کہ اِس وقت اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا ، وہ
سمجھتی تھی کہ” میرے پاپا “کے بنا جینا مرنے سے بہتر نہیں ہے،اس کا باپ
گزشتہ 6ماہ سے دیار غیر میں اپنے باقی 21 ساتھیوں کے ساتھ قید و بند کی
صعوبتیں برداشت کر رہا تھا،جانی دشمنوں نے اس کے باپ کی گردن پر موت کا
خنجر رکھ دیا تھا،اِن کا مطالبہ تھا کہ وہ 40لاکھ ڈالرز ”تاوان “ منگوائیں
ورنہ سب کو ایک ایک کرکے قتل کردیا جائے گا، لیلیٰ کے لیے اتنی بڑی رقم کے
بارے میںسوچنا بھی محال تھا، وہ تواس عمر میں ”اپنے پاپا“ سے چند روپے لے
کر خوش ہوجاتی تھی،بہر حال اس کی معصوم دعائیں رنگ لے آئیں اور صومالی
قزاقوں نے تاوان کی رقم 40 لاکھ ڈالرز سے کم کرکے 21لاکھ ڈالرز کردی،یوں
اُس نے” اپنے پاپا“ کی رہائی کے لیے ایک انوکھا طریقہ اختیار کیا اس نے
فیصلہ کیا کہ وہ اپنا گردہ فروخت کرکے اس کی رقم” اپنے پاپا“ کی رہائی کے
لیے خرچ کرے گی،اس نے یہ فیصلہ کیا اور ایک کتبے پر اپنا پیغام”گردہ برائے
فروخت“ درج کرکے سفرتیز منزل نظریںخدا کے حضور اُٹھادیں ،ایک تیز چلتی
انجان دنیا کے بازار میں اس نے معصوم تمناﺅں سے خدا کے حضورنظریں اُٹھا کے
صدا کی کہ دنیا والوں! میں اُس بدنصیب باپ کی مجبور اور بے بس بیٹی ہوں جس
کوصومالی قزاقوں نے بحرعدن میں یرغمال بنا رکھا ہے،انہوںنے اس قافلے کی
رہائی کے لیے 21لاکھ ڈالرز تاوان کی رقم کا مطالبہ کیا ہے،جبکہ میرے پاس
اِس رقم کے انتظام کے لیے خدا کی آس اور اپنا گردہ فروخت کرنے کے سوا کچھ
بھی نہیں ہے اور میں واضح الفاظ میں آپ سے یہ بھی کہہ دیتی ہوں کہ شاید میں
اِس دنیا میں آپ لوگوں کے احسان کا بدلہ بھی نہ دے سکوں گی،اس کے باوجود
اگرکوئی زندہ دل انسان اس دنیا میں موجودہے تو وہ سن لے کہ آج میر ی سالگرہ
ہے اور میں اِس کو اُس دن تک کے لیے موخر کرتی ہوں،جس دن خدا آپ لوگوں کے
وسیلہ سے مجھے” میرے پاپا “لوٹادیں گے،ناجانے لیلیٰ کی دعا ﺅں میں کس قدر
اثر تھا کہ خدا نے اس دن اُس کی دعاکو سن لیا،اچانک تاریک رات کے جانے اور
روشن صبح کے طلوع ہونے کے واضع اثرات نظر آنے لگے ،پروردگار نے اُ س کے اِس
کتبے کے دنوں اطراف پراَیسے زندہ دل ستون کھڑے کردئیے کہ جنہوں نے ناصرف
نااُمید ی کو اُمید کی کرن میں بدل دیا بلکہ موت سے زندگی بھی چُرا کر لے
آئے۔
کہتے ہیں کہ جیبوتی کے بحری قزاق اپنے ملک صومالیہ کی قومی آمدن کا
157فیصدسے زائدکا حصہ ہیں یعنی ہر فرد سالانہ اپنے اس پیشے سے79000ہزار
ڈالرز تک رقم کما تا ہے،اِن کاکاروبار بحرعدن سے گزرنے والے ہر جہاز کو روک
کر لنگر انداز کرنااورپھر پیچھے ملک میں رابطہ کرکے منہ مانگی رقم وصول
کرناہے ،2010میں ان لوگوں کی طرف سے ایک شپنگ کمپنی کو8ارب30کروڑ ڈالرز کا
نقصان اٹھا نا پڑا،کمپنی کے مطابق اگر 2015تک ان کونہ روکا گیا تو پھر
کمپنی کو تاوان کی ادائیگی، انشورنس کلیم ،راستوں میں جہازوں کی
تبدیلی،سٹاف کی رہائی،یرغمالیوں کی اَموات اور قزاقوں کے خلاف عدالتی
کاروائیوں کی مَد میں 15ارب ڈالرز تک کا نقصان اُٹھانا پڑے گا،اس وقت جس
سمندری حدود میں یہ کاروائی ہو رہی ہے وہاں پانی کافی گہرا ہے،اس علاقہ میں
جہازوں کی گزرگاہوں کی صرف یہی ایک لائین ہے، آس پاس بندر گاہیں بھی کافی
فاصلے پر ہیں،یہاں پر بحری فوج کا ہر وقت موجود رہنا بھی کافی مشکل ہے،اس
لیے تقربیا1500قزاق جن میں ”اَسپانسر،قزاق،اسلحہ فروخت کرنے والے، معاون
افراد، مزدور، اکاﺅنٹنٹ، منشیات کے عادی ،انجینئر ز اور کھانا فراہم کرنے
والے مقامی لوگ شامل ہیں کشتیوں پر بیٹھ کر آتے ہیں اور ہزاروں ٹن سامان سے
لدھے جہاز اغوا کرکے لے جاتے ہیں، پھر حکومتوں کو کئی ماہ تک اِن کی رہائی
کے لیے کوششیں کرنا پڑتی ہیں،اس وقت اس گروپ کی سالانہ آمدن 280ملین ہے اور
2015تک سالانہ400ملین ڈالرز کے ساتھ ساتھ 600ایسے خطرنا ک واقعات کے رونما
ءہونے کی توقع ہے جن سے دنیا ہل کر رہ جائے گی،جب تاوان کی رقم ملتی ہے تو
اس کا 50%حصہ اس کھیل میں سرمایا کاری کرنے والوں کو ملتا ہے،30%حصہ قزاقوں
کو ملتا ہے، 10% مقامی حکومت کو اور باقی 10%اس کام میں سکیورٹی مہیاکرنے
والی مقامی” ملیشیا“ کو ملتا ہے،یہ خطرناک پیشہ دن بدن ایک انڈسٹری کی شکل
اختیارکرتا جارہا ہے کیوں کہ اس کو ترقی دینے کے لیے کافی رقم خرچ کی جاتی
ہے،قزاقی کی وارداتوں میں کامیابی کی شرح 22فیصد سے 40فیصد ہے،یہ کاروائیاں
خلیج عدن سے نکلنے والے دنیا کے کل تیل کے30فیصد اور22ہزار بحری جہازوں کے
لیے خطرہ ہے۔
اس کھیل میں سرمایا کاری کرنے والے عموماً دنیا کے بڑے بڑے مجرم ہیں جو کہ
قزاقوں کو اسلحہ ، آلات، کشتیاں،چھوٹے جہاز،کھانا ،منشیات اور یہاں تک کہ
تمام قسم کے وسائل مہیا کرتے ہیں، اس میں ماہی گیر ،سیاسی شخصیات اورمقامی
لوگ بھی شامل ہیں،رقم کی ادائیگی عموماً غیر رسمی طریقہ سے ہوتی ہے،رقم
یاتو ہیلی کاپٹر کے ذریعے اغواشدہ جہاز پر گرائی جاتی ہے،یاپھر کشتیوں کے
ذریعے بیگز تبادلہ کر لیے جاتے ہیں،یا قریبی ملک ”کینیا “سے سکیورٹی کے
ساتھ کشتی کرائے پر لی جاتی ہے اور پھر رقم قزاقوں تک پہچائی جاتی ہے،آج کل
ان کی طرف سے تاوان کی کل رقم کا مطالبہ 9ملین تک ہوتا ہے،یہاں پر حیرت کی
بات یہ ہے کہ جب سے قزاقی شروع ہوئی ہے تب سے لے کر آج تک اسرائیل کا کوئی
جہاز اغوا نہیں ہوا ہے،اس سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس میں امریکہ میں موجود
اسرائیلوں کی چال ہو، ویسے گزشتہ اپرائل میں امریکی عدالت میں11قزاقوں نے
اِس وقت دنیا کو حیران کر دیا کہ جب انہوں نے یہ بیان دیا کہ ہم ”گولڈ مین“
کے ساتھ کام کرتے ہیں،ہم صرف ان جہازوں کو اغوا کرتے ہیں جن کا ”گولڈ مین“
ہمیں حکم دیتا ہے، اس میں ہمیں 30%معاوضہ ملتا ہے،اسی طرح ہم نے 2009میں
48ملین ڈالرز کمائے،یادرہے کہ بحرہند میں شکار تلاش کرنے کے لیے مقامی
قزاقوں کو 30ہزار ڈالرز اداکئے جاتے ہیں،خلیج عدن میں کاروائی کے لیے دس
ہزار ڈالرز ادا کئے جاتے ہیں،قزاق اپنے طور پر اپنی جان کی حفاظت کے لیے
10ہزار ڈالرز مقامی ”ملیشیا“ کوعلیحدہ سے ادا کرتے ہیں تاکہ کوئی قبیلہ اِن
کو مار نہ دے،ساحل سمندر کے آس پاس دیہات کو کل رقم کا پانچواں حصہ ادا کیا
جاتا ہے ، جس سے وہ اغوا شدہ جہاز کی حفاظت اورمغویوں اور قزاقوں کو کھانا
فراہم کرتے ہیں۔
27جولائی 2010کو ایم وی سوئیز جہازکراچی سے سیمنٹ کے ساتھ خلیج عدن کے لیے
روانہ ہوا،2اگست2010کو صومالی قزاقوں نے اِسے خلیج عدن میں اغوا کرلیا،جس
میں بطور عملہ 22 افراد شامل تھے،جن میں 4 پاکستانی ،6 انڈین،11مصری اور
ایک سری لنکن تھا،اس جہاز کا کیپٹن” وصی حسن “پاکستانی تھا، جی ہاں وہی”
کیپٹن وصی“ جس کی بیٹی لیلیٰ نے ”اپنے پاپا “کی رہائی کے لیے اپنا گردہ تک
سیل کرنے کا اعلان کر دیا تھا،اس اعلان کے ساتھ محبت اور اَمن کے علمبردار
جناب انصار برنی ،گورنر سند ھ عشرت العباد اور سب سے بڑھ کر پاکستان میڈیا
کھڑا ہو گیا،جنہوں نے فوراجہاز کے” کیپٹن وصی“ سے رابطہ کیا،وہاں کے حالات
معلو م کئے ،پھر تاوان کی رقم کا بندوبست کرنا شروع کر دیا،اس مہم پر
تقریبا کئی ماہ لگ گئے ، لیکن آخرکار پاکستان کے مخیر حضرات نے ایک مرتبہ
پھر یہ ثابت کر دیا کہ ہم مشکل وقت میں ایک زندہ اور متحد قوم ہیں، اس مہم
میں پاکستان نے بھارت کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی لیکن بھارت نے پہلے وعدہ
کیا لیکن عین ٹائم پر بھارت وعدہ سے راہ فرار اختیار کرگیا،بہر حال گورنر
عشرت العباد اور انصار برقی نے ARY کے ذریعے اس مہم کو مزید تیز کردیا ،آخر
کار اُس فطرت خداوندی نے وہ صبح بھی دیکھائی کہ جب 23جون کو پی این ایس
ذوالفقار 22افراد کو لے کر کراچی پہنچ گیا،جہاز کو بحری کشتیوں کے ذریعے
سلامی دی گئی،کیپٹن اپنے عملے کولے کر سرزمین پاکستان کو چھوتے ہی سجدہ ریز
ہو گیا،یہ منظر وہاں پر موجود ہزاروں لوگوں کے علاوہ میڈیاپر 18کروڑ
پاکستانیوں،انڈین ، مصری اور سری لنکا کی عوام اور دنیا بھر نے براہراست
دیکھا، آج دنیا نے دیکھ لیا کہ ہم مشکل وقت میں متحد ہیں۔ ایک طرف کے یہ
جذبات ہیں تو دوسری طرف بھارت میں”رویندر سنگھ“ کی بیوی سمپا آریا نے جو شب
مسلمانوں اور پاکستانی عوام کے لیے بولے وہ سونے کے پانی سے لکھنے کے
مترادف ہیں،”سمپا آریا“ اپنے خاوند کی رہائی پر کہتی ہیں کہ ”سچے مسلمان کی
دوستی سے بڑھ کر دنیا میں کوئی تحفہ نہیں ہے،اگر میں پاکستان پر جان بھی
دوں تو کم ہوگی،پاکستان نیوی اورانصار برنی بھارت میں لوگوں کے دلوں پر راج
کررہے ہیں،دوسروں کے دکھ جھیلنے والا بھگوان ہوتا ہے،پاکستانیوں کا احسان
کبھی نہیں بھلاﺅں گی“جی ہاں یہ وہی” سمپا آریا “ ہیں جن سےARYکے ایک
پروگرام میں” کیپٹن وصی “نے خود مصیبت میں رہتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ میں
آپ کے خاوند کو واپس ضرور لاﺅں گا اگر کسی بھارتی پر کسی نے گولی چلانے کی
کوشش کی تو سب سے پہلی گولی ”کیپٹن وصی “کھائے گا، دوسری طرف ”ایم کے شرما
جی “بھی کہہ اُٹھے کہ بھارتیوں! پاکستانیوں کی طرح اپنے دل بناﺅ، جو اپنے
ساتھ ساتھ دوسرو ں کے لیے بھی دھڑکتے ہیں۔
لیلیٰ نے ”اپنے پاپا“ کی کراچی آمد سے چند دن قبل ARYکے نیوز چینل پر”انصار
برنی “کے ساتھ ایک پروگرام میں شریک تھی جس میں اسے پہلی مرتبہ” پاپا“ سے
فون پر بات کرائی گئی، اس نے” اپنے پاپا“ کا حال دریافت کیا ،حوصلہ دیتے
ہوئے چند شب بولے”پاپا آپ ہمت مت ہار نا ،آپ ضرور آﺅ گے“باپ کی محبت سے
لبریز جندڑی آنکھوں سے آنسو کی شکل میں بہہ گئی،معصوم دلوں کی یہ نایاب
پیاری بچی روپڑی اس منظر کو ساری دنیا نے Liveدیکھا، جس دن اس کے پاپا
کراچی پہنچے وہ اپنے پاپا کو دیکھتے ہی گلے ملنے کے لیے بغل گیر
ہوگئی،جذبات ِپدری بھی قابو میں نہ رہ سکے اور دونوں باپ بیٹی خدا کے حضور
اس نئی زندگی پر دل کھول کر روئے،یہ منظر بھی ساری دنیا نے Live دیکھا،پھر
گورنر سندھ کے ہاتھوں سے گلدستہ وصول کرنے کی باری آئی تو” کیپٹن وصی “نے
یہ اعزاز اپنی بوڑھی ماں کو دیا اور خود ایک مرتبہ پھر نئے عزم کا اعیادہ
کیا کہ میں پاکستانی ہوں ، ہمت نہیں ہاروں گا،ایک مرتبہ پھر اپنے فرائض
منصبی کی تکمیل کے لیے تیار ہوں، مصیبت کی اس گھڑی سے ابھی مکمل طور پر
نکلنے ہی تھے کہ ایک مر تبہ پھر سے اس نئے عزم کو بھی ساری دنیا نے
Liveدیکھا ،اس اعزاز کی اصل حقدار تو خدا کی ذات ہے جس نے ہمیں یہ فخر دیا
ہے،لیکن پھر بھی یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ہم وہ قوم ہیں جو موت کے منہ میں
کھڑے ہوکر بھی کبھی ہمت نہیں ہارتے ، ہم ایک معصوم بچی کی فریاد پربھی جمع
ہوجاتے ہیں، نیکی کے کاموں میں اپنی مثال آپ بننے والے ہمارے پاس آج بھی
عبدالستار ایدھی، انصار برنی ،ڈاکٹر عشرت العباد اور شہباز شریف جیسے عظیم
لوگوں بھی موجود ہیں،میں آخر میں لیلیٰ بیٹی کی ہمت پر داد دئیے بغیر نہیں
رہ سکتا کہ جس نے پوری قوم کو ایک مرتبہ پھر اپنا بھولا ہو ا” اتحاد اور
امن “کا سبق یاد دِیلا دیا ہے،اس پر بیٹی لیلیٰ ناچیز کا تجھے سلام ہو۔ |