ماواں ٹھنڈیاں چھاواں

مدر ڈے ہر سال مئی کے دوسرے اتوار منایا جاتا ہے،اس بار یہ دن عالمی سطح پر 9مئی کو منایا جارہا ہے ۔مغربی معاشرے میں تو شاید سال میں ایک ہی بار ماؤں کو یاد کیا جاتا ہے لیکن ہم جس مشرقی معاشرے کا حصہ ہیں ،اس میں ماں کی محبت اور یادوں کو کسی بھی لمحے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ میرا عالم تو یہ ہے کہ میں جب بھی ماں کا ذکر کرتا ہو ں تو مجھ سے پہلے میری آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں ۔مائیں تو سبھی عظیم ہوتی ہیں لیکن میری ماں مجھے سب سے عظیم دکھائی دیتی ہے ۔میں نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو خودکو ماں کی آغوش میں سمٹاہوا پایا ۔ وہ مجھے لوریاں سنا کر سلا دیتی تھیں، جیسے ہی مجھے بھوک ستاتی تو میں رو کر اس کا اظہار کرتا اس کے باوجود کہ مجھے اپنی بات سمجھانا ابھی نہیں آتا تھا لیکن ماں میری خواہشات کو بن کہے سمجھ لیتیں ،جب وہ پیارسے مجھے اپنے دامن میں سمیٹتی تو میں اپنے دکھ بھول جاتا ، ماں کے جسم کی خوشبو آج بھی میں اپنے اردگرد محسوس کرتا ہوں ، جب مجھ سے چھوٹی بہن نصرت دنیا میں آئی تو اس نے میری جگہ لے لی ، میرے ننھے دماغ کے لیے یہ پہلا صدمہ تھا ، چھوٹی بہن کی وجہ سے مجھے ماں کے پاس سے اٹھا کر باپ کے ساتھ لیٹا دیا گیا۔ مجھے بعد میں یہ بتایا کہ میں کئی کئی راتیں سو نہ سکا تھا، پھر میں نے حالات سے سمجھوتہ کرلیا اور باپ کی آغوش میں سونا شروع کردیا ۔جب ہمارا خاندان قلعہ ستار شاہ کے ریلوے کوارٹروں میں مقیم تھا ،توچھوٹی بہن نصرت ایک دن بیمار ہوئی اور چند دنوں بعد اﷲ کو پیاری ہوگئی ۔اس کے کچھ ہی دنوں بعد والد صاحب کا تبادلہ واں رادھا رام ( حبیب آباد) ہو گیاجہاں پہنچ کر میں چارسال کا ہوچکا تھا، یہی پر میں نے سکول جانا شروع کیا ۔ ایک دن سکول ماسٹر صاحب کی آنکھ سوجھی ہوئی تھی ، میں نے گھر آکر والدہ کو نقل کرکے بتایا کہ ماسٹر صاحب کی آنکھ اس طرح سوجھی ہوئی تھی ، ابھی اس بات کو چند گھنٹے ہی گزرے ہونگے کہ میری دونوں آنکھیں اسی طرح سوجھ گئیں ۔کوشش کے باوجود مجھے کچھ دکھا ئی نہ دے رہا تھا ۔ والدہ نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا ،بڑوں کی نقل نہیں اتارنی چاہیئے تم سے جو غلطی ہوئی ، اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا،اس لمحے ماں پریشان بھی تھی اور مجھے بھی نصیحتیں کررہی تھی ۔شام ڈھلے جب والد صاحب ڈیوٹی ختم کرکے واپس آئے تو انہوں نے اپنے لاڈلے کا حال دیکھا تو وہ بھی تڑپ اٹھے ،اسی وقت مجھے لے کر ساہی وال جانے والی پسنجر ٹرین کا پلیٹ فارم پربیٹھ کر انتظار کرنے لگے ،ان کو اس بات کی بھی پریشانی تھی کہ اگر گاڑی مزید لیٹ ہوگئی تو حکیم کی دکان بند نہ ہوجائے ، بہرکیف سردیوں کی شام،سردی میں ٹھٹھرکر ہم رینالہ خورد جب پہنچے توحکیم دکان بند کرہی رہا تھا ، والد صاحب نے منت سماجت کرکے اسے میری آنکھ کا علاج کرنے پر آمادہ کیا ۔میری خوش قسمتی کہ اس کی دوائی سے میری آنکھیں ایک دو دن میں ٹھیک ہوگئیں ۔اس کے بعد ماں کی نصیحت میں نے پلے باندھ لی کہ آئندہ کسی کی نقل نہیں اتاروں گا۔یہ وہ دن تھے جب آٹا پیسنے والی چکی تو شہر میں موجود تھی لیکن پیسائی کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے گھر میں سہ پہر کے وقت میں اور میری ماں دونوں مل کر ہاتھ سے چلنے والی چکی پر روزانہ کا آٹا پیسا کرتے تھے ،ایک ہاتھ ماں کا اور ایک ہاتھ میرا ۔تب چکی کا بھاری بھرکم پتھرگھومتا تھا ۔سردی سے بچانے کے لیے ماں مجھے دو دو کرتے اور دو دو پاجامے پہنا دیتیں ۔جب ماں مٹی کے چولہے پر روٹیاں پکاکر توے کو الٹا کرکے رکھتیں تو سرخ ستاروں کی ایک بارات توے کے پیچھے جگمگانے لگتی ۔جھلمل کرتے ستارے رقص کرتے دکھائی دیتے تو ماں کہتی یہ میرے اسلم کی بارات جا رہی ہے ۔میں اس وقت اتنا چھوٹا تھا کہ ماں کی بات سمجھ نہیں سکتا تھا لیکن ماں کے چہرے پر خوشی کے آثار دیکھ کر میں بھی خوش ہو جاتا ۔پھر وہ لمحات بھی مجھے نہیں بھولتے جب ہم سب بھائی ماں کے ساتھ ٹرین پر سوار ہوکر نانی کے گھر عارف والا جایا کرتے تھے، ماں اور باپ کے بعد اگر میں کسی رشتے کو سب سے زیادہ پیار کرتا ہوں تو وہ رشتہ میری نانی کاتھا ، ٹرین پر سوار ہوتے ہی ہماری دلی کیفیات بدل جاتیں ،ہم جلد سے جلد نانی کے گھر پہنچ جانا چاہتے تھے ، جب گاڑی عارف والا پہنچ جاتی تو ماں شٹل کاک جیسا سفید برقعہ پہنے آگے آگے چلتیں اور ہم اپنے سرپر کپڑوں کی گٹھڑیاں اٹھائے خراما خراما نانی کے گھر کی جانب چلتے جاتے ۔جتنے دن ہم نانی کے گھر قیام پذیر رہتے ،ہماری خاطر تواضع ایسے کی جاتی جیسے ہم کسی ملک کے بادشاہ ہوں ۔نانی کے گھر رو کی کھیر کا ذائقہ آج بھی مجھے نہیں بھولا ۔جب ہم واپس آنے لگتے تو نہ جانے کتنا ہی کھانے پینے کا سامان ہمارے ساتھ باند ھ دیا جاتا ۔بچپن گزرا تو جوانی آئی ،ماں کی باتوں کو میں نے اپنی آنکھوں سے حقیقت کا روپ دھارتے دیکھا ،جوانی سے جب میں بڑھاپے کی جانب بڑھ رہا تھا تو ایک دن ماں ہمیں چھوڑ کر ایسے جہان میں جا بسیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا ۔ ماں جسمانی طورپرتو ہم سے جدا ہوگئیں لیکن ان کی باتیں ، یادیں اور خوشبوئیں آج بھی میں اپنے دامن میں محسوس کرتا ہوں ۔خدامیری ماں سمیت تمام ماؤں کو نعمتوں بھری جنت میں داخل فرمائے ۔آمین

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 663486 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.