بزرگ شہریوں کے مسائل

کچھ دن پہلے پاکستان سینٹ نے معمر شہریوں کے بارے ایک بل پاس کیا جس کا مقصد بزرگ
شہریوں کی فلاح وبہبود ہے۔ بل کے مطابق اس کا مقصد بزرگ شہریوں کی بڑھتی عمر کے مسائل پر تحقیق کرنا، بزرگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے کام کرنا جس سے بزرگ استفادہ حاصل کریں اور ان کی آمدن کا کچھ ذریعہ بھی بنے، بڑھاپے کے مسائل اور ان کے حل کے بارے تحقیق میڈیکل کالجوں کے سلیبس میں شامل کرنا، ہسپتالوں میں بزرگ شہریوں پر خصوصی توجہ دلوانا، کلبوں پارکوں اور دیگر ایسے مقامات پرجہاں بزرگ شہری اچھا وقت گزار سکیں وہاں مفت رسائی کی سہولت دینا، بزرگ شہریوں کو ہر طرح کی محفلوں میں نوجوانوں کے ساتھ شریک ہونے کی ترغیب دینا، ایسے پروگرام کرنا جس میں بزرگ شہریوں کو معاشرے کے امور میں فعال شریک شامل ہونے کی ترغیب دی جائے، سینئر سٹیزن ہوم بنانا جہاں وہائش کے ساتھ ساتھ بزرگ شہریوں کی دلچسپی کا بہترین ماحول ہو اور ایسی بہت باتیں ٍبل میں شامل ہیں۔

بل کا سب سے خوبصورت اور شاندار فیصلہ یہ ہے کہ اولاد کسی بھی صورت میں اپنے والدین کو بے دخل نہیں کر سکے گی۔بڑھاپے میں بے دخل ہونا اور گھر چھوڑنا انتہائی تکلیف دہ عمل ہیں۔ہاں مکان والدین کا اپنا ہو تو وہ بچوں کے دباؤ میں آئے بغیر انکو بے دخل کر سکتے ہیں لیکن مکان اپنا نہ بھی ہو تو بھی بچے والدین کو اس عمر میں کوئی ایسی تکلیف نہیں دے سکتے۔ایک خاص بات جو میں نے پہلے بھی لکھی تھی کہ بہت سے ملکوں میں یہ قانون ہے کہ کوئی شخص اگر بوڑھا ہو جائے اور اس کے پاس آمدن کا کوئی ذریعہ نہ ہو تو بنک اس کا ذاتی مکان اگر ہو تو گروی رکھ لیتے ہیں اور اس کے عوض اس کی ماہانہ ضروریات کا تعین کرکے اسے ہر ماہ معقول رقم دیتے رہتے ہیں۔ جب وہ شخص فوت ہوتا ہے تو اس کے ورثا بنک کی واجب الادا رقم واپس کرکے مکان اپنے نام منتقل کر لیتے ہیں بصورت دیگر بنک کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ مکان بیچ کر اپنی رقم وصول کر لے۔سینٹ کے لوگ اس اہم نقطے پر بھی غور کر لیں تو بہت سے بزرگ لوگوں کا بھلا ہو جائے گا۔

اس بل پر عملدرامد کے لئے ایک کمیشن کی تشکیل کی گئی ہے جس کے ممبر سینٹ اور قومی اسبلی کے تین تین ارکان اور کچھ معزز بشرگ شہری ہو گئے۔ہماری عام روایت ہے کہ ایسے شاندار کئی بل پاس ہو جاتے ہیں مگر اس کا فائدہ ان لوگوں کو بہت کم ہوتا ہے جن کے لئے وہ بل لایا جاتا ہے۔ البتہ منتخب نمائدوں میں سے ایک اس کمیشن کا چیرمین بن جائے گا ۔ اس فوری طور پر سرکاری گاڑی اور مکمل سٹاف مل جائے گا۔ ممبران کی اپنی مراعات ہوں گی سب مزے کریں گے رہ گئے بزرگ شہری تو ان کا کیا ہے، حکومتی کارکردگی میں بل ہی کی ضرورت ہوتی ہے، عملدرامد کی نہیں،بل کسی لائن میں عملدرامد کے انتظار میں بھٹکتا رہے گا۔یہی اس ملک کی روایت ہے اور ہم روایتیں خراب نہیں کرتے ۔کمیشن اگر ان ساری باتوں پر عملدرامد کی بھی کچھ پیش رفت کر لے تو یہ ایک انتہائی شاندار اقدام ہو گا۔

حکومتی بلوں کے اعتبار سے بزرگ شہریوں کو پہلے بھی بہت سی مراعات حاصل ہیں مگر ان پر عملدرامد کہیں نظر نہیں آتا۔ چند دن پہلے ایک بنک میں بل دینے والوں کی لمبی قطار تھی۔ قطار میں موجود ایک بزرگ کافی دیر بعد اکتائے ہوئے قطار سے باہر نکلے، مینجر کے پاس پہنچے اور کہا، بیٹا مجھ سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا کافی ریر سے لائن میں کھڑا ہوں ستر سال سے زیادہ عمر ہے کچھ مدد کرو۔مینجر منہ کھول کر ہنسا، ماشا اﷲ آپ تو بہت جوان لگتے ہیں۔ آپ اطمینان سے قطار میں کھڑے ہوں صرف دس سے پندرہ منٹ کی بات ہے آ پ کی باری آ جائے گی۔ میں عادتاً رہ نہ سکا تھوڑی سی تکرار کرنا پڑی کہ قطار سے ہٹ کر بل دینا اس کا استحقاق ہے اور اس سے بل لینا تمہارا فرض۔ تم اپنے بہت سے ہٹے کٹے واقفوں کو اپنے پاس بٹھا کر ان کا بل دلوا رہے ہو۔ اب تمہارا کوئی واقف اس انداز سی بل نہیں دے گا اور بزرگ شہریوں کو جیسے بھی ہو بل کی سہولت فراہم کرو۔ مجبوری میں اس نے اپنے چپراسی کو بلایا اور اسے کہا کہ ان بزرگ کا بل جمع کرا دو۔ یہ ایک جگہ نہیں بے حسی کا یہ عالم پورے ملک میں ہے۔ کمیشن کوپتہ ہونا چائیے کہ بزرگ شہریوں سے زیادہ اس ملک کے عوام کوبزرگوں کا احترام کرنا سکھانا زیادہ بڑا کام ہے اس بارے بھی کچھ پیش رفت بہت ضروری ہے۔

میں ذاتی طور پر یورپ اور بہت سے ملکوں میں پھرا ہوں وہاں بزرگوں کو جس عزت اور پیار سے نوازا جاتا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ ہندستان میں ہم جہاں بھی گئے بزرگ شہریوں کو دی گئی مراعات سے ہم نے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ریل کا ٹکٹ آدھا تھا اور اس نے ہمیں صرف شکل دیکھ کر مان لیا کہ ہم بزرگ ہیں۔ کوئی لمبی چوڑی تحقیق نہیں کی۔پاکستان میں ہم لوگ کہیں جا کر کہہ دیں کہ ہم بزرگ ہیں تو یہاں غیر ضروری پوچھ گچھ صرف اس لئے ہوتی ہے کہ بزرگ شہری کو ٹرخا کر اس کے جائز استحقاق سے محروم کیا جائے۔ حکومت کو چائیے کہ صورت حال کا جائزہ لے کر بزرگ شہریوں کو ان کا جائز مقام دلائے اور ان کی آسودگی کا سامان کرے۔

 
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500678 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More