قدرت نے اس زمین کی افزائش اور پھر اس کو بہتر
انداز میں چلانے کے لیے مختلف افراد پر ان کی صلاحیتوں کے مطابق ذمہ داریوں
کا بوجھ ڈالا اور یوں دنیا میں پہلی بارحاکم اور محکوم، آ قا اور غلام کا
تعلق متعارف ہوا ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی کی اس دوڑ میں کسی نے آگے نکل
جانا ہے اور کسی نے پیچھے رہ جانا ہے مگر ماہرین نے کاروبار زندگی میں پسے،
بجھے ،بے توقیر، بے شعور، ستائے اور ٹھکرائے لوگوں کی شنوائی کے لیے ایک
ایسا گروہ ضروری قرار دیا ہے جو ساری مظلوم مخلوق کو اپنا کندھا پیش کرے کہ
جس پر وہ سر رکھ کر اپنے غموں سے نجات پا سکیں اورایسا کندھا صرف اہل
اقتدار اور صاحب ثروت لوگوں کا ہوسکتا ہے۔ اہل اقتدار کواس شاندار کردار کے
لیے صرف اس لیے منتخب کیا گیا ہے کیونکہ اُن کے پاس اختیارات ہوتے
ہیں،وسائل ہوتے ہیں اور طاقت ہوتی ہے اسی وجہ سے اس گروہ کو عام آدمی کی
نسبت دنیاوی مصائب کا کم سامنا کرنا پڑتا ہے۔مہذب معاشروں میں اس بات کا
خیال رکھا گیا ہے کہ دولت چند ہاتھوں تک محدود نہ رہے بلکہ معاشرے میں بسنے
والے سب لوگوں کے لیے آگے بڑھنے کے مساوی مواقع میسر ہو، حقوق و فرائض کی
پاسداری ہواور آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن نہ ہو۔ اگر ہم غور کریں تو
ہمیں اس سوچ کے پیچھے ’’ترقی کے مواقع ،سب کے لیے ‘‘کی مثبت سوچ اور فکر
پوشیدہ نظر آئے گی۔ جب برصغیر میں برطانو ی سامراج حکومت کرنے آیا تھا تو
انھوں نے اس خطہ میں اپنی حاکمیت اور بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے اور
انگریز افسروں کا رُعب عوام میں قائم کرنے کے لیے مختلف قوانین اور حربے
استعمال کیے ۔انگریزوں نے پاک و ہند پر حکمرانی کے لیے ہمیشہ گورے افسروں
اور کالے فرمانبردار ماتحتوں کو اعلیٰ درجے پر رکھا اور اُن کے مقابلے میں
عام عوام کو کیڑے مکوڑوں کی سی حیثیت دی ۔ان گورے اور ذہنی غلام کالے
فرمانبردار افسروں کو اتنے اختیارات دئیے گئے کہ وہ سیاہ و سفید کے مالک بن
بیٹھے جبکہ وسری طرف غریب عوام افسران کے در کے غلام بن گئے۔افسوس کی بات
یہ ہے کہ ستر سال کی آزادی کے بعد بھی ہمارے سیاسی حکمران اور سرکاری
بیوروکریسی اپنے آپ کو اب بھی گورے افسر کا کالا ماتحت سمجھتے ہیں اور اس
غلامی پر فخرمحسوس کرتے ہیں۔
نکلی نہیں ذہنوں سے ابھی خوئے غلامی
آزاد وطن، اتنا بھی آزاد نہیں ہے
ہاں!آزادی کے بعد ایک بات کافرقضرور پڑا کہ ان کالے ماتحتوں پر عوام کو
بہلانے کی اضافی ذمہ داری بھی ڈال دی گئی ہے ۔یہ سرکاری اشرافیہ مگر
درحقیقت بدمعاشیہ ،حسین اور دل فریب عوامی منصوبوں کا اعلان کرتی ہے جس کا
مقصد بھولی بھالی عوام کو بے وقوف بنانا اور ترقیاتی فنڈ کی مد میں ملنے
والے پیسے کو ہضم کرنا ہوتا ہے جبکہ ان کے دوسرے بھائی بند یعنی حکمران
گروہ بھی مختلف اوقات میں اپنی شعبدہ بازیوں کا کرتب دکھاتا رہتا ہے۔کبھی
وہ پیلی ٹیکسی کا نعرہ لگاتا ہے،کبھی وہ’’ قرض اُتارو،ملک سنوارو‘‘ کی
دہائی دیتا ہے،پھر ’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ کا ڈول بجنے لگتا ہے اور
پھراچانک ایک نئی میوزیکل چیئر ’’دانش سکولز‘‘ کے نام سے کھیلی جاتی ہے۔
نئے دور کے نئے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے معاشرے کو ’’صاف پانی‘‘ اور
’’مار نہیں پیار‘‘سے غسل دیا جاتا ہے پھرعدلیہ جرات کا مظاہرہ کرتی ہے تو
بھاشا ڈیم کی تعمیرپر بات شروع ہو جاتی ہے۔حکومت کی غیر ملکی موبائل
کمپنیوں کے ساتھ ملی بھگت سامنے آنے پر سو(100) کے لوڈ پر پورے سو کا بیلنس
ملنا شروع ہو جاتا ہے۔شرجیل میمن کی شراب کی بوتل ہو یا علی امین گنڈاپور
کی شہد کی بوتلیں،خوب شور مچتا ہے۔اچانک منظر نامہ بدلتا ہے اورنئے پاکستان
میں ’’پناہ گاہ‘‘،احساس پروگرام‘‘۔’’اب کوئی بھوکا نہیں سوئے گا‘‘،صحت
کارڈ‘‘ کی سرخی پاؤڈر لگا کر چینی،آٹے اور تیل کو عوام کی پہنچ سے دور کر
دیا جاتا ہے چنانچہ رزلٹ وہی ’’صفر‘‘ ہی رہتا ہے۔بظاہر دلفریب اور خوش کُن
نظر آنے والے اقدامات میں کسی کو فکر نہیں تو صرف بندہ مزدور کی زندگی
کی۔ماضی کی حکومتیں اور موجودہ حکومت سب اپنی ریٹنگ بڑھا نے میں مصروف جبکہ
ہمیں اس منظر نامہ میں مزدور کی زندگی بے یارومددگار نظر آتی ہے۔اُس بچارے
کے وہی ہیں اوقات کار اور سامنے کھڑے وہی ہیں ساہوکار۔ عام مزدور کو حکمران
لوگوں کی تعفن زدہ ذہنیت سے کسی قسم کی کوئی سہولت میسر نہیں ہورہی حالانکہ
حکومتی محکمے بے شمار ہیں جو کہلاتے خُدائی خدمت گار ہیں مگر عملی طور پر
زنگ آلودہ اور جمودی نظام کے شکار ہیں۔ یکم مئی’’مزدوروں کے دن‘‘ کی نسبت
سے منایا جانے والا عالمی دن ہے۔اس دن مختلف تقریبات میں ساری دنیا کے
مزدوروں کی محنت اور مشقت کو اُن کی مشکلات اور مجبوریوں کے ساتھ خوبصورتی
کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور اس بات کو باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہر
معاشرے کی ترقی کا بنیادی رُکن ایک مزدور ہے اوراگر مزدورکام کرنا بند کر
دے تو دنیا میں ترقی کا چلتا پہیہ رُک جائے ۔خوبصورت الفاظ میں مزدور کی
اہمیت کو آشکار کیا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ مزدور کے استحصال پربھی بات کی
جاتی ہے اور ایسے اقدامات اُٹھائے جانے پر زور دیا جاتا ہے جن کی بنیاد پر
اس طبقے کو انصاف اور بہتر معیار زندگی فراہم کیا جا سکے۔مزے کی بات یہ ہے
کہ اس عالمی دن پر مختلف فنکشنز اور اجلاسوں میں مزدور کی اہمیت اور روشن
کردار پر بات چیت کرنے والے اور پھر ان کی مشکلات کا حل بتانے والے وہی
سرمایہ دار اور کاروباری لوگ ہوتے ہیں جو دراصل اس طبقے کی تمام ترمحرومیوں
کے براہ راست ذمہ دار بھی ہیں۔اگرچہ مزدور طبقہ کی اشک شوئی کے لیے ملک میں
لیبرقوانین تو موجود ہیں مگر افسوس ان پر عملدرآمد کی نوبت کبھی نہیں آتی
اور اگر کبھی مزدور تنظیمیں عدالت کا سہارا لیں توبڑے سرمایہ دار قانونی
موشگافیوں سے بآسانی مستفید ہو جاتے ہیں جبکہ غریب مزدورقانونی لڑائی لڑنا
تو بہت دور کی بات ہے ، اپنے پیٹ کے جنجھٹ اور دو وقت کی روٹی کی آس سے ہی
چھٹکار ہ حاصل نہیں کر پاتا اور جلد ہی عدالت سے منہ موڑ لیتا ہے۔دہائیوں
پہلے بوتل سے نکلے مہنگائی کے جن نے غریب اور محنت کش طبقے کو چاروں شانے
چت کیا ہوا ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ حکومتی ادارے مزدور طبقہ کی
دُہائیاں بھی نہیں سن رہے۔روزی روٹی کے چکر میں شب و روز گزارنے والا مزدور
اگر بچوں کی صحت پر توجہ دے تو پھر تعلیم کو خدا حافظ کہنا پڑتا ہے،تعلیم
کو ترجیح دیتا ہے تو تفریح کو خیر آباد کہنا پڑتا ہے۔تفریح کا سوچیں تو پھر
خوراک پر سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں غرضیکہ کسی ایک بھی بنیادی سہولت کی مکمل
دستیابی ممکن نظر نہیں آتی جبکہ پاسداران وطن اور مدینہ کی ریاست کے حکمران
کا دعویٰ ہے کہ بنیادی انسانی سہولیات کا سرکاری سرپرستی میں پورے ملک میں
جال بچھا دیا گیا ہے مگر حقیقت میں اس دعویٰ کی نامناسب منصوبہ بندی قیمتی
ملکی وسائل کے بے دریغ ضیاع کا سبب بن رہی ہے اور مزدور کی ازلی بدحالی جو
ں کی توں ہے اور اسی خوشی میں ہم ہر سال یکم مئی کو اپنے مزدور بھائیوں کو
خراج تحسین پیش کرتے ھیں۔یعنی صرف نعروں کی حد تک مزدور کے لیے سہولیات کی
دستیابی ہے۔
ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
۔۔۔دن آجاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی
اے وقت کے فرعونوں ،اے وقت کے نمرودں،اے وقت کے قارونوں! اب بھی وقت ہے کہ
تم سنبھل جاؤ اور اپنے آپ کواﷲ کی گرفت سے بچا لو۔اپنے آرام و آسائش کو
بھول جا ؤ اور مخلوق کی خدمت میں گم ہو جاؤ۔اے کاش کہ ارباب اقتدار کی نگاہ
د لفریب اپنے محلات شاہی کی اُونچی دیواروں کے سائے تلے آباد بے چراغ
جھونپڑوں کی طرف اُٹھے۔کاش وہ بڑے بڑے ہسپتالوں کے دروازوں اور دالانوں میں
سسک سسک کر مرنے والے بے علاج مریضوں کودیکھیں ،کاش وہ کیک اور پیزوں سے
سیر ہونے والے امیروں کے ساتھ ساتھ سادہ روٹی کو ترستے ناداراور مفلس
انسانوں کو دیکھیں،کاش وہ بڑے شہروں میں فٹ پاتھوں اور گلیوں میں بے
سروسامانی ،بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بنے مدہوش،مادر زاد ننگے اور بے
گھر لوگوں کو دیکھیں،کاش وہ کرپشن زدہ سوسائٹی کے ٹھکرائے اور ستائے ہوئے
حقداروں کے خودکشی کی طرف بڑھتے ہوئے رُجحان کو دیکھیں،کاش وہ اخلاقیات سے
عاری معاشرے ،قانون شکنی،بے راہروی کے اسباب کو دیکھیں،کاش وہ کارخانوں میں
کام کرنے والی بے سہارا اور ضرورت مند عورتوں اور جوان بچیوں کو دیکھیں،کاش
وہ اُن مجبور عورتوں اور بچیوں کی طرف اُٹھتی بھوکی،ننگی اور ہوس آلودہ
نگاہوں کو دیکھیں،کاش وہ ٹھیکیدارانہ اور سامراجی نظام میں پلنے والے کمسن
اور غریب بچوں کو بھی دیکھیں جو تلاش رزق کی خاطربچپن میں ہی آغوش شفقت سے
محروم ہوگئے۔
۔۔۔ افلاس کی بستی میں ذرا جا کر تو دیکھو
وہاں بچے تو ہوتے ہیں مگر بچپن نہیں ہوتا
اقتدار کے بھوکے لوگو! ۔کاش تم سمجھوکس قدر خوفناک ہیں سورج کی روشنی کو
گرفتار کرنے والوں کے دلوں کی گھناؤنی تاریکیاں اور اُن کی یہ غلط فہمی کہ
وہ اپنی زندگی کوآسان بنانے اور اپنے مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوگئے
ہیں ۔ہائے افسوس! کس قدر عظیم دھوکہ ہے جس میں یہ حضرات مبتلا ہیں۔
اس فریب رنگ و بُو کوگلستان سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
سوچنے کی بات ہے کہ کیایکم مئی کو منعقد ہونے والی مجالس، جلسے، میٹنگز اور
ورکشاپس سب ایسے ہی چلتی رہیں گی جیسے پہلے چل رہی ہیں؟ اگر ایسا ہی رہا تو
مزدور کے گھر کا چولہا بھی روزانہ مفلس کے چراغ کی طرح جلتا بجھتا رہے گا
اور اُس کے نصیب میں بڑی تبدیلی نہ آئے گی۔اگر آج ہم سب عہد کریں کہ نبی
پاکﷺ کے فرمان ’’مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کی
جائے‘‘ پر پوری ایمان داری سے عمل کریں گے تو پھر ممکن ہے کہ یہ محروم طبقہ
بھی معاشرے کی بہتری میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکے۔اﷲ ہمارے ارباب اختیار
کو صراط مستقیم پر چلنا نصیب فرمائے۔آمین |