گزشتہ ہفتے سی ایس ایس یعنی سینٹرل سپیرئیرسروسز 2021ء کے
نتائج کااعلان کردیاگیا۔نتائج کی ایک لمبی فہرست،جس میں 365 کامیاب
امیدواروں کے نام شامل تھے، سماجی رابطے کی مختلف ویب گاہوں ، اخبارات اور
فیس بک پر جا بجاسجائی گئی تھی۔ ان کامیاب امیدواروں کے عزیز واقارب، دوست
احباب اوراہل علاقہ گزشتہ ایک ہفتے سے اپنے پیاروں کی کامیابی پر بغلیں
بجاتے اورخوشی سے اچھلتے کودتے جشن مناتے ہیں اورتہنیتی پیغامات سمیٹتے چلے
جاتے ہیں۔ سی ایس ایس میں کامیاب ہونے والے امیدوار پاکستان کے مختلف
محکموں میں بحیثیت افسر فرائض سنبھالتے ہیں اوربیوروکریسی کاحصہ بنتے
ہیں،گوکہ پیمانۂ بنیادی تنخواہ کچھ زیادہ پرکشش نہیں ہوتا مگر عہدے کی شان
وشوکت اورسرکاری پروٹوکول کے جومزے ہیں وہ کسی دیگر ملازمت میں دوردورتک
نظرنہیں آتے ۔اگرچہ حالیہ دنوں میں فردوس صاحبہ نے بر سربازار ایک بڑے مجمع
کے سامنے اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ کوڈانٹ پلادی توسوشل میڈیا کے دانشور اہل
فردوس اوراہل صدف کے نام سے دوطبقوں میں بٹ گئے اورکئی دنوں تک خوب گرما
گرم بحث جاری رہی ،بہرحال جہاں عاشق صاحبہ ہوں گی،وہاں بقول دردؔ
اذیت مصیبت ملامت بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیاکیانہ دیکھا
آمدم برسرمطلب ، میں نے کامیاب امیدواروں کی فہرست پرنظرڈالی تومعلوم ہواکہ
بہت بڑی تعداد میں پنجاب کے امیدوار کامیاب قرارپائے ہیں جبکہ اس فہرست میں
خال خال دیگرصوبوں ،گلگت بلتستان اورآزادکشمیر کے امیدوار بھی نظرآتے ہیں
جوکہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔سی ایسی ایس کے حالیہ نتائج میں پختونخوا کے
تقریباً 7 فیصد امیدوار مسند ِشاہی پر براجماں ہوئے ہیں جبکہ پنجاب میں یہ
تناسب تقریباً80 فیصد ہے۔سردست میں پختونخوا کے مایوس کن نتائج اورانکی
بنیادی وجوہات پراپنا غیردانشمندانہ تبصرہ کرتاہوں ، ضروری نہیں کہ تمام
قارئین میری باتوں سے اتفاق کرے۔
سی ایس ایس امتحان میں کامیاب ہونے کے لئے ضروری ہے کہ امیدوار میں مطالعے
کا جذبہ بدرجہ ٔ اتم موجود ہواوراس نے مضبوط بنیادوں پرتعلیم حاصل کی ہو
کیونکہ یہاں امیدوار کو ہرزوایہ سے جانچاجاتاہے۔ہرمضمون میں اسکی استعداد
کا اندازہ لگایاجاتاہے اوراسکی قابلیت ، تحریروتقریراورنفسیات وغیرہ کی
بنیاد پر اسکی کامیابی یاناکامی کافیصلہ کیاجاتاہے۔انگریزی زبان پرکماحقہ
عبورنہ رکھنے کی صورت میں سی ایس ایس افسر بننے کاخواب شرمندہ ٔ تعبیر نہیں
ہوسکتا۔ ان تمام مراحل سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کے لئے ضروری ہے کہ
امیدوار باقاعدگی سے روزانہ تقریباً بارہ گھنٹے ریاضت کے ساتھ مطالعہ شروع
کرے ، مگرپھر بھی ایک شرط ضروری ہے کہ اسکی تعلیمی بنیاد مضبوط
ہو۔کمزورتعلیمی بنیاد پر سی ایس ایس امتحان میں کامیاب ہونابہت مشکل ہوتاہے۔
پختونخوا میں تعلیم کاسب سے بڑامقصد یہی سمجھاجاتاہے کہ بچہ پڑھ لکھ کر
جلدی سے کوئی روزگارحاصل کرے۔ اس سلسلے میں تمام والدین کی پہلی ترجیح اپنے
بچے کو ڈاکٹربناناہوتاہے جبکہ بچے کی نفسیات اوررجحانات اوراسکی استعداد کو
نہیں دیکھاجاتا۔اکثروالدین اپنے بچوں کوڈاکٹربنانے کے لئے انہیں نجی تعلیمی
اداروں کے سپرد کردیتے ہیں ۔ ان اداروں میں تعلیم کے معیارکاکوئی خیال نہیں
رکھاجاتا۔وہ اپنے تمام وسائل کو بروئے کارلاتے ہیں اوراپنی تمام توانائی
صرف کرتے ہیں کہ طلباء بورڈ امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرے اور انکے
ادارے کی نیک نامی ہوجائے۔وہ بچوں پر رٹا لگوالگوا کرانہیں لکیرکافقیربناتے
ہیں مگران کے اندرتخلیقی قوت پیداکرنے میں یکسرناکام رہتے ہیں۔نتیجتاً یہ
بچے آگے چل کے مقابلے کے امتحانات میں ناکام رہتے ہیں۔بہت سے اداروں کو میں
نے دیکھا ہے جہاں کتاب کی عادت تقریباً ختم ہوتی جارہی ہے اوروہ ٹیکنالوجی
کے استعمال پرزیادہ زوردیتے ہیں ۔ ایساکرکے وہ خودکو امریکہ اوریورپ کاہم
پلہ سمجھنے لگتے ہیں ، حالانکہ علم وحکمت اوردانش کاحصول کتاب کے مطالعے کے
بغیر ناممکن ہے۔میراذاتی مشاہدہ ہے کہ پنجاب کے لوگ کتاب سے بہت محبت کرتے
ہیں اوروہ ریاضت کی حد تک کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ہمارے یہاں بچوں کی
تربیت کافقدان ہے۔بچوں میں سادگی، مطالعے کاشوق، محنت کاجذبہ اورتخلیقی
صلاحیت پیداکرنے سے کہیں زیادہ نمودونمائش کارجحان ہوتاہے۔نجی تعلیمی ادارے
دوردراز سے چند اعلیٰ درجے کے ذہین طلباء جمع کرکے انہیں بغیر فیس کے
پڑھاتے ہیں اور یہی طلباء انکی توجہ کامرکزہوتے ہیں کیونکہ آگے چل کریہی
چند منظور ِ نظر طلباء انکے ادارکے کی ساکھ بلند کرتے ہیں۔ اس وجہ سے
پختونخوا میں یہ رجحان عام ہے کہ سرکاری اداروں کے نتائج کمزورہوتے ہیں
اورلوگ دھڑادھڑ اپنے بچو ں کونجی تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں۔نتیجتاً
سرکاری تعلیمی اداروں میں انتہائی غریب اورتعلیمی لحاظ سے کمزورطلباء آتے
ہیں، جنکے نتائج ہمیشہ مایوس کن ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف پنجاب میں سرکاری
تعلیمی اداروں کی کارکردگی بہت اچھی ہے۔جہاں اداروں میں ذہین اورمحنتی
طلباء آتے ہیں تواساتذہ بھی بڑے شوق سے پڑھاتے ہیں اورتعلیم
کامعیاربلندہوتاہے۔مگربدقسمتی سے ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں میں ایسے
طلباء آتے ہیں جنہیں پڑھنے سے اورعلم حاصل کرنے سے کوئی سروکارنہیں
ہوتااوریہی وجہ ہے کہ یہاں اساتذہ میں بھی وہ جذبہ نہیں ہوتاجوجوہرقابل
پیداکردیتے ہیں۔ پختون قوم میں علم وہنر کاجذبہ ماندپڑتاچلاجاتاہے
اورنمودونمائش اورحسد پروان چڑھتاہے۔نتیجتاً یہاں آئے دن خون کی ندیاں بہتی
چلی جاتی ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر عداوتوں کانہ رکنے والاسلسلہ شروع
ہوتاہے اورکئی کئی نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ یہ تمام قباحتیں تعلیم کی کمی
کانتیجہ ہے ، اگرچہ ادارے موجودہیں، درس وتدریس کاعمل جاری ہے ، ڈگری یافتہ
افرادبڑھتے ہیں، مگر تعلیم اورشعورکم ہوتاچلاجاتاہے اوراس کاثبوت سی ایسی
ایسی کے حالیہ نتائج ہیں۔
|