وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
عادت اس کی بھی آدمی سی ہے
''وقت وقت کی بات ہے'' یہ کہاوت تو بہت سنی ہو گی مگر یہ کہاوت سنائی کسے
جاتی ہے یہ معلوم نہیں ہو گا-یہ بات ہر اس شخص کو کہی جاتی ہے جو اپنے مقام
سے کافی آگے جا چکا ہو یعنی ترقی کر کے کامیاب ہو چکا ہو یا پھر ناکام ہو
چکا ہو-وقت ضائع کرنے والے ہمیشہ ہی نقصان اٹھاتے ہیں جبکہ وقت کا بھرپور
استعمال کرنے والے دنیا میں کامیاب و کامران ہوتے ہیں-
ہر انسان کے پاس دن کے چوبیس گھنٹے ہی میسر ہیں پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ
ایک انسان انتہائی کامیاب ہوتا ہے جبکہ دوسرا انتہائی ناکام-ایک شخص تمام
کام مکمل کرنے کے بعد کئی دیگر سرگرمیوں میں بھی مصروف عمل ہوتا ہے جبکہ
دوسری جانب ایک وقت ضائع کرنے والا انسان ایک ہی عذر پیش کرتا ہے کہ ابھی
میرے پاس وقت نہیں-اگر کسی مشہور شخصیت کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو
معلوم ہو گا کہ ان کے وقت کا ہر لمحہ ایک حساب کتاب کے مطابق گزرتا ہے-تمام
ضروری ملاقاتوں کے وقت کا باقاعدہ گوشوارہ بنایا جاتا ہے-کام، گھر،
رشتیدار،دیگر تقریبات کو کب کتنا وقت دینا ہے وہ سب ایک منظم ترتیب سے لکھا
جاتا ہے-مثلاً اگر کوئی مشہور اداکار ہے تو اس کے شوٹنگ کی تاریخیں، اندورن
ملک اور بیرون ملک سفر،مختلف تقریبات میں شرکت کے متعلق تمام معلومات اس کے
سیکرٹری کے پاس درج ہوں گی-ایسے افراد اپنا وقت ہرگز غیر ضروری باتوں یا
سوشل میڈیا کے استعمال میں ضائع نہیں کرتے-یہی وجہ ہے کہ مشہور
سیاستدان،ادبی شخصیات، دفاعی امور یا شوبز سے تعلق رکھنے والے افراد موبائل
اور خصوصاً فیس بک انسٹا جیسی ایپس استعمال نہیں کرتے-ان کا دھیان اور توجہ
اپنے کام کی جانب مرکوز ہوتی ہے-اپنے کام کو بھرپور طریقے سے انجام دینے کے
لیے ایسے افراد اپنے ساتھ کئی افراد کی مدد حاصل کرتے ہیں جو ان کے کام میں
معاون ہوں-
بورڈ یا یونیورسٹی میں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ سے ہمیشہ ان کے پڑھائی
کے دورانیے کے متعلق سوال کیے جاتے ہیں-اکثر طلبہ پڑھنے کے لیے ایک خاص وقت
متعین کرتے ہیں مگر تفریح کے لیے وہ جسمانی ورزش اور دیگر ایسے کھیلوں کا
انتخاب کرتے ہیں جو کہ دماغی نشوونما میں معاون ثابت ہوں-
دوسری جانب دنیا کا سب سے آسان کام تنقید اور وقت ضائع کرنا ہے-وقت ضائع
کرنے کے لیے کچھ بھی کرنا نہیں پڑتا بلکہ یہ خود ہی ضائع ہو جاتا ہے کیونکہ
سدا عیش دوراں دیکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
ہر گزرتا پل حال کو مرضی میں تبدیل کر دیتا ہے اور ماضی پلٹ کر واپس نہیں
آتا-اس لیے بہتر یہی ہے کہ اپنے حال کو بہتر سے بہتر بنایا جائے-وقت کی
ترتیب اور مینجمنٹ ایک باقاعدہ فن ہے جس کو سیکھایا جاتا ہے-
کام وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے کے لیے کچھ اصولوں پر عمل کیا جاتا
ہے-ضروری اور قابل ترجیح کاموں کو فوری طور پر کیا جاتا ہے اور اہم کاموں
کو بھی پہلی فرصت میں انجام دیا جاتا ہے-اس طرح وہ تمام کام جو اہم ہیں وہ
کبھی فوری کاموں کی لسٹ میں نہیں آتے مثلاً اگر کوئی پراجیکٹ ملا ہے تو اسے
وقت سے پہلے مکمل کر لیا جائے تاکہ عین وقت پہ مسئلہ نہ بنے-اگر امتحانات
ہونے ہیں تو پہلے سے اتنی تیاری کر لی جائے کہ آخری وقت صرف دہرائی کرنے کے
لیے مختص ہو-
ضروری اور اہم کاموں کی ترتیب کے ذریعے ہی وقت کی منظم تنظیم کی جا سکتی
ہے-کچھ غیر ضروری اور فالتو کام دن کا بیشتر حصہ ضائع کر دیتے ہیں جس کے
باعث کاموں کو انجام دینا مشکل ہی نہیں بسا اوقات نا ممکن ہو جاتا ہے-
ان غیر ضروری کاموں میں سوشل میڈیا اور ٹی وی کا بے جا استعمال شامل ہے-ان
کا استعمال ہمیں فوری کاموں سے دور کر دیتا ہے اور یہ غیر ضروری کام دن کا
بیشتر حصہ لغو عادات میں بیتانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے-
وقت کی تنظیم کے لیے کاموں کو ان کی اہمیت کے مطابق ترتیب دینے کی ضرورت
ہوتی ہے اس طرح ہم کم وقت میں زیادہ کام کر سکتے ہیں اور کم وقت میں بہتر
کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں-
وقت ایک قیمتی اثاثہ ہے جس کا احساس اس کے خاتمے کے بعد ہی ہوتا ہے-جو اس
سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا وہی کامیابیوں کی منازل طے کرتا ہے-
کامیابی کی سیڑھی پہ قدم رکھنے کے لیے وقت کا بیشتر حصہ مثبت انداز میں صرف
کرنے کی کوشش کریں تاکہ کامیابی آپ کے بھی قدم چومے
|