خدمت انسانیہ کا مشن

نفسانفسی کے اس دور میں اﷲ کی طرف سے ملنے والے رزق سے غریبوں کا حصہ نکالنا اور ان کی ممکنہ مدد کرنا باعث خیر و برکت عمل ہے ۔اور یہ کارخیرمیں پاکستان بھر میں کام کرنے والی اکثر این جی اوز اور انفرادی طور پر بھی مخیر حضرات پیش پیش رہتے ہیں ۔گو کہ عام دنوں میں بھی یہ سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن ہرسال طرح امسال بھی رمضان کے ماہ مقدس میں خدمت کا یہ سلسلہ مساجد ، مدارس،فلاحی تنظیموں کے دفاتر اور دیگر مختلف مقامات پر سحرو افطار کے و قت باقاعدہ چلتا رہا ۔کچھ لوگ تو یہ کام واقعی کارِثواب کے طور پر سرانجام دیتے ہیں لیکن کچھ ایسے متمول خواتین و حضرات جو روزہ نہیں رکھتے وہ بھی اس کے بدلے 60مسکینوں کو کھانا کھلانے کاسلسلہ جاری رکھتے ہیں ۔یہ کارخیر بلاشبہ لائق ستائش ہے ۔ بیسیوں این جی اوز اس کام میں مصروف عمل ہیں، ہم سالانہ کھربوں روپیہ کی خطیر رقم ’’غریبوں کو کھانا ‘‘کھلانے پر خرچ کر دیتے ہیں۔ہماری یہ رقم ان سفید پوش گھرانوں تک نہیں پہنچ پاتی جو حقیقی مستحقین میں شامل ہیں۔اور جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ہم اپنے عزیز و اقارب ،زیر کفالت افراد ،اڑوس پڑوس کو چھوڑ کر دیگر علاقوں میں ’’دسترخوان ‘‘سجاتے ہیں ۔ان دسترخوانوں سے امیر و غریب سبھی مستفید ہوتے ہیں۔لیکن اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہم اپنے اس عمل سے لوگوں کو ’’بھکاری ‘‘بنا رہے ہیں ۔پاکستان کے تمام شہروں خاص طور سے راولپنڈی اسلام آباد میں اہم چوہراہوں فوارہ چوک ،چاندنی چوک ،پنڈوڑہ ،آب پارہ، پشاور موڑ اور کراچی کمپنی وغیرہ میں اکثر مزدور سارا دن اس آسرے پر بیٹھے رہتے ہیں کوئی اﷲ کا بندہ آئے گا اور انہیں کھانا بھی دے جائے گااور نقد رقم بھی دے ہی جائے گا ۔ان میں سے اکثریت ایسے مزدوروں کی ہے کہ جو کام کی تلاش میں ان جگہوں پر آکر نہیں بیٹھتے،مگر صدقہ خیرات کی صورت ان مقامات پر تقسیم ہونے والے کھانوں اور نقدی کی وصولی کے لیے بیٹھے ہوتے ہیں ۔اگر خدانخواستہ کوئی بندہ انہیں مزدوری کی نیت سے لینے آ بھی جاتا ہے تو اس سے اتنی زیادہ مزدوری مانگتے ہیں کہ وہ انہیں لے کر ہی نہیں جاتا ۔اور اس قسم کی بات یہ لوگ اس لیے کرتے ہیں کہ کام نہ کرنا پڑے ۔دیکھا جائے تو ہم ان لوگوں کو اپنے اس نیک عمل سے کام چور،تن آسان اور ہڈ حرام بنا رہے ہوتے ہیں ۔یہاں صدقہ خیرات کرنے والے اکثر مالدار لوگ100سے لے کر 1000روپے کی نقد رقم انہیں دے کر چلے جاتے ہیں ۔

این جی اوز کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو صرف ایدھی فاؤنڈیشن والے سالانہ کروڑ روپے کی رقم لنگر خانوں کے ذریعے کھانوں پر خرچ کردیتے ہیں ۔اسی طرح ایک ایک فلاحی تنظیم10سے100کروڑ روپیہ تک کی رقم اس کارِخیر کی نذر کر دیتی ہے۔البتہ اکثر تنظیمیں لوگوں کو محض راشن ،کپڑے یا نقدی دینے تک ہی محدود ہیں ،سب سے زیادہ تعلیم اورصحت عامہ کے نام پر خدمت کا زور ہے ،فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد ،مفت ادویات کی فراہمی جیسے منصوبے اپنے اندر بہت سی کہانیاں لیے ہوئے ہیں ۔ کچھ تنظیمیں لوگوں کو روزگار دینے کا فریضہ نبھا رہی ہیں ۔لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے ۔اس کام میں ڈاکٹر امجد ثاقب کی فلاحی تنظیم ’’اخوت ‘‘ سر فہرست ہے ۔اس تنظیم کا اہم ترین مشن لوگوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کے لیے بلا سود رقم فراہم کرنا ہے اور یہ تنظیم اس وقت تک ہزاروں بلکہ لاکھوں خواتین و حضرات کو روزگار میں معاونت کرکے انہیں اس قابل بنا چکی ہے کہ اب یہی ماضی کے مستحق خواتین و حضرات اپنی آمدن سے تنظیم ہذاکو بھی عطیات دینے کی پوزیشن میں آ چکے ہیں ۔اور یہ سلسلہ مزید وسعت پا رہا ہے ۔اسی طرز پر معروف گلوگارہ رابی پیزادہ نے بھی ’’رابی پیرزادہ فاؤنڈیشن ‘‘کے نام سے ایک فلاحی تنظیم قائم کر رکھی ہے ۔رابی پیرزادہ نے اپنی سابقہ زندگی سے ’’توبہ‘‘ کرکے فروغ دین اسلام اور فلاح انسانیت کے عظیم مقاصد کے لیے خود کو وقف کر رکھا ہے ۔رابی پیرزادہ کی کاوشوں سے بیسیوں گھروں کے چولہے جلنے لگے ہیں اور سینکڑوں خواتین و حضرات اپنا کاروبار کر رہے ہیں ۔گو کہ محدود وسائل کے ساتھ ابتدائی سطح پر وہ چھوٹے کاروبار میں معاونت کررہی ہیں ،جو رفتہ رفتہ وسعت پائے گا، یقینا رابی پیرزادہ کی یہ شبانہ روز کاوشیں اس کی دنیا و اخرت سنوارنے کا ذریعہ بنیں گی ۔اﷲ کی ذات رحمان و رحیم ہے ۔صبح کا بھولا اگر شام کو واپس آجائے تو اُسے بھولا نہیں کہتے ۔بڑھاپے میں تو اکثر لوگ اﷲ اﷲ کرنے لگتے ہیں لیکن اگر جوانی میں اﷲ توبہ کی توفیق دے دے تو یہ بھی اس عظیم رب کی مہربانی اور عطا ہے ۔ڈاکٹر امجد ثاقب کاسال ہا سال سے لوگوں کو روزگار دلانے کا مشن ایک صدقہ جاریہ ہے اسی طرح رابی پیرزادہ نے خدمت انسانیہ کا جو بیڑا اُٹھا رکھا ہے ۔وہ بھی باعث آفرین و تحسین ہے ۔ان کے علاوہ عالمگیر انٹرنیشنل ٹرسٹ سمیت بہت سی تنظیمیں فلاح انسانیت کے مشن کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ان سب کا یہاں تذکرہ کرنا ممکن نہیں ۔لیکن ان تنظیموں کی اکثریت روزگار کی بجائے دیگر امور کی انجام دہی میں مصروف عمل ہیں۔ انسان دنیا میں ہزاروں کام کرتا ہے لیکن اﷲ کے ہاں کونساعمل تحسین پائے گا ۔یہ تو روزِمحشر ہی پتہ چلے گا ۔لیکن ڈاکٹر امجد ثاقب اور رابی پیرزادہ کا موجودہ مشن انہیں ضرور اﷲ کے حضور سرخرو کرے گا ۔

باتیں کرنا تو انسانی فطرت ہے ۔تنقید برائے تنقیدایک لاحاصل آسان مشغلہ ہے ۔لیکن کام کرنا کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتا ۔باہمت لوگ ہی آزمائشوں میں کندن بن کر نکلتے ہیں۔اور ایسے عظیم انسانوں پر لوگ رشک کرتے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے بھی احساس پروگرام کے تحت ’بھوکا کوئی نہ سوئے ‘‘پراجیکٹ کا آغاز کیا ہے ۔لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنا چاہئے کہ رزق کا وعدہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی مخلوق سے کر رکھا ہے ،اس لیے کوئی انسان حتی ٰ کہ چرند پرند بھی رات کو بھوکا نہیں سوتا ۔اﷲ اپنے بندے کو وہاں سے رزق پہنچاتا ہے کہ جہاں انسان تصور بھی نہیں کر سکتا ۔فی زمانہ لوگوں کو مفت خوراک ، مفت کپڑے وغیر ہ دینے کا سلسلہ کم کرنے کی ضرورت ہے ۔ملک بھر میں سرکاری و نیم سرکاری این جی اوز اور انفرادی سطح پر ’’دسترخوان‘‘چلانے والے اگر اپنی یہ ساری رقم انڈسٹری یا کسی کاروبار میں لگانے کی سعی کریں تو یقینا ایک ایک کارخانہ ،ایک ایک منصوبہ 500سے1000خاندانوں کی کفالت کے لیے باعزت روزگار دلانے کا ذریعہ بن سکتاہے اورجب کوئی شخص محنت کرکے کھانے اور خود کمانے کی کوشش کرے گا تو اﷲ اس کے کام روزگار میں برکت ڈالے گا اور وہی شخص جو ’’دسترخوان ‘‘لنگر اور صدقہ خیرات کی آس پر کام نہیں کرتا ۔جب اپنے پیروں پر کھڑا ہوگا تو اﷲ ربّ العزت اسے وہ مقام بھی عطا کردیں گے کہ وہ اپنی کمائی سے دوسروں کی مدد کرنے کے قابل بن سکے گا ۔کل تک لوگوں کے آگے’’ دستِ سوال ‘‘کرنے والا جب اپنے ہاتھ سے دوسروں کو دینے لگے گا تو اس کا یہ عمل اﷲ اور اس کے رسول ؐ کی نگاہ میں پسندیدہ ترین قرار پائے گا ۔کیونکہ دینے والے ہاتھ کو لینے والے ہاتھ سے افضل قرار دیا گیا ہے۔بھکاری کی اس دنیا میں عزت ہوتی ہے اور نہ ہے روزِ محشر اس کی بخشش ہو گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 130366 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.