وہ بھی کیا دن تھے جب ہوتی تھی دیس میں عید

انتیس رمضان کو مغرب کے وقت چاند دیکھنے کا شوق، تمام گھر والوں کے ہمراہ چاند نظر نہ آنے پر کل کے روزے کی تیاری کرنا، آخری سحری کا زور و شور سے اہتمام اور اگر چاند نظر آجاتا تو دعا کے لئیے ہاتھ اُٹھانا، خوشی و مسرت لئیے عید مبارک کا شور ہر چھت سے بلند ہوتا۔ گھر کے ساتھ گھر ملے ہوتے، چھت کے ساتھ چھتیں، تب دل بھی ایسے ہی ملے ہوئے تھے۔ہر چھت سے پڑوسی ایک دوسرے کو عید کی مبارکبادیں دیتے۔

امی کے ساتھ کھیر اور باقی لوازمات کی تیاریاں، ابو سمیت سب کے کپڑے استری کر کے ٹانگنا، اپنے لباس اور چوڑیوں کو بار با ر بھی ساتھ دیکھ کر دل نہیں بھرتا تھا۔ کبھی تھکن کا احساس تک نہ تھاکیونکہ اسکے بعد تو سب سے من پسند کام بچتا اور وہ تھا مہندی لگانا۔ ساری ڈیزائن والی کتابیں اکٹھی کرکے سب سے اچھا والا چن کر رات گئے تک اپنے ہاتھوں کو سنت رسول اﷲ صلی علیہ وآلہ وسلم کو ذوق و شوق سے پورا کرنا۔

کہا جاتا ہے کہ عید کی رات کو اﷲ تبارک تعالیٰ سے ثواب کی نیت سے عبادت کی جائے تو دل قیامت تک مردہ نہیں ہوگا۔

حضرت ابوامامہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے اِرشاد فرمایا: ’’جس نے عیدین (عید الفطر اور عید الاضحی)کی دونوں راتوں میں اﷲ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے عبادت میں قیام کیا اُس کا دل اُس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن سب کے دل مُردہ ہوجائیں گے۔‘‘
حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ نبی کریمﷺسے نقل فرماتے ہیں: ''جو چار راتوں کو عبادت کے ذریعہ زندہ کرے اس کے لئے جنّت واجب ہوجاتی ہے
لیلۃ الترویۃ، یعنی آٹھ ذی الحجہ کی رات
عرفہ، یعنی نو ذی الحجہ کی رات
لیلۃ النحر، یعنی دس ذی الحجہ کی رات
لیلۃ الفطر، یعنی عید الفطر کی شب''

جب سے یہ احادیث سنیں، اﷲ چھوٹی خالہ کو جنت نصیب فرمائے جنہوں نے بتایا کہ چاند رات باہر گھومنے پھرنے کے لئیے نہیں بلکہ عبادت کی فضیلت حاصل کرنے کے لئیے ہے۔تب سے ہر سال کی طرح چاند رات پر باہر جانے کا شوق ختم ہو گیا

عید پر صبح سویرے ابو اور بھائیوں کے نماز پڑھ کر آنے سے پہلے پہلے تیار ہوجانا اور ابو سے عیدی وصول کرنے کا بے صبری سے انتظار کرنا۔عید کی نماز سے فارغ ہو کرچھوٹے بڑے، تایا اور چچا ذاد سبھی والدہ سے عید ملنے آتے تو کھانے کی میز بھی صبح صبح سج جاتی۔ چھوٹی سی بیٹھک تھی جہاں ہر کونے میں باقی سجاوٹ کے ساتھ ساتھ سہیلیوں اور کزنز سے ملنے والے عید کارڈز بھی سجے ہوتے
عید کا ایک دن ہوتا ہے لیکن بڑا خاندان اور دوست احباب کے علاوہ وہ عزیز جو عید پر ہی ملاقات کر پاتے , تو چار دن تک آنا جانا لگا رہتا۔ اکثر تو امی کے ساتھ مل کر عید کے تیسرے دن کھیر دوبارہ سے بنانی پڑتی کیونکہ مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا اب جب اپنا دیس چھوڑے اتنا عرصہ گزر گیا۔ہر سال وہی عید کی تیاریاں، وہی عید کا جوڑا دیکھ دیکھ کر جوش و خروش کہیں کھو گیا۔ عبادت تو دل کو سکون ضرور دیتی مگر ابو کی وہ عیدی اب نہیں ملتی۔ عید کی نماز کے بعد اب وہ انتظار نہیں رہا۔ اکثر یہاں عید کے روز بھی‘‘ڈیوٹی‘‘ ہوتی ہے۔ چھٹی نہ ہو تو کھانے کی میز بھی سُونی پڑی رہتی ہے پکوان تو بنے ہوتے ہیں لیکن انکو کھا کر نہ کوئی تعریف کرنے والا ہوتا ہے نہ ہی بھائیوں کی طرح کوئی ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ میں مذاق اڑانے والا عید کا جوڑا پہن کر نماز تو ادا کر لی جاتی ہے لیکن اب کسی کا انتظار نہیں ہوتا۔ ابو کے سامنے عیدی کے لئیے ہاتھ پھیلانے کو اب بھی دل چاہتا ہے مگر عرصہ گزرا انہیں بھی گذرے۔ مہمانو ں کا تانتا بندھا رہتا تو کبھی جھنجھلاہٹ بھی ہو جاتی مگر اب وہی گہما گہمی دیکھنے کو دل ترس جاتا ہے نئے کپڑے پہن کر مہندی لگا کر سہیلیوں کے ساتھ کزنز کے ساتھ تصویریں جتنی خوشی دیا کرتیں۔ایک دوسرے کی مہندی دیکھ کر تعریف کرنا اب کوئی خوبصورت مگر نہ پورا ہونے والا خواب لگتا ہے۔ وہ پرانی تصویریں پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کبھی کبھی آنکھوں میں نمی بھی لے آتی ہیں۔عید کا تو مطلب ہی خوشی ہے مگر اکثر پردیس کی عید اداس کر جاتی ہے۔ وہ بے فکر سی مسکراہٹیں ذمہ داریوں میں کہیں کھو گئیں۔ اپنوں کے ساتھ گزرا وقت اور اسکی چاہ اب پردیس کی مشینی زندگی میں مصروفیت کی نذر ہوگئی۔ہر سال جب رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوتا تو ہر سحر اور افطار پر کچھ ادھورا ادھورا ضرور لگتا ہے۔ عید کے روز میٹھا کبھی کبھی پھیکا لگنے لگتا ہے جب کسی کے ساتھ بانٹا نہ جائے ۔ہاتھوں میں ٹرے اُٹھائے بھائی اور میں بھاگ بھاگ کر محلے والوں کے یہاں، سوئیاں یا کھیر بانٹتے۔ باقی دنوں میں صبح سویرے جاگنا کوفت کا باعث ہوتا لیکن عید کے روز جیسے رات سے ہی صبح کا انتظار رہتا۔ خوشی خوشی ہر گھر میں میٹھا بانٹنے جاتے۔پہلے سب اکٹھے ہو کر فرش پر دستر خوان بچھا کر کھانا کھاتے تو بھی لطف آتا۔۔ اب مہنگی میز پر خوبصورت برتنوں میں سجے طرح طرح کے کھانے بد مزہ سے لگتے ہیں۔ اپنے دیس میں اپنوں کے ساتھ عید جتنی خوشی دیتی تھی اب پردیس میں اکثر یہ اداسیاں ساتھ لے آتی ہے۔ مکینکی زندگی میں مکمل آسائشات حاصل کرنے کی خواہش کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اکثر اندر کہیں ادھورا پن چھوڑ جاتی ہے
 

Atiya Rabbani
About the Author: Atiya Rabbani Read More Articles by Atiya Rabbani: 19 Articles with 11752 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.