نفرت اور نصرت

حدیث نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم ، اﷲ ربّ العزت ارشاد فرماتا ہے "مجھے سب سے زیادہ عزیزوہ ہے جوقدرت ر کھنے کے باوجود معاف کردے"۔ہمارے معاشرے میں طاقتور تودرکنارزیادہ تر کمزور بھی منتقم مزاج ہوتے ہیں ۔طاقتور کی" گولیاں" جبکہ کمزور کی "گالیاں" ان کے انتقام کی آگ کوبجھاتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہم آسانی کے ساتھ ایک دوسرے کو"معاف" اورایک دوسرے کیلئے اپنا دل" صاف" نہیں کرتے۔باب العلم حضرت علی رضی اﷲ عنہ کایہ روح پرور قول ہرعہد کے انسانوں کیلئے راہ نجات ہے ،"دوسروں کواس طرح معاف کیا کروجس طرح تم اﷲ رب العزت سے معافی کی امید رکھتے ہو"۔ہم اپنے" کبیرہ" گناہوں کے باوجود خود کوتوفوری معاف کردیتے ہیں لیکن دوسروں کے" صغیرہ" گناہ پرہم اُن کے ساتھ کسی قسم کی نرمی کامظاہرہ نہیں کرتے۔ ہماری ایک دوسرے کے ساتھ بیجا تلخیاں ہمارے درمیان دُوریاں پیداکرتی ہیں ۔ زیادہ ترانسانوں کے ضمیر کا اندرونی نظام عدل اپنے بڑے بڑے گناہوں بلکہ مجرمانہ سرگرمیوں سے تو چشم پوشی کئے رکھتا ہے لیکن دوسروں کی معمولی گستاخی اور کوتاہی کوجوازبناتے ہوئے اُن کے اندرکامتعصب منصف بیچاروں کا سخت ترین محاسبہ کرتا ہے۔ دوسری طرف ایک ایسا انسان جو زندگی بھر"گناہوں "کی تاریک "راہوں"پرچلتا رہا ہولیکن اگرالرحمن والرّحیم کی قدرت اوربے پایاں رحمت اس کی کایا پلٹ دے اوروہ اپنے صادق جذبوں کے ساتھ راہ حق پرآجائے توہم اُسے اِس نئے روپ میں قبول نہیں کرتے بلکہ اُ س میں آنیوالی مثبت تبدیلی کو ڈھونگ اورناٹک قراردیتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ انسان جو "بچپن "سے "پچپن "تک صراط مستقیم پرچلتا رہا ہو لیکن اگر اِس سے جانے انجانے میں کوئی معمولی غلطی سرزدہو یاکوئی اس پرتہمت لگادے توہمارے معاشرے کے زیادہ تربدگمان اورکچے کانوں والے لوگ اُسے فوری مجرم ڈکلیئر کرتے ہوئے سزابھی سنادیتے ہیں ۔ پچھلے دنوں پاکستانیوں نے ماہ صیام کے اختتامی ایام میں سوشل میڈیا پر ایک معتکف کو اپنے ہاتھوں میں قرآن مجید فرقان حمید اٹھائے اورکلام الٰہی کی تلاوت کرتے ہوئے اپنے ساتھی معتکف کا قیمتی موبائل فون چوری کرتے ہوئے دیکھا،اس شرمناک منظر نے ہمارے قلوب کو چھلنی کردیا لیکن وہ کردار"ریڈہینڈڈ" گرفتاری ،اسیری اورضمانت پر"رہائی" کے بعد پولیس کی" رسوائی" میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔وہ چور ہمارے ریاستی نظام کوناکام قراردیتے ہوئے ریاستی اداروں کوبدنام کرے گا۔پچھلے دنوں ایک بھائی بہن نے کسی شاہراہ پرپولیس کی ایک''پارک''گاڑی کے ساتھ بدنیتی کے تحت ویڈیوبنائی جس میں انہوں نے اپنے ساتھ مبینہ پولیس گردی کاواقعہ پیش آنے کا تاثردیا جبکہ سوشل میڈیا کے شتربے مہار ـ"مہربانوں" نے سچائی تک رسائی یقینی بنائے بغیر وہ ویڈیووائرل کردی تاہم تحقیقات کے بعد اس بھائی بہن کاجھوٹ بے نقاب ہوگیا ۔ہمارے ہاں جس کا"بس" چلتا ہے وہ دوسروں کو"بے بس"اور"بے آبرو" کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑتا۔ہم اپنے سکیورٹی اداروں اوران کے فرض شناس اہلکاروں کامورال اوران کی عزت وشہرت عادی چوروں ، شعبدہ بازوں اورشرپسندوں کے رحم وکرم پرنہیں چھوڑسکتے ۔

جس طرح حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے انسانوں کوایک دوسرے کی خامیوں سمیت قبول کرنے کا درس دیا ہے اس طرح ہمیں اپنے اداروں اورمحکموں کوبھی ان کی بعض کمزوریوں اورانتظامی خامیوں سمیت قبول کرناہوگا ۔معاشرے سمیت ہرمحکمے میں اصلاح اورمزید بہتری کی ضرورت سے انکار نہیں کیاجاسکتا لیکن اگر ہم دوسروں پر تعمیری تنقیدکرنے اورانہیں مفیدتجاویز کی بجائے نفرت دیں گے تویقینا بدلے میں ہمیں بھی نفرت،محرومی اورمایوسی ملے گی لہٰذاء عزت دار کی طرح ایک دوسرے کوعزت دیں اورجہاں ضرورت ہووہاں اچھی نیت کے ساتھ ایک دوسرے کونصیحت بھی کریں۔چوریقینا پولیس کیخلاف شورمچاتے آئے ہیں اورآئندہ بھی مچاتے رہیں گے تاہم "شعور"سے عاری مٹھی بھر عناصر کا سکیورٹی اداروں کیخلاف "شور" کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔ پولیس کسی چور کے شورسے مرعوب ہوئے بغیر معاشرے کوان ناسوروں سے پاک کرکے دم لے گی۔ ہماری ریاست مقروض اورمتعدد بحرانوں سے نبردآزما ہونے کے باوجود جنت نظیر ہے جبکہ افواج پاکستان ،رینجرز ،ایف سی،پولیس اورجیل پولیس کی مجموعی خدمات قابل قدر بلکہ قابل رشک ہیں۔ہمارے اداروں اورمحکموں کادم غنیمت ہے ،ہم ان کے بغیر ایک پل کیلئے بھی زندگی کاتصور نہیں کرسکتے۔آپ ہمسایہ ملک بھارت کودیکھیں وہاں آدم خورکورونا کی یلغارسے صف ماتم بچھ گئی ہے کیونکہ وہاں مودی سے ڈَفرحکمران اوران کے زیراثرنان پروفیشنل ادارے اپناکرداراداکرنے میں ناکام رہے جبکہ الحمدﷲ بھارت کی نسبت پاکستان میں کوروناکافی حدتک کنٹرول میں ہے اوراس کاکریڈٹ ہمارے ڈاکٹرز،نرسز ،پیرامیڈیکل سٹاف ،فوج ، رینجرزاورپولیس کے فرض شناس آفیسرزو اہلکاروں کوجاتا ہے۔لاہورمیں انتھک سی سی پی اوایڈیشنل آئی جی غلام محمودڈوگر ،ڈی آئی جی آپریشنز لاہورساجدکیانی ، ڈی آئی جی انوسٹی گیشن شارق جمال خان ،ایس ایس پی انوسٹی گیشن لاہورامیرعبداﷲ خان نیازی ،ایس ایس پی ڈولفن راشد ہدایت،ایس ایس پی سی آئی اے لاہور شعیب خرم جانباز اوران کے ٹیم ممبرزایس پی صفدر رضاکاظمی، ایس پی دوست محمد،ایس پی صاعدعزیز،ایس پی افتخارعاصم ،اے ایس پی محمدشعیب میمن ،اے ایس پی سدرہ خان ،ڈی ایس پی مستحسن شاہ،ڈی ایس پی ملک راشد،فاروق اصغراعوان ،محمدعتیق ڈوگر،میاں لیاقت علی،عبدالواحد،غلام عباس،عمران قمرپڈانہ ،اسد عباس اورشبیراعوان نے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث عناصر کیخلاف کامیاب کریک ڈاؤن کرنے کے ساتھ ساتھ کوروناایس اوپیز کی پاسداری یقینی بنانے کیلئے گرانقدرخدمات انجام دی ہیں۔سی سی پی اولاہورغلام محمودڈوگر کی قیادت میں شہرلاہورمیں متعدد اورموثرفلیگ مارچ کے ثمرات سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔ عمر شیخ کے ہاتھوں جولاہورپولیس چار ماہ میں بے حال ہوگئی تھی اسے غلام محمودڈوگر نے پھر سے فعال اوراس کامورال بلندکردیا ہے۔سرگودھا ڈویژن کے پروفیشنل آرپی او اشفاق احمدخان ،ڈی پی اوسرگودھا ذوالفقاراحمداورڈی پی اوخوشاب محمدنوید کی کامیابی وکامرانی اورنیک نامی کی شہرت کاشہری ڈنکا بجارہے ہیں۔خوشاب میں کشت وخون سے پاک پرامن ضمنی الیکشن کے انعقادکاکریڈٹ نیک نیت وانتھک اشفاق احمدخان اورزیرک محمدنوید کوجاتا ہے۔

جوہمارے آس پاس وطن فروش ہیں ان کیلئے افواج پاکستان کاوجود ناپسندیدہ اورناقابل برداشت ہے جبکہ معاشرے میں سرگرم منشیات فروش ، عصمت فروش،ملاوٹ خور،سودخور ،چور،ڈاکو، پیشہ ورقاتل،قمارباز ، پتنگ ساز،اوباش،پتنگ فروش،پتنگ بازاورقبضہ گروپوں سمیت مختلف سماج دشمن مافیاز کا پولیس کوایک ولن سمجھنا فطری امر ہے جبکہ انسانیت و پاکستانیت کے علمبردار وں کے نزدیک پاک فوج ،رینجرز اورپولیس سمیت مختلف سکیورٹی فورسز سے وابستہ مستعد باوردی محافظ ان کے محبوب اورمحسن ہیں۔لاہورسمیت پنجاب پولیس کے پندرہ سو سے زائدآفیسرز اوراہلکاروں نے ہمارے بچوں اورپیاروں کی زندگیوں سمیت معاشرے کومجرمانہ بیماریوں اورسرگرمیوں سے بچاتے ہوئے جام شہادت نوش کیا،ان شہداء کی اپنے محکمہ پولیس کے حق میں شہادت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔جس وقت ہمارے کچھ بے لگام بچے ون ویلنگ کررہے ہوتے ہیں تو اُس وقت پولیس کی وردی میں یہ محافظ ان کی قیمتی زندگی کوموت کے چنگل سے بچانے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ہمیں اورہمارے پیاروں کوشاہراہوں پرنادیدہ قاتل ڈور سے بچانے کابیڑا بھی انہوں نے اٹھایا ہے ۔منشیات فروشوں کی سرکوبی بھی ان کی ترجیحات میں سرفہرست ہے ۔پولیس کی طرح جومحکمہ بھی" غیرمقبول" کام کرے گاوہ" مقبول" نہیں ہوسکتا۔

ہمارے نظام تعلیم میں100میں سے 33نمبرز والے کوپاس کردیا جاتا ہے لیکن ہم ایک دوسرے کوتعصب کی عینک سے دیکھتے ہوئے فیل کردیتے ہیں ۔جس طرح امتحانات میں ہرسوال کے جواب پر علیحدہ نمبرملتے ہیں اورمجموعی نمبرز کی بنیادپرفیل یاپاس کافیصلہ کیا جاتا ہے اگراس طرح ہم ایک دوسرے کومختلف خانوں میں تقسیم کرتے ہوئے مجموعی نمبرز کاتعین کریں تو میں وثوق سے کہتا ہوں کوئی کسی سے مایوس، متنفر اوربیزار نہیں ہوگا کیونکہ معاشرے کاہرمفید شہری اپنے کسی نہ کسی کردار میں بہت شاندار ہوتا ہے۔اس طرح ریاستی اداروں اورمحکموں کی مجموعی کارکردگی کاجائزہ لیاجائے تووہ نمایاں نمبرزکے ساتھ پاس ہیں۔ہمار ے باورچی خانے میں جس بھی کمپنی کی ماچس ہواس میں سے کچھ تیلیاں ضرور"مس فائر" کرجاتی ہیں اورچولہا نہیں جلتا تاہم مجموعی طورپرماچس ہمارے باورچی خانوں کی ناگزیر ضرورت ہے ۔اس طرح ہمارے محکموں میں کچھ آفیسراوراہلکار "مس فٹ" ہوتے ہیں لہٰذاء وہ اپنے فرض منصبی کی بجاآوری میں کئی بارناکام ہوجاتے ہیں لیکن ان کی انفرادی ناقص کارکردگی کوبنیادبناتے ہوئے محکموں کی مجموعی طورپرقابل قدر کارگزاری پرانگلی نہیں اٹھائی جاسکتی لہٰذاء ہم آپس میں اوراپنے اداروں واہلکاروں کے ساتھ بیجا نفرت یاتعصب کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ہم اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنے اپنے محلات تعمیر کرتے ہوئے جس طرح بیرونی خطرات سے یقینی حفاظت کیلئے دیواروں کی مضبوطی پر بہت فوکس کرتے ہیں ،اس طرح ہماری سکیورٹی فورسز بھی ہماری ڈھال ہیں لہٰذاء انہیں کمزور نہیں کیاجاسکتا۔جہاں کمزوریاں یاخامیاں ہیں وہ" دور"کرناہوں گی لیکن شہریوں اوراداروں کے درمیان" دوریاں" زہرقاتل ہیں۔ریاستی ادارے اورصوبائی محکمے ہمارے اپنے ہیں ان کے استحکام اوردوام کیلئے معاشرے کاہر فرداورطبقہ اپنا اپنا تعمیری کرداراداکرے ۔کسی آفیسر یااہلکار کے کالے کرتوت منظرعام پرآنے سے اداروں کے چہروں پرسیاہی اورکیچڑ اچھالنا انصاف نہیں۔ہم ایک معاشرے کے فرد ہیں ،ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔یادرکھیں24/7کام کرنیوالے آفیسرزاوراہلکاروں سے غلطیاں ہو ں گی لیکن غلطی اورمجرمانہ غفلت میں فرق کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اپنی اوراپنے پیاروں کی طرح سکیورٹی اہلکاروں کی معمولی غلطیاں نظراندازکردیں کیونکہ ہماری "نفرت" ان کی اجتماعی" نصرت" پراثراندازہوتی ہے ۔دشمن کی گولیاں ہمارے جانبازوں کو شہیدیازخمی کرسکتی ہیں لیکن ہم وطنوں کی گالیاں جوزخم لگاتی ہیں وہ زندگی بھرنہیں بھرتا۔اپنے اداروں اوراہلکاروں کی قدر کریں ورنہ ان ملکوں کاانجام یادرکھیں جہاں ادارے نحیف اورہم وطنوں کی نفرت کانشانہ تھے ۔
 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 90682 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.