چراغ بانٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں

بھارت میں مالدارشعبوں کی درجہ بندی کی جائے تو کارپوریٹ سیکٹر سے بڑھ کر مالدار طبقہ اوقاف کا ہے، اس سے پہلے درجہ بندی مندروں اورمٹھوں کی جاسکتی ہے۔ بات چاہے سومناتھ مندر کی ہویا پھر کاشی کے مالدار مندروں کی،یاپھر تیروپتی، دھرمستالاکے مندروں کی، یہ تمام مندرعربوں روپیوں کے مالدار ہیں اورانکے سالانہ خزانے کا سو د بھی کروڑوں روپیوں کا ہے۔ اسکے بعد مٹھ یعنی آشرم کی بات کی جائے تو یہ بھی کم مالدار نہیں ہوتے، سیاست دان سے لیکر بھکاری تک آشرموں کو چندہ دیتا ہے ۔ جسکی وجہ سے ان آشرموں یا مٹھوں کےپاس سینکڑوں ایکڑ زمین ، بینک بیالنس اورعیش وعشرت کا سامنا موجود ہوتاہے، موجودہ حکومتوں اورسیاستدانوں کے مطابق یہ آشرم اورمٹھ سماجی خدمات کے نمونے ہیں۔ پچھلے 20 مہینوں کے درمیان کسی نے یہ نہیں سنا ہوگا کہ کسی آشرم یا مٹھ کو کورونا کے سنٹر یاپھر کورونا اسپتال میں تبدیل کیا گیا ہے۔کسی نے بھی نہیں سنا ہوگا کہ آشرم کی جانب سے مفت میں کھانے پینے کی اشیاء دی گئی ہو، کسی اخبار نے یہ نہیں پڑھاہوگا کہ کسی آشرم یا مٹھ کے ذریعہ سے کورونا کے مریضوں کو مفت میں دوائی دی گئی ہو یا پھر علاج کیا گیا ہو۔ سب کچھ موہ مایا ہے۔ یہی آشرم کا کام ہے مگر مسلمانوں کی دریا دلی دیکھئے ہم نے ہرچیز میں سیکولرزم کو بڑھاوا دیا ہے۔ ہم وطنی بھائیوں کو خوش کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے، پہلے ہم وطنی بھائیوں کو ہم عید پارٹی، افطار پارٹی دیا کرتے تھے، جلسوں میں مہمان خصوصی کے طور پر بلاکر انہیںہماری دریا دلی کا نمونہ پیش کرتے تھے۔ اب کورونا کے حالات ہیں تو ہرچیزہماری طرف سے ہی جارہی ہے۔ مسجد کے پڑوس میں بھلے ہی کوئی مزدور زندگی بھر دو وقت کی روٹی کیلئے تڑپتا بلکتا رہا ہو ہم نے کبھی بھی انکے لئے ہاتھ نہیں بڑھائےہیں۔لیکن آج ہماری مسجدوں کو کوویڈ سنٹر بنانے کیلئے تیار ہیں۔ مسجدوں سے باقاعدہ آکسیجن سلنڈر دئے جارہے ہیں اوریہ بھی اعلان کیا جارہا ہے کہ 50 فیصد کوٹہ ہندئوں کو اور50 فیصد مسلمانوں کودیاجائےگا۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم دوسروں کی خوشنودی کیلئے آج تک کیوں چاپلوسی کررہے ہیں۔ حضرت نظام الدین کا مرکز آج تک سنگھیوںکے نشانے پر ہے۔ کبھی بھی مسلمانوں نے اس مرکز کو پہلے کی طرح خدمات انجام دینے کیلئےموقع نہیں دیا۔ صرف اورصرف سیکولرزم کے پیجامے کا ناڑا مسلمان پکڑے ہوئے ہیں۔ نہ جانے وہ کونسی حکمتیں ہیں اورنظریات ہیں جو اپنی ملت کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے انسانیت کے نام پر دوسروں کی جی حضوری یا مدد کرنے کیلئے جوش دلارہے ہیں۔ جسطرح سے ایک دکان کھولنے پر وہاں کے گاہک ہندئو مسلم سب ہوتے ہیں اسی طرح سےخدمت کا مرکز ہندوئوں اورمسلمانوں کیلئے یکساں ہونا چاہئے ، لیکن اس دکان پر یہ نوٹ لکھ دیا جائے کہ اس دکان میں مسلمانوں کو خاص رعایت یا ہندوئوں کو خاص رعایت دی جائےگی تو وہ تجارت نہیں ہوگی بلکہ چاپلوسی اورتعصب کے نظریات ہوںگے۔ آپ خدمت کرتے جائیں ، جس کو ضرورت ہوگی وہ آکر خدمت حاصل کریگا۔ رہی بات مسجدوں کو کوارنٹائن سنٹربنانے کی یہ بات تو شریعت میں نہیں ہے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا کسی مندر، یا آشرم نے کوویڈ کیلئے انکی جگہ استعمال کرنے کیلئے حکومت کے سامنے پیش کش کی ہے۔ مرکزی وزیر عباس نقوی نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ ملک کے تمام حج کیمپ کو کوویڈ سنٹر میں تبدیل کیا جائے توسوال یہ ہے کہ کیا کسی آشرم کیلئے بھی انکی حکومت نے یہ فیصلہ سنایا ہے۔آخرہر بارمسلمان ہی بلی کا بکرا کیوں بنتے ہیں۔ کہاوت ہے کہ جوش میںآکر جھنگا شہید ہوجاتا ہے اسی طرح ہم مسلمان بھی جوش میں آکر شہید ہورہے ہیں۔ اللہ نے عقل دی ہے، عقل کا استعمال کریں، خدمت کو خدمت کی جگہ، حکمت کو حکمت کی جگہ، شریعت کو شریعت کی جگہ اورحماقت کو حماقت کی جگہ استعمال کریں، یہ وقت کا تقاضہ ہے شرارت کا نہیں۔کسی شاعر نے عرض کیا ہے
شمار اُس کی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص
چراغ بانٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں

--

 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 175561 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.