میری اس بات سے آپ سب اتفاق کریں گے کہ ہر چیز کا مول
ہوتا ہے۔ چیزوں کو ناپنے تولنے کے لیے ان کے اپنے الگ پیمانے ہوتے ہیں جو
ان کی قیمت طے کرتے ہیں۔ مگر خواب ایسی چیزوں میں آتا ہے جو بے مول ہوتے
ہیں۔ جن کا دنیاوی پیمانوں اور حدودوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ جن کا
کوئی مذہب کوئی ذات نہیں ہوتی۔ جن کی کوئی قیمت نہیں لگائی جاسکتی۔ میرے
خیال میں تو اس سے بڑھ کر کیا نعمت ہو سکتی ہے کہ خداوند تعالیٰ نے خوابوں
کو بے باق رکھا ہےاور ہر ایک کی پہنچ میں رکھا یے بشرطیکہ کوئی ان کو بند
آنکھوں سے نہ دیکھے۔ زندگی انسان کو طرح طرح کے رنگ دکھاتی ہے اور میرے
نزدیک یہ اس کی ایک خوبصورتی ہے کیونکہ بلا شبہ ایک جیسے موسم سے انسانی
فطرت اکتا جاتی ہے۔ زندگی کے انہی رنگوں میں انسان کو بہت سے سبق بھی مل
جاتے ہیں اور اس کی حقیقت کا بھی اندازہ ہو جاتا یے۔ ایک کہانی میری نظر سے
گزری ہے جس نے میرے اندر بہت سی مثبت تبدیلیاں پیدا کیں اور جس کا ذکر میں
یہاں ضرور کرنا چاہوں گی۔ چکوال کے ایک گاؤں میں ایک بیوہ عورت اپنے دو
بچوں کے ساتھ رہتی ہے اور اس وقت دنیا کی امیر ترین عورت یے کیونکہ اس کے
پاس ہمت اور حوصلے کی کمی نہیں ہے۔ وہ رکشہ چلا کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتی
ہے اور وہ خواب جو اس نے اپنے بچوں کے کامیاب مستقبل کے حوالے سے دیکھے ہیں
ان کا بھی کوئی مول نہیں ہے۔ وہ اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر اچھا انسان
بنانا چاہتی ہے اور اس کے بچے بھی تعلیم کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔
ہوسکتا ہے اس عورت کی خواہش اور خواب بہت سے امراء کے لیے بے حد معمولی بات
ہو گی مگر جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ خواب ذات پات میں تفریق نہیں
کرتے۔ خوابوں کو بننے اور ان کی تکمیل کے لیے انسان کا حوصلہ ، ہمت ، لگن
اور کو شش کافی ہوتی ہے۔ ورنہ سوچنے والی بات ہے کہ اللّٰہ نے ایک حکمران
کو بھی حق دیا ہے خواب دیکھنے کا اور ساتھ ہی ساتھ ایک جھونپڑی میں رہنے
والے کو بھی کیونکہ رب کریم کے نزدیک عظیم وہ یے جو جتنا بھی اس کو عطا کیا
گیا ہے اسی میں رہ کر آسمان کی بلندیوں کو چھوئے۔ میں نے تو یہ ایک مثال دی
یے، مگر دنیا بھری پڑی ہے ایسی مثالوں سے جہاں عقل دنگ رہ جاتی ہے مگر پھر
بات وہیں آجاتی ہے کہ خواب کھلی آنکھوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ یہ وہ شے ہوتے
ہیں جو چین نہ لینے دیں، جو جگائے رکھیں جو دنیاوی قائم کردہ حدودوں سے
لاپرواہ کردے۔ ان کا کوئی مول نہیں اس لیے ان کو کوئی چرا نہیں سکتا۔ اپنے
خوابوں کو کبھی بھی کسی مجبوری کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں، ان کا تعقب کریں جب
تک کہ وہ حقیقت کی شکل نہیں اختیار کر لیتے۔
|