تو مجھے لائک کر میں تجھے لائک کرونگا

رمضان کے دوسری عشرے سے شروع ہونے والے اسرائیل اورفلسطین کے مسئلے کے بعددنیا بھر میں مسلمان اسرائیل کے خلاف آگ بگولہ ہورہے ہیں۔ اسرائیلی افواج کی ظالمانہ حرکتوں کی شدید مذمت کی جارہی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک اسرائیل دہشت گردانہ حرکتوں پر تبصرے کررہے ہیںاور اسرائیل کو خاموش رہنے کی نصیحت کررہے ہیں۔ وہیں آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریس(او آئی سی) نے اس معاملے کیلئے ہنگامی نشست کا اہتمام کیا تھا ، جس کے بعد ہمیشہ کی طرح مذمتی قرارداد منظور کی گئی اوراسرائیل جنگ بندی کرنے کی صلاح دی گئی۔ فلسطین پر ہورہے حملوں پر قرارداد منظور کرنا اوراسرائیل کو چپ رہنے کی صلاح دینے اس مسئلے کا حل نہیں تھا، بلکہ اسرائیل جیسے معمولی ملک کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاسکتاتھا لیکن عرب ممالک کی یہ ذہینی کمزوری یا مردانہ کمزوری رہی ہوگی کہ وہ اسرائیل کی حرکتوں کا جواب دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ او آئی سی کے ماتحت آنے والے 57 اسلامک ممالک کے پاس جو افواج ہیں ان افواج میں سے اگر دس دس ہزار فوجیوں کو بھی اسرائیل کے خلاف جنگ کرنے کیلئے لاکھڑا دیا جاتا ہے تو 5لاکھ 70 ہزار فوجی اکٹھا ہوسکتے ہیں۔ جبکہ اسرائیل کے پاس محض 70 ہزار فوجی ہی موجودہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر اسرائیل کے خلاف یہ عرب ممالک کیوں نہیں جارہے ہیں سعودی کو یمن کے حوثیوں سے پرابلم ہے تووہ حملہ کرنے کیلئے تیار ہے۔ پاکستان کو افغان طالبان سے پرابلم ہے تو وہ افغانستان میں اپنی فوجوں کو حملہ کرنے کیلئے بھیج دیتا ہے۔ عراق کو ایران سے پرابلم ہے تو ایک دوسری کی فوجیں حملوں کیلئے تیار ہیں، مصر کو لیبیا سے مسئلہ ہے تو وہ اپنی فوجیں بھیج کر لیبیا کا تختہ الٹ دیتا ہے۔ جسطرح سے مسلم ممالک کو ہردوسرے ملک میں اپنا دشمن نظرآتا ہے اوراگر نظرنہیں آتا ہے تو وہ صرف یہودی نظرنہیں آتے جو مٹھی بھرہیں۔ خیر یہ تو معاملہ انٹرنیشنل ہے اس پر ہم بات نہیں کریںگے۔ کیونکہ اس پر بات کرنے کیلئے ہمیں خود بھی او آئی سی کے میز پر بیٹھنا پڑیگا۔ لیکن ہم ہندوستانی مسلمان اپنی طرف سے کیا کرسکتے ہیں وہ تو اپنی حد میں رہ کریں۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ سوشیل میڈیا پر بحث ومباحثے ہورہے ہیں کہ کوئی سعودی سیلفی علماء کو گالی دے رہا ہے تو کوئی پاکستانی سنی علماء کو گالی دے رہا ہے کہ انکی وجہ سے آج فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہورہا ہے۔کوئی کہہ رہاہے کہ واٹس ایپ پر ڈی پی ڈالیں گے کہ وی اسٹانڈ وتھ فلسطین (we stand with palestine)تو کچھ کہہ رہے ہیں کہ ہیاش ٹیاگ اسرائیل ٹریرسٹ ڈال کر اپنے غصے کا اظہار کریں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ فیس بک نے فلسطین کے مظالم کی ویڈیوز ڈلیٹ کرنا شروع کیا ہے اس لئے فیس بک کا استعمال بند کریں۔ لیکن ہم نے اپنی روایت کو بھلادیا ہے۔ہم نے سوشیل میڈیا میں ایک دوسرے کی مذمت کرتے ہوئے جنگ کا اعلان کیا ہے اوریہ ایک ایسی جنگ جس میں ہمارے اپنے فرنڈ لیسٹ کے لوگ ہی فیس بک پر دیکھتے ہیں اورڈی پی و اسٹیٹس کو اپنے موبائل نمبر کو سیو کرنے والے ہی دیکھ پاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ مسلمان بھارت کی حکومت سے مطالبہ کرتے کہ وہ اسرائیل کی دہشت گردی کو روکنے کیلئے دبائو ڈالے ، فلسطین کی مدد کریں بھارت میں موجود اسرائیلی سفارت خانے کو خط ، میمورنڈم یا ای میل کے ذریعہ سے اپنا احتجاجی مواد بھیجتے ، بھارت میں موجود سفارت خانے کے سامنے کم ازکم احتجاج کرنے کی جرت کرتے، بھارت کے اہم شہروں میں اسرائیل کی دہشت گردی کے خلاف میڈیا میں بحث ومباحثے کیلئے احتجاج کرتے، فلسطینوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیلئےکم ازکم انہیںخط لکھ کر باآورکرتے، بھارت کی حکومت سے کہتے کہ فلسطینوں کو طبی امداد پہنچائی جائے۔مگریہ سب کرنے سے ہمیں فرصت کہاں ہے، فیس بک پر انگلی گھماتے ، گھماتے ایک لائک کردیا اورواٹس ایپ پر اسٹیٹس ڈال کر اپنا فرض ادا کرلیا۔ یہودی ہم پر اس لئے مسلط ہورہے ہیں کہ ہم نےاپنی ذمہ داریوں کو روایت میں تبدیل کرلیاہے اگر اسے فرض سمجھتے تو آج حالت اس قدر بدتر نہ ہوتے۔ اب ہمارا مشورہ یہ بھی ہے کہ سوشیل میڈیا پر تومجھے لائک کر میں تجھے لائک کروں کا کے مقصد کو چھوڑ کر بامقصد وبامعنی احتجاج کریں، سلسلہ وار خط بھارت کی حکومت ، فلسطینی کائونسلیٹ اوراسرائیلی کائونسلیٹ کو لکھ کر اپنا حالِ دل بیان کریں۔ مذمت کریں، تائید کریں ، جوکرناہے کریں لیکن سوشیل میڈیا سے باہر آئیں ۔

 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.