عالمی یوم کتاب
(shabbir Ibne Adil, Karachi)
تحریر: شبیر ابن عادل عالمی یوم کتاب ہر سال 23 اپریل کواقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے تحت منایا جاتا ہے، جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر عوام میں کتب بینی کا فروغ ، اشاعتِ کتب اور اس کے حقوق کے بارے میں شعور کو اجاگر کرنا ہے۔ اس دن کو منانے کی ابتدا 1995 میں ہوئی ۔ کتابوں کے عالمی دن کا منانے کا مقصد اس دن کی اہمیت کے بارے میں دُنیا کو آگاہ کرنا ہے۔ یوں تو دُنیا کے اکثر ممالک میں کتابوں کا عالمی دن 23 اپریل کو منایا جاتا ہے لیکن برطانیہ اور امریکہ میں کتابوں کا عالمی دن 4 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ تاریخی لحاظ سے اس دن کی شروعات کچھ اس طرح ہوئی کہ 1616ء میں اسپین کے شمال مشرق میں واقع علاقہ کیٹولینیا میں ہر سال 23 اپریل کو جہاں کے مرد اپنی عزیزخواتین اور لڑکیوں کو گلاب کے پھول پیش کرتے تھے اور اس روایت میں دنیا بھر سے خصوصاً یورپ سے لاکھوں کی تعدا د میں مرد وزن اور لڑکے لڑکیاں کیٹولینیا جاتے ہیں اور یہ سلسلہ دو دن جاری رہتا ہے۔ اس دوران جگہ جگہ مشہور ناول ڈان کیہوٹی کے حصے، شیکسپئر کے ڈرامے اور دوسرے مصنفین کی کتابوں کے حصے پڑھے جاتے تھے۔ لاکھوں کی تعداد میں مرد و زن اور لڑکے لڑکیاں کیٹولینیا جاتے ہیں یہ سلسلہ دو دن جاری رہتا ہے اس دوران جگہ جگہ مشہور ناول ڈان کیہوٹی کے حصے، شیکسپئر کے ڈرامے اور دوسرے مصنفین کی کتابوں کے حصے پڑھے جاتے تھے۔ پھر یہ رسم اسپین کے دوسرے علاقوں میں بھی پھیلتی گئی اور آہستہ آہستہ یہ روایت ورلڈ بک ڈے کی شکل اختیار کر گئی۔ اب کیٹولینیا میں ہر سال صرف گلابوں ہی کی نہیں کتابوں کی بھی ریکارڈ فروخت ہوتی ہے اور اس کے بعد 1995ء میں اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جنرل کونسل کا فرانس میں اجلاس ہوا تو اس نے 23 اپریل کو ’ورلڈ بک اینڈ کاپی رائٹس ڈے‘ قرار دے دیا اور اب یہ دن کتابوں اور جملہ حقوق کی حفاظت کے عالمی دن کے طور پر دُنیا کے تقریباً ایک سو ملکوں میں منایا جانے لگا۔ اس میں ایک اور اضافہ یہ کیا گیا ہے کہ رواں صدی کے آغاز سے کسی ایک شہر کو کتابوں کا عالمی دارالحکومت بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سنہ 2001ء میں میڈرڈ تھا، پھر بالترتیب اسکندریہ، نئی دہلی، اینٹ روپ، مونٹریال، ٹورِن، بگوٹہ، ایمسٹرڈم اور بیروت دارالحکومت قرار دیے گئے۔ برطانیہ نے اس دن کے لیے مارچ کی پہلی جمعرات کا انتخاب کیا اور اسے اسکولوں کے بچوں میں کتابیں خریدنے کی عادت کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ عالمی یوم کتاب منانے کا مقصد کتاب بینی کے شوق کو فروغ دینا اور اچھی کتابیں تحریر کرنے والے مصنفین کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ گیلپ کے حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں صرف 9 فیصد پاکستانی کتب بینی کے شوقین ہیں جبکہ 75 فیصد نے کتابوں سے دور ی کا اعتراف کیا ہے۔پاکستان میں کتب بینی کے فروغ نہ پانے کی وجوہات میں کم شرح خواندگی، صارفین کی کم قوت خرید، حصول معلومات کے لیے موبائل، انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال، اچھی کتابوں کا کم ہوتا ہوا رجحان، حکومتی عدم سرپرستی اور لائبریریوں کے لیے مناسب وسائل کی عدم فراہمی کے علاوہ خاندان اور تعلیمی اداروں کی طرف سے کتب بینی کے فروغ کی کوششوں کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔
جہاں تک برصغیر کی علمی اور ادبی کیفیت ہے، قصۂ ماضی جتنا تابناک ہے، حال اسی قدر ناگفتہ بہ نظر آتا ہے۔ بی بی سی اردو سروس (لندن) کے معروف و ممتاز براڈ کاسٹر جناب رضا علی عابدی اپنے ایک مضمون "کتاب سے محبت کرو" میں لکھتے ہیں: ہمارے معاشرے میں کتاب کو ہمیشہ بہت اہمیت حاصل رہی ہے۔ کتاب سے محبت کی نشانیاں ہم نے اُن لوگوں کے ہاں دیکھیں جو کتاب کو عزیز از جان تصور کرتے ہیں۔ مجھے ملتان کے لطیف الزماں خاں مرحوم ہمیشہ یاد رہیں گے جن کے پاس غالب کے موضوع پر کتابوں کا بڑا ذخیرہ جمع تھا۔ میں خاص طور پر اُن کے گھر گیا اور دیکھا کہ سینکڑوں کتابوں پر کاغذ چڑھا کر بڑے سلیقے سے آراستہ کر رکھا ہے۔ اوپر سے یہ کہ ہر کتاب کا ریکارڈ محفوظ ہے کہ کہاں رکھی ہے اور لمحہ بھر میں کیسے نکالی جائے۔ خود چونکہ نہایت خوش خط تھے، کتابوں کا رجسٹر دیکھنے کے قابل تھا۔ سنا ہے غالبیات پر ویسا ہی ذخیرہ آنجہانی کالی داس گپتا رضا کے پاس بھی تھا۔ وہ چونکہ بمبئی میں تھا، میں وہاں تک نہ پہنچ سکا۔ میرا تو ایمان ہے کہ کتاب پڑھنا تو خیر دنیا کی بڑی نیکی ہے، کتابوں پر نگاہ کرنا بھی کسی عبادت سے کم نہیں۔ مجھے یہ شرف حاصل رہا ہے کہ کتابوں کی زیارت کے لئے میں نے دور دور کے سفر کئے اور نہ پوچھئے کیا کیا دیکھا۔ میرے بڑے دورے کا مرکزی خیال ہی یہ تھا کہ دیکھیں بزرگوں کی چھوڑی ہوئی کتابیں کہاں اور کس حال میں ہیں۔ کہیں تو یوں رکھی تھیں کہ جیسے پلکوں سے جھاڑ پونچھ کر سجائی گئی ہوں، کہیں کتابیں نڈھال پڑی تھیں، کہیں دیواروں پر دیمک نے آمدورفت کے رستے تراشے ہوئے تھے، کہیں معلوم ہوا کہ چند روز پہلے تک بڑا ذخیرہ رکھا تھا لیکن مقدس جان کر اُنہیں دریا میں بہا دیا گیا۔ ایک جگہ کسی نے کتابوں کا ذخیرہ پلاسٹک کے تھیلوں میں باندھ کر کنویں میں ڈال دیا تھا، جھنڈیر لائبریری والوں نے کنویں میں اتر کر نکالیں تو اُن میں ایک سے ایک نادر اور نایاب کتابیں تھیں جو شکر ہے کہ اب محفوظ ہیں۔ میں نے کتابوں کے کتنے ہی ذخیروں کا نوحہ سنا جو محفوظ تھے مگر آگ کی نذر ہوگئے اور پانی اور سیلاب میں تباہ ہونے والے کتنے ہی ذخیروں کے مزار تو میری یہ آنکھیں دیکھ چکی ہیں اور میری ہتھیلیاں کتنے ہی آنسو جذب کر چکی ہیں۔ اگلے وقتوں کے لوگ بڑے پیارے اور بھولے تھے۔ اُس وقت اُن پر ٹوٹ کے پیار آتا ہے جب پرانی کتابوں پر لکھا دیکھتا ہوں ’جس کتاب پر مصنف کے دستخط نہ ہوں اُسے جعلی تصور کیا جائے‘۔ اور بزرگوں کی اِس ادا پر تو صدقے واری جانے کو جی چاہتا ہے جب قدیم کتابوں پر لکھا ہوتا ہے’ اے دیمک کے بادشاہ، تجھے نہ جانے کس کی قسم کہ اِس کتاب کو اپنی خوراک نہ بنانا‘۔ کیسے زمانے تھے جب امراء اور رؤسا دور دراز کے سفر پر نکلتے تھے تو اُن کی کتابوں کا ذخیرہ ساتھ چلا کرتا تھا۔ جس زمانے میں ہندوستان کے نواب، راجا اور مہاراجا اپنے کتب خانے پر ناز کیا کرتے تھے اور چونکہ دولت بہت تھی، دنیا بھر کی نادر اور نایاب کتابیں کھنچی کھنچی ہندوستان چلی آتی تھیں۔ تاتاریوں نے جو لاکھوں کتابیں دریا میں پھینکی تھیں، اُن میں سے بچائی جانے والی کچھ کتابیں پٹنہ کی لائبریری میں محفوظ ہیں، اِسی طرح ہسپانیہ میں عربوں کے دیس نکالا کے بعد عظیم الشان کتابوں کے جو الاؤ جلائے گئے تھے، اُن میں ادھ جلی کتابیں رام پور تک آگئی تھیں۔ بھوپال تو علم کا گہوارہ تھا، وہاں کے شاہی محل میں نہ جانے کتنی کتابیں آج تک رکھی ہیں، پتا نہیں سلامت ہیں یا نہیں، حیدرآباد دکن کے محل میں تو نایاب کتابوں سے بھری الماریاں رکھے رکھے خاک ہوگئیں۔ اب کوئی کہاں تک ماتم کرے اور کتنے آنسو بہائے۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ہم سب کی طرح کتابوں کے بھی مقدر ہوتے ہیں۔ اُن کے حق میں بھی دعا کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کے کچھ شہروں میں خاص طور پر کراچی اور لاہور میں پرانی کتابوں کے بازار لگانے کا جو سلسلہ چلا ہے، کوئی کچھ بھی کہے، کتابوں کے حق میں اچھا ہوا ہے۔ اُن بازاروں میں اُن گھروں کی کتابیں بکنے آتی ہیں جہاں گھر والوں کو اُن کی قدروقیمت کا احساس نہیں اور جہاں اُن کے پڑھنے اور قدر کرنے والے بھی کوئی نہیں۔ بازار میں آکر یہ کتابیں کچھ بھی ہو قدر دانوں کے ہاتھوں میں پہنچ جاتی ہیں اور ردّی، آگ یا پانی کی نذر نہیں ہوتیں۔ کچھ لوگوں نے تو فٹ پاتھوں سے خریدی ہوئی کتابوں کے ایسے ایسے ذخیرے کر لئے ہیں کہ رشک آتا ہے۔ یہی نہیں، کچھ احباب نادر کتابوں کو از سرِ نو چھاپ رہے ہیں اور اُن مرحومین کو حیاتِ نو عطا کررہے ہیں۔ یہ بھی بڑی نیکی کا کام ہے، یہ لوگ اُن کتابوں سے روپیہ پیسہ کمائیں یا نہ کمائیں، ہم جیسوں کی دعائیں ضرور کماتے ہیں۔آپ کو ہو نہ ہو، مجھے یقین ہے، کتاب بھی دھیمے لہجے میں سہی، قدر کرنے والوں کو دعا ضرور دیتی ہے اور دعا بھی کسی درویش جیسی۔ (بشکریہ: روزنامہ جنگ، 3 مئی 2019) کتاب سے دوستی شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کراتی ہے، جس طرح ہوا اور پانی کے بغیر جینا ممکن نہیں، اسی طرح کتاب کے بغیر انسانی بقا اور ارتقاءمحال ہے۔ کتاب نے علم کے فروغ اور سوچ کی وسعت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ دنیا جب تحریر کے فن سے روشناس ہوئی تو انسان نے چٹانوں، درختوں کی چھالوں، جانوروں کی ہڈیوں اور کھالوں، کھجور کے پتوں ، ہاتھی دانت، کاغذ غرض ہر وہ شے لکھنے کے لئے استعمال کی ، جس سے وہ اپنے دل کی بات دوسروں تک پہنچا سکے۔ بعض مورخین کا خیال ہے دنیا کی پہلی کتاب قدیم مصریوں کی ”الاموات“ ہے۔ کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ دنیا کی سب سے پہلی کتاب چین میں لکھی گئی، جس کا نام "ڈائمنڈ سترا" تھا۔ وہ مذہبی کتاب تھی، اور اب بھی ”برٹش میوزیم لائبریری“ میں محفوظ ہے۔ کتابوں کی داستان بھی عجب ہے۔ کبھی انہیں آگ لگائی گئی تو کبھی دریا برد کیاگیا ، کبھی چرا لیا تو کبھی دفنا دیا گیا۔ کبھی یہ شاہی دربار کی زینت بنیں تو کبھی فٹ پاتھ پر کوڑیوں کے دام فروخت ہوئیں۔ کتاب اور علم دوستی معاشی خوشحالی اور معاشرتی امن کی ضامن ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جس قوم نے علم و تحقیق کا دامن چھوڑ دیا، وہ پستی میں گر گئی ۔ مسلم اُمہ کا زوال اس کی واضح مثال ہے۔ ساتویں صدی سے تیرہویں صدی تک بغداد علم و ادب کاگہوارہ رہا۔ سقوطِ بغداد ہوا تو مسلمانوں کے عظیم کتب خانے فرات میں بہا دیئے گئے۔ یہ اس قدر ضخیم ذخیرہ تھا کہ دریا کا پانی اس کی سیاہی سے سیاہ ہو گیا۔ جب اندلس میں پندرہویں صدی عیسوی کے آخر میں اسلامی حکومت ختم ہوئی تو غرناطہ کی بڑی لائبریری کو بھی ملکہ ازابیلا نے جلوا دیا۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمان کتابیں پڑھتے اور جمع کرتے تھے، مگر رفتہ رفتہ علم سے دوری مسلمانوں کو رسوائی کی طرف لے گئی۔ آج دنیا کے 28 ممالک ایسے ہیں، جہاں سب سے زیادہ کتابیں فروخت ہوتی ہیں، مگر ان 28ممالک میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں۔ افسوس! مسلمان اپنی علمی شان بھلا بیٹھے اور اہل یورپ نے مسلمانوں کے علمی مراکز، بالخصوص ہسپانوی مراکز سے استفادہ کر کے تحقیق کی دنیا میں قدم رکھا۔ ہمارے آباؤ اجداد کی محنت آج بھی لندن کی ”انڈیا آفس لائبریری“ میں موجود ہے۔ ان کتب کی تعداد چھ لاکھ کے قریب ہے۔ ان میں عربی، فارسی، ترکی اور اردو میں قلمی کتابوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ لندن کے بعد پیرس لائبریری میں مشرقی زبانوں میں لکھی کتابوں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ 1857ءمیں مغلیہ سلطنت ختم ہوئی، تو انگریزوں نے لال قلعے کی شاہی لائبریری سے ہزاروں کتابیں لوٹ کر لندن پہنچا دی تھیں۔ بقول علامہ اقبال وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباءکی جو دیکھیں ان کو یورپ میں، تو دل ہوتا ہے سیپارہ کتاب ایک قوم کی تہذیب و ثقافت اور معاشی، سائنسی اور عملی ترقی کی آئینہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی بہترین دوست بھی ہے۔ کتابوں سے دوستی رکھنے والا شخص کبھی تنہا نہیں ہوتا۔ کتاب اس وقت بھی ساتھ رہتی ہے،جب تمام دوست اور پیار کرنے والے ساتھ چھوڑ دیں۔ اگرچہ آج ٹی وی انٹرنیٹ اور موبائل نے لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کر لیا ہے، لیکن کتاب کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ نئی نسل میں کتب بینی کا رجحان خاصا کم ہے۔ بچوں کو مطالعے کی طرف راغب کرنا کٹھن کام بن گیا ہے، حالانکہ موجودہ دور میں بڑھتے نفسیاتی مسائل سے بچنے کے لئے آج ماہرین نفسیات بچوں کے لئے مطالعے کو لازمی قرار دے رہے ہیں، کیونکہ اچھی کتابیں شعور کو جِلا بخشنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بہت سے فضول مشغلوں سے بھی بچاتی ہیں۔ یونانی ڈرامہ نگار، یوری پیڈس ایک جگہ لکھتا ہے.... ”جو نوجوان مطالعے سے گریز کرے، وہ ماضی سے بے خبر اور مستقبل کے لئے مردہ ہوتا ہے“۔ بچوں میں مطالعے کا ذوق و شوق پیدا کرنے میں والدین اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، جونہی بچہ سیکھنے اور پڑھنے کی عمر کو پہنچے ، والدین کو چاہئے کہ اسے اچھی اور مفید کتابیں لا کر دیں۔ شروع میں یہ کتابیں کہانیوں کی بھی ہو سکتی ہیں، کیونکہ بچے کہانی سننا اور پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ اس طرح بچے کو مطالعے کی عادت پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ والدین بچوں کے سامنے اپنی مثال قائم کر سکتے ہیں۔ فارغ وقت میں ٹی وی دیکھنے یا فون سننے کے بجائے وہ کسی کتاب یا رسالے کی ورق گردانی کر کے بچے کو بھی اس طرف مائل کریں۔ جب بچہ والدین کو مطالعہ کرتے دیکھے گا تو لاشعوری طور پر اسے یہ ادراک ملے گا کہ فارغ اوقات میں مطالعہ ہی کرنا چاہئے۔ ہو سکے تو بچے کو لائبریری بھی لے جائیں۔ کہتے ہیں کہ لائبریری بچے کے دماغ کی بہترین میزبان ہوتی ہے۔ ڈھیر ساری کتابیں دیکھ کر بچہ خوش بھی ہوتا ہے ۔ وہ اپنی مرضی سے مزاج اور پسند کے مطابق کتابوں کا انتخاب کر کے اپنی دماغی صلاحیتیں اجاگر کر سکتا ہے۔ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اور کتابیں قومی ترقی کی ضامن .... چنانچہ اپنے بچوں کی کتابوں سے دوستی کروا کر آپ نہ صرف انہیں زندگی میں ایک بہترین دوست عطا کریں گے، بلکہ ملک و قوم کی ترقی میں ممدومعاون بن جائیں گے۔ اچھی کتابیں انسان کو مہذب بناتی اور اس کی شخصیت کو وقار عطا کرتی ہیں۔ آج بھی بیشتر خواتین و حضرات کے نزدیک کتابوںپر رقم خرچ کرنے سے کہیں بہتر کپڑوں، جیولری اور زندگی کی دیگر آسائشوں پر پیسہ خرچ کرنا اہم ہے، لیکن یہ تمام چیزیں عارضی اور ضرورت کے تحت استعمال کی جانے والی اشیاءہیں۔ کتاب سے بڑھ کر دنیا میں کوئی ایسی شے نہیں جو ہمیشہ آپ کی دوست رہے۔ کتاب سے دوستی انسان کو شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کراتی ہے۔ سو اگر زندگی میں آگے بڑھنا ہے تو خود بھی کتاب سے دوستی پکی کریں اور اپنے بچوں کو بھی اس بہترین دوست سے روشناس کروایئے۔ معاشرے میں کتب بینی کے رجحان میں کمی کی ایک وجہ انٹرنیٹ بھی ہے۔ نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق کتب بینی کی جگہ انٹرنیٹ نے لے لی ہے۔ لوگ اب دکانوں اور کتب خانوں میں جا کر کتابیں، رسائل و ناول پڑھنے کے بجائے انٹرنیٹ پر پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لوگوں کو گھر میں بیٹھے بیٹھے انٹرنیٹ کے ذریعے تمام نئی اور پرانی کتابیں حاصل ہو جاتی ہیں۔ اس طرح لوگوں کا وقت اور رقم دونوں ضائع ہونے سے بچ جاتے ہیں۔ کتابوں کے شوقین ہمیشہ اچھی کتب کی تلاش میں رہتے ہیں، انہیں ہمیشہ ہر جگہ اچھی اور دلچسپ کتب پڑھنے کا شوق ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے کتابوں کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے سے کتابیں خریدنے کے رجحان میں کمی آتی جا رہی ہے اور ماضی کے مقابلے میں اب کتب فروشوں نے دکانوں پر کتب بینوں کی تعداد میں کمی ریکارڈ کی ہے۔ انٹرنیٹ سٹوڈنٹس کمیونٹی اور تعلیم یافتہ طبقے کے لئے نہایت مفید ثابت ہوا ہے۔ طالب علم کمپیوٹر پر یونیورسٹی و کالج کی اسائنمنٹس بناتے ہیں اور پھر ای میلز یا پھر دیگر انٹرنیٹ ذرائع سے ایک دوسرے کوایک ہی جگہ بیٹھے پہنچاتے ہیں۔ اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر میں کتابوں کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے مختلف تقاریب کا اہتمام ہوتا ہے۔ کتابوں کی نمائشیں، سیمینار، سمپوزیم اور اسی طرح کے دوسرے فنکشن منعقد کر کے کتب بینی کے ذوق و شوق کو پروان چڑھانے کی زور دار کوششیں کی جاتی ہیں۔ دور جدید میں اگرچہ مطالعہ کے نئے میڈیم متعارف ہو چکے ہیں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برکت سے علم کا حصول اور اطلاعات رسانی کے باب میں انقلاب برپا ہو چکا ہے، مگر کتاب کی اپنی دائمی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ قائم و دائم ہی نہیں، بلکہ اس میں حد درجہ اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں کتابوں کی اشاعت اور کتب بینی کے شائقین کی تعداد ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ لاکھوں کتابیں زیور اشاعت سے مزین ہو رہی ہیں اور بے شمار لائبریریاں معرض وجود میں آ رہی ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ کتاب اور انسان کا رشتہ اتناہی قدیم ہے جتنا کہ خود انسانی تہذیب و تمدن کا سفر اور علم و آگہی کی تاریخ۔ تہذیب کی روشنی اور تمدن کے اجالے سے جب انسانی ذہن کے دریچے بتدریج کھل گئے، تو انسان کتاب کے وسیلے سے خودبخود ترقی کی شاہراہ پر قدم رنجہ ہوا۔ سچ مچ کتاب کی شکل میں اس کے ہاتھ وہ شاہی کلید آ گئی، جس نے اس کے سامنے علم و ہنر کے دروازے کھول دیئے۔ ستاروں پر کمندیں ڈالنے، سمندروں کی تہیں کھنگالنے اور پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے کا شوق اس کے رگ و پے میں سرایت کر دیا۔ جوں جوں یہ شوق پروان چڑھتا رہا کتاب اس کے لئے ایک مجبوری بنتی گئی، کیونکہ یہ اسی کتاب کی کرامت تھی کہ انسان کے لئے مطالعے اور مشاہدے کے بل پر نئی منزلیں طے کرنا آسان ہوا۔ علم و فن نے اس کی ذہنی نشوونما، مادی آسائشیں اور انقلاب فکر و نظر کا سامان پیدا کیا۔ غرض کتاب شخصیت سازی کا ایک کارگر ذریعہ ہی نہیں، بلکہ زندہ قوموں کے عروج و کمال میں اس کی ہم سفر بن گئی۔ کتاب کی اس ابدی اہمیت کے زیر نظر زندہ قوموں کا شعار، بلکہ فطرت ثانیہ ہوتی ہے کہ وہ کتب خانوں کو بڑی قدرومنزلت دیتے ہیں۔ آج کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلابی دور میں امریکہ میں لائبریری آف کانگریس اور برطانیہ میں برٹش میوزیم لائبریری دو قوموں کے واسطے فکری اساس یا شہ رگ بنی ہوئی ہیں۔ یہی علم پرور ادارے ان کو خیالات کی نئی وسعتوں میں محو پرواز رکھتے ہیں، قوم و ملت کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں منزل مقصود تک پہنچانے کے ضمن میں ان لائبریریوں کی کروڑوں کتابیں خاموشی سے راہبری اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ ان قوموں کے باشعور عوام میں لائبریری تحریک کا ایک منظم سلسلہ بھی موجود ہے۔
کتابوں کے حوالے سے موجود کئی مسائل کے باوجود پاکستان میں کتب میلے، دنیا کی بہترین کتابوں کے تراجم کی اشاعت، ای بکس، آن لائن بکس سٹور، ریڈرز کلب، موبائل بک سٹورز اور میگا بکس سٹورز کتابوں کی دنیا کے نئے رجحانات ہیں۔ یاد رہے پاکستان میں کئی ادارے کتب بینی کے فروغ کے لئے کوششیں کر رہے ہیں۔ اس لئے مبصرین کے بقول پاکستان میں کتابوں کے اچھے مستقبل کی توقع کی جا سکتی ہے۔
سچ مچ کتاب کی شکل میں اس کے ہاتھ وہ شاہ کلید آگئی جس نے اس کے سامنے علم و ہنر کے دروازے کھول دیے، ستاروں پر کمندیں ڈالنے، سمندروں کی تہیں کھنگالنے اور پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے کا شوق اس کے رگ و پے میں سرایت کردیا۔ جوں جوں یہ شوق پروان چڑھتا رہا کتاب اس کے لئے ایک مجبوری بنتی گئی، کیونکہ یہ اسی کتاب کی کرامت تھی کہ انسان کے لئے مطالعے اور مشاہدے کے بل پرنئی منزلیں طے کرنا آسان ہوا، علم و فن نے اس کی ذہنی نشو و نما، مادی آسائشیں اور انقلابِ فکر ونظر کا سامان پیدا کیا۔ غرض کتاب شخصیت سازی کا ایک کارگر ذریعہ ہی نہیں بلکہ زندہ قوموں کے عروج و کمال میں اس کی ہمسفر بن گئی۔ کتاب کی اس ابدی اہمیت کے زیر نظر زندہ قوموں کا شعار بلکہ فطرت ثانیہ ہوتی ہے کہ وہ کتب خانوں کو بڑی قدر و منذلت دیتے ہیں۔ آج کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلابی دور میں امریکہ میں لائبریری آف کانگریس اور برطانیہ میں برٹش میوزیم لائبریری ان دو قوموں کے واسطے فکری اساس یا شہ رگ بنی ہوئی ہیں۔ یہی علم پرور ادارے ان کو خیالات کی نئی وسعتوں میں محو پرواز رکھتے ہیں، قوم و ملت کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں منزل مقصود تک پہنچانے کے ضمن میں ان لائبریروں کی کروڑوں کتابیں خاموشی سے راہبری اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ ان قوموں کے باشعور عوام میں لائبریری تحریک کا ایک منظم سلسلہ بھی موجود ہے۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں جو پبلک لائبریریاں موجود ہیں ان میں کتابیں تو موجود ہیں مگر یہ سب برسہا برس سے گرد آلودہ ہیں کیونکہ ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا۔ اس معاملے میں ماضی کے عین برخلاف اب انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہم اتنے بدذوق ہوچکے ہیں کہ عموماً کتابوں کا مطالعہ کرنا تضیع اوقات کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ تعلیمی اداروں میں کم و بیش لائبریریاں زیر استعمال رہتی ہیں مگر ان کا استفادہ صرف نصابی سرگرمیوں کی حد تک کیا جاتا ہے جبکہ نصاب کی حدود سے آگے اچھی اور مفید کتابوں کا مطالعہ طلباء اپنے لئے شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ذوق مطالعہ کو جلا بخشنے والی کتابوں کا مطالعہ ہی زیادہ تر کسی طالب علم کو علم کی روشنی سے متعارف کراتا ہے۔ عالمی یوم کتب کے حوالے سے تقاریب کا اہتمام ہورہا ہے، ان کا محض مقصد خانہ پری نہیں بلکہ عوام الناس میں کتب بینی کا شوق پیدا کرنے اور صحت مند کتابوں کے مطالعہ کی طرف انہیں راغب کرانا ہوناچاہیے۔ اس سلسلے میں متذکرہ محکمہ پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ یہاں یہ تلخ نوائی معاف کی جائے کہ اس محکمے کے زیر اہتمام اگرچہ ریاست بھر میں بشمول سرحدی علاقہ جات لائبریریوں کا جال موجود ہے مگر اکثر و بیشتر یہ بند رہتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں طالب علموں اور عام پڑھے لکھے لوگوں کو کتب بینی کا شوقین اور دلدادہ بنانے کے لئے منظم کاوشیں کی جائیں وہاں پبلک لائبریریوں کے عملہ میں فرض شناسی اور جوابدہی کو یقینی بنایا جائے تب جاکر ورلڈ بک ڈے کے اصل گوہر مقصود کا حق ادا کیا جاسکتے ہیں کتابیں انسان کی بہترین دوست ہوتی ہیں۔ انسان جب کبھی بھی تنہا ہوتا ہے تو ایسے وقت میں کتابیں ہی انسان کا دل بہلاتی ہیں۔ کتابیں انسان کی بہترین دوست اور ساتھی ہی نہیں بلکہ معلومات کا خزانہ بھی ہیں۔
|