میں ڈرتی ہوں

مہوش کرن (اسلام آباد)
یہ کیسا جنگل ہے؟ میں، جس میں رہتی ہوں۔ جو بھرا ہے خونخوار انسانوں سے، کسی روپ میں، کسی لباس میں، چاہے کسی بھیس میں؛ یہ سب کسی جانور سے کم تو نہیں۔ ہوس کی بھوک اتنی زیادہ ہے، جو کسی طرح مٹتی ہی نہیں۔ کبھی جنسی تسکین کی خاطر مرد عورت کے پیچھے ہے، کبھی ناجائز رشتے کے نام پر عورت مرد کے پیچھے ہے۔ جب ان سب کاموں سے دل بھر گیا، تو مرد‘ مرد ہی کے پیچھے ہو گیا اور عورت کو عورت ہی بھلی لگنے لگی۔ اتنی غیر فطری حرکت جو انسان کو اس نہج تک لے آئی کہ آج انسان ہم جنس پرستی کے بعد، بچوں یعنی پیڈوفیلیا سے ہوتے ہوئے جانور تک جا پہنچا۔ جی ہاں! جانور کے ساتھ انسان کا جنسی عمل۔

اب تک تو ہم اسی بات کو روتے تھے کہ محرم رشتے بچیوں کو جنسی طور پر ہراساں کر رہے ہیں، نشانہ بنا رہے ہیں، یا چھوٹے بچے بچیاں جنسی تشدد کا شکار ہو رہے ہیں۔ کیوں کہ زنا یا ہم جنس پرستی تو لوگ اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ اس پر یہ معاشرہ اعتراض نہیں اٹھاتا۔ مگر اب اس پر کیا کہیں کہ الفاظ نہیں ملتے، بس جھرجھری سی آتی ہے۔ جب یہ خبر سنی کہ کچھ لڑکے اپنی پالتو بلی کے ساتھ جنسی فعل کرتے ہیں۔ جب یہ پتا چلا کہ کچھ ممالک میں باقاعدہ سنٹرز ہیں، جہاں سور اور بھیڑیں وغیرہ خوبصورتی سے سجا بنا کر، نکھار سنوار کر رکھی جاتی ہیں کہ مرد انہیں اس مقصد سے استعمال کرنے آتے ہیں اور جب یہ پتا چلا کہ میرے اپنے ملک میں بطخ اور مرغی بھی اس بھیانک فعل کے لیے استعمال ہوتی ہے، تو سچ مچ اپنے احساسات بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں رہے۔

پہلے تو صرف ریڈ لائٹ ایریا کے نام سے تاریک گلیاں مشہور تھیں، جہاں صرف رات کے اندھیرے میں گناہ ہوتے تھے، مگر اب کیا کہیں کہ جب دن دھاڑے یہ حیوانیت کھیلتی ہے۔ اُن کی بدنامی اور گندگی نے معاشرے کو کم سجایا تھا کہ اب ایک اور گندگی کا ٹیکا۔ کیا جانے یہ غلاظت کی ہوا کس سمت کو رخ کر کے چل پڑے اور کس کس مسلم ملک و ملت کی نوجوان نسل کو مزید ملیا میٹ کر دے۔

آج کی مغرب پسند فرسودہ روایات میں جکڑی نوجوان نسل ذہنی طور پر الجھی ہوئی اپنے دین و آخرت سے بیگانہ بس کھانا، سونا اور شہوانی خواہشات پوری کرنا کی عکاس بن کر رہ گئی ہے۔ جسے یہ تک معلوم نہیں ہے کہ اس کا بظاہر نظر آتا سراپا کیا ہے اور کیا نہیں۔ اگر وہ مرد نظر آ رہا ہے لیکن خود کو اندر سے عورت محسوس کر رہا ہے، یا عورت محسوس کرنا اس کی خواہش ہے تو تخلیق خدا سے ہی انکار کر کے خود کو تبدیل کرنے کا عمل شروع کر دے گا۔ یا اگر عورت ہے اور خود کو مرد کے روپ میں دیکھنا پسند کرتی ہے تو اپنی خلق میں تبدیلی کروا کر یکسر بدل جائے گی۔ یعنی وہ مردانگی و نسوانیت جو اﷲ کی طرف سے ملی ہے اس کو تباہ کر کے اپنی من مانی کر ڈالی، گویا اﷲ کے فیصلے سے انکار کر کے اپنے طور پر بہتر سمجھا کہ میرا یہ روپ زیادہ بہتر رہے گا۔ یہاں تک کہ یہ نوجوان اس حد تک گراوٹ کا شکار ہو چکے ہیں کہ بظاہر نظر کچھ آ رہے ہیں لیکن خود کو اس کی مخالف جنس ثابت کر رہے ہیں کہ ہمیں زیادہ معلوم ہے اپنے احساسات کا، قدرت کون ہوتی ہے فیصلہ کرنے والی۔

تو کیا آج انسان کسی حیوان سے کم ہے؟ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہے کہ جانور بھی خود کو وہی سمجھتے ہوئے جو اﷲ نے بنایا ہے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں اور جنسی فعل کے لیے اپنی ہی مخالف جنس کا استعمال کرتے ہیں۔ نہ کہ انسان جسے جب جو مل جائے وہ کام چلا لیتا ہے اور خلق کی تبدیلی ہر طرح سے کرتا ہے۔ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ یہ سب کر کے تو شیطان کی مکمل پیروی کر رہا ہے۔ ’’اور البتہ انہیں ضرور گمراہ کروں گا اور البتہ ضرور انہیں امیدیں دلاؤں گا اور البتہ ضرور انہیں حکم کروں گا کہ جانوروں کے کان چیریں اور البتہ ضرور انہیں حکم دوں گا کہ اﷲ کی بنائی ہوئی صورتیں بدلیں، اور جو شخص اﷲ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنائے گا وہ صریح نقصان میں جا پڑا۔‘‘(سورۃ النساء، آیت 119)

وہ قوم جو لواطت کرتے ہوئے عذابِ الٰہی کا شکار ہوئی اور اﷲ نے انہیں اُسی حالت میں محفوظ کر دیا تا کہ دنیا ان سے عبرت پکڑے، مگر اس دنیا کے انسانوں نے عبرت پکڑنے کے بجائے، اُن لاشوں کو پکڑ کر میوزیم میں سجا دیا اور آج کے دور میں ان جیسوں کے حقوق کے لیے قانون پاس کرنے شروع کر دیے۔ کیا ایسے عبرت حاصل ہوگی، کیا ایسے سبق مل سکے گا؟سو اب میں ڈرتی ہوں ہر انسان سے، اِن انسانوں کے ہزاروں کردار ہیں۔ کیا پتا وہ بھیڑ کی کھال میں چھپا بھیڑیا ہو، کیا پتا وہ اندر سے کتنا بڑا حیوان ہو، کیا پتا کس روپ میں چھپا کون سا بہروپ ہو؟ان مسائل کا میرے پاس کوئی حل نہیں، میں کیا حل پیش کروں کہ یہ معاملات میرے اختیار میں نہیں۔ بعض اوقات ہمارے پاس کسی مسئلے کا کوئی حل موجود نہیں ہوتا، سوائے اپنی نسلوں کے لیے ہر شر سے محفوظ رہنے کی دعا کرنے کے اور ان کی تربیت کرنے کے، میں اور کر بھی کیا سکتی ہوں، سوائے اﷲ پر بھروسہ کرنے کے۔اے اﷲ! ہمیں حق کو حق دکھا اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور باطل کو باطل دکھا اور اُس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین! یا رب العالمین
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1029231 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.